آمناسامنا: وقت کی ایک اہم ضرورت

ذرائع ابلاغ جمہوریت کابہت ہی کارگراورمؤثرہتھیارہے۔اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظرہی اسے جمہوریت کاچوتھاستون کہاگیاہے۔اکیسویں صدی میں سماج کوبدلنے میں جن چیزوں کااہم کرداررہا ہے ان میں سرفہرست ذرائع ابلاغ ہے۔سائنس وٹکنالوجی کی ترقیات نے ذرائع ابلاغ کوبالکل نیارخ دیدیا ہے جس نے بہت تیزی کے ساتھ سماج کی فکرکوبدلنے میں اہم اورمؤثرکرداراداکیاہے ۔ایک دورہواکرتاتھا جب انسان اپنے قرب وجوارکی خبروں سے بھی کئی دنوں بعدواقف ہواکرتاتھا اوردوردرازمقامات اورقومی وبین الاقوامی خبروں سے واقفیت کے لئے ہفتوں اورمہینوںلگ جایاکرتے تھے،لیکن اس زمانہ کے اعتبارسے جس وقت جوخبرانہیں ملتی وہی ان کے لئے بریکنگ نیوزہوتی ،پھرزمانہ نے تھوڑی ترقی کی اورریڈیوکی ایجادہوئی ،اس ایجادنے خبروں کی ترسیل کے وقفہ کوبہت حدتک کم کردیااسی طرح بتدریج ٹیلیویزن ،پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اورپھرایک وہ دورآیا جس میں انٹرنیٹ نے ان ذرائع ابلاغ کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں بہت ہی جلداوربڑی تیزی کے ساتھ کامیاب ہوگیا۔یہیں سے ذرائع ابلاغ میں وہ انقلاب پیداہواجس نے پورے سماج کی تصویرہی بدل کررکھ دی ۔
یہ سچ اپنی جگہ مسلم ہے کہ ذرائع ابلاغ کی دنیامیں سب سے اہم کردارپرنٹ میڈیاکارہاہے ۔کیوں کہ پرنٹ میڈیاہی ذرائع ابلاغ کاجنم داتاہے۔لیکن سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی نے پرنٹ میڈیاکوپیچھے چھوڑتے ہوئے الیکٹرانک میڈیانے وہ عروج حاصل کیاجس کاانسان نے کبھی تصوربھی نہیں کیاہوگا۔یہ الگ بحث ہے کہ الیکٹرانک میڈیاکے اس عروج نے انسانیت اورسماج کوکتنافائدہ پہونچایاہے اورکتنانقصان؟ سیدھے سادھے جملوں میں اتناتوکہاجاسکتاہے کہ فائدہ سے زیادہ نقصان ہی پہونچایاہے۔ بہرحال اس وقت ہماراموضوع الیکٹرانک میڈیاکے نفع ونقصان کانہیں ہے بلکہ ہماراموضوع سماج اورمعاشرہ میں اس کی اہمیت وضرورت پرروشنی ڈالناہے۔

الیکٹرانک میڈیاکوشکل وصورت کے اعتبارسے کئی خانوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے ۔اس سلسلہ میں سب سے اہم اورمشہورٹی وی ہے،اس کے بعدنمبرآتاہے انٹرنیٹ پرنشرکئے جانے والے پرنٹ موادجسے ہم ویب میڈیایانیوزپورٹل سے تعبیرکرتے ہیں ۔اس کے علاوہ معروف اورمشہورشکلوں میں یوٹیوب،فیس بک،ٹوئٹر،واٹس ایپ،انسٹاگرام،گوگل پلس،لنکڈان،ٹمبلر وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں کی تعدادمیں ایسے انٹرنیٹ پرچل رہے میڈیاہیں جس میں سے اکثروبیشترکے ناموں سے انسان ناواقف ہیں ،میں نے جوچندنام شمارکرائے ہیں یہ بہت ہی زیادہ عام فہم اورمقبول عوام وخاص میڈیاہیں جسے سب جانتاہے اورتقریبا ہراسمارٹ فون استعمال کرنے والاشخص ان میڈیاسے کسی نہ کسی حدتک استفادہ ضرورکرتاہے۔مذکورہ بالامیڈیاکوسماج میں جس نام سے جانااورپکاراجاتاہے اسے ہم سوشل میڈیایااردوزبان میں سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ سے یادکرتے ہیں ۔

انٹرنیٹ کے تیزی کے ساتھ بڑھتے استعمال نے سوشل میڈیاکوبڑی تقویت پہونچائی ہے ۔اب عالم یہ ہے کہ ہرفرداپنی مٹھی میں پوری دنیاسمیٹ کرچلتاہے،جب اورجہاں چاہتاہے وہ دنیا کے حالات سے باخبرہوجاتاہے ۔سوشل میڈیاکے ہرہاتھوں میں پہونچنے کاایک نقصان یہ بھی ہواکہ اب آج کی نئی نسل اخبارپڑھنے اورکتابوں سے علم حاصل کرنے میں کافی سست ہوگئی ہے ۔آج کی نئی نسل چاہتی ہے کہ بس ہرچیزاسے اس کی اسکرین پرنظرآتی رہے ، اس طرح سے آج کی نئی نسل مطالعہ کی افادیت سے محروم ہوتی جارہی ہے جوکہ اپنے آپ میں ایک بڑاالمیہ ہے۔سوشل میڈیاکی وجہ سے ایک جوبڑانقصان نظرآرہاہے وہ ہے غلط سلط باتوں کوسنسنی خیزبناکرمعاشرہ اورسماج میں بگاڑپیداکرنے کی کوشش کرنا،اسی طرح کچھ ایسے افرادبھی اس سماج میں موجودہیں جنہوں نے محض سستی شہرت کی خاطر اورنامورصحافی کاسوانگ رچانے کے لئے سوشل میڈیااورنیوزپورٹلوں کے ذریعہ بے بنیادخبروں کوبریکنگ نیوز،سنسنی خیزاورانکشاف کانام دے کرسماج کوتقسیم کرنے کاکام کیاہے۔اب تک سوشل میڈیاکے ذریعہ پھیلائی جانی والی ایسی افواہوں سے اب تک کئی بے قصورکی جانیں جاچکی ہیں اورکئی گھرتباہ وبربادہوچکے ہیں ۔حالاں کہ پولس انتظامیہ نے سوشل میڈیاکی انہی حرکتوں کے پیش نظرسائبرایکٹ کے تحت کچھ سخت قوانین مرتب کئے ہیں جس کاخاطرخواہ اثردیکھنے کومل رہا ہے ۔ایسے وقت میں ضرورت تھی کہ انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی دنیامیں ایک ایسی تحریک چھیڑی جائے جس کامقصدصحافت برائے صحافت نہ ہو،نہ ہی وہ زردصحافت سے متاثرہو،بلکہ صحافت کے رہنمااصولوں اورصحافت کے ضابطہ اخلاق کی مکمل پاسداری کرنے والاہو،جس کامقصدصرف سماج کوآئینہ دکھانانہ ہوبلکہ اس کے ذریعہ سماجی اصلاح اورمعاشرہ کی فلاح کااہم کام لیاجاسکے،جوبریکنگ نیوز،سنسنی خیزی اورانکشاف کے نام پرسماج کودوحصوں میں تقسیم کرنے والانہ ہو اورنہ ہی کسی فردکی توہین اوراس کی ذات کونشانہ بنانے والاہوبلکہ ہرفردکی حیثیت عرفی کامکمل لحاظ کرنے والاہو،موجودہ دورمیں صحافت کے نام پرجس طرح بلیک میلنگ،پیڈنیوز،اوردن کورات اوررات کودن بناکرپیش کیاجارہاہے ،جہاں ہرصحافی اورصحافتی گروپ کامقصدصرف اورصرف حکومت کی خوشنودی اورچاپلوسی ہے ایسے میں اس بات کی شدت سے ـضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ایک ایسانیوزپورٹل ہوجومذکورہ بالاعیوب ونقائص سے پاک ہو،جس کامقصدصرف اورصرف خبروںکی ترسیل ہی نہ ہوبلکہ اس کاسب سے پہلاا وراہم مقصدسماج کی اصلاح،ملک کی فلاح اورقوم کی تعمیروترقی ہو،جوصرف ایک نیوزپورٹل نہ ہوبلکہ وہ مکمل ایک تحریک ہوجوہردل کواپیل کرے اورہرذہن کواپنی جانب کھینچ لے ۔

الحمدللہ! ایسے نازک وقت میں ہم نے بڑی ہی بے سرو سامانی اوروسائل کی کمی کے باوجودایک چھوٹی سی کوشش کی ہے،ہم نے صحافت کی دنیامیں ایک تحریک شروع کی ہے جس کامقصدانسانیت کی فلاح وبہبودہے ۔جس کامقصدبہترسماج اورمعاشرہ کی تشکیل ہے۔جس کامقصدایک ایسی سوسائٹی کی تعمیرہے جہاں ہرفردامن وشانتی کے ساتھ زندگی گذارسکے،جہاں پلنے اوربڑھنے والاہربچہ صالح بنیادوں پرپرورش پاسکے جس کے ذریعہ بہترقوم،بہترملک اوربہترسوسائی وسماجی کی تعمیرہوسکے ۔’’آمناسامنا‘‘ اسی تحریک کاایک اہم حصہ ہے۔

’’آمناسامنا‘‘صرف ایک نیوزپورٹل نہیں بلکہ یہ صالح معاشرہ کامعمارہے۔صرف خبروں کی ترسیل کاذریعہ نہیں بلکہ معیاری اورمستندخبروں کے ذریعہ صحت مندمعاشرہ کی تعمیروتشکیل کاذریعہ ہے۔’’آمناسامنا‘‘ متعصب اوربھگوامیڈیا کے خلاف ایک تحریک ہے۔’’آمناسامنا‘‘ معاشرہ میں برائی، کالابازاری، بدعنوانی،بلیک میلنگ اوران تمام برائیوں کے خلاف ایک تحریک ہے جس نے سماج کوپراگندہ کررکھا ہے، جس نے سماج کوکئی حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، جس نے سماج کے دبے کچلے اورمظلوم لوگوں کی آوازکودبارکھا ہے اورظالم وجابراوربدعنوان لوگوں کوکھلی چھوٹ دے رکھا ہے،آمناسامنا ان تمام لوگوں کے خلاف ایک مؤثراورکامیاب تحریک ثابت ہوگاانشاء اللہ۔

ہم نے توتحریک کاآغازکردیاہے اب اس کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے۔آپ اس تحریک کی کامیابی کے لئے دعابھی کریں اوراپنے مفیدمشوروں سے ہمیں نوازتے بھی رہیں یہی ہماری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے۔

وبااللہ التوفیق وھوالمستعان
والسلام
راشدعظیم
ایڈیٹر’’آمناسامنا‘‘