شیخ الہند مولانا محمودالحسن ؒ جنگ آزادی کی تاریخ کا اہم علماء دارالعلوم کی سنہری تاریخ کا ایک سنہرا اور ناقابل فراموش باب! خاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریراحمدرضا
احمدرضا
دنیا میں بنیادی طور سے واحد اور قابل تعظیم محدثین، مفتیان اور علماء کرام کی تربیت گاہ دارلعلوم دیوبند نے ملک کو آزاد کرانے کیلئے جس قدر جانی اور مالی قربانیاں پیش کی انکا کسی کے پاس بھی بدل نہی یہی دارالعلوم وہ ہمارے اکابرین کی درسگاہ ہے کہ جس نے مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو ، خان عبد الغفار اور مولا ابوالکلام کے ساتھ قدم بہ قدم طاقتور انگریز حکومت کے چھکے چھڑائے اور انہے ملک چھوڑ دینے کیلئے مجبور کر دکھایا اسی عالمی حیثیت کی حامل دینی تعلیمی درسگاہ دیوبند کے پہلے طالب علم پیارے وطن ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے انگریز حکومت کی سخت ترین اذیتیں برداشت کرنے والے اور لگاتار ساڑے تین سال تک ملک کی آزادی کے لئے مالٹا اور دیگرجیلوں میں وقت گزارنیوالے دنیاکی سب سے مشہور اور پراثر ریشمی رُومال تحریک کے بانی عظیم مجاہد آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسنؒ ۱۸۵۱؍ میں بریلی میں پیداہوئے، اس وقت آپ کے والد گرامی مولانا ذالفقار علی مرحوم بریلی شہر میں دوران ملازمت دینی خدمات انجادے رہے تھے حقیقت میں آپ کا آبائی وطن مغربی یوپی ہی ہے! ۱۸۶۶ء میں جب دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی تو شیخ الہند ؒ نے اس میں داخلہ لیا اور حاصل علوم کے بعد فراغت حاصل کی ۱۸۷۵ء میں آپ کو اسی معتبر اور عظیم درسگاہ میں مدرس مقرر کیا گیا ! ۱۸۷۸ء میں دارالعلوم دیوبند کے بانی ، استاد محترم ، حجتہ الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ کے حکم سے’ثمرۃالتربیت ‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی ، جسکا مقصد ۱۸۵۷ء میں جہاد آزادی کی ناکامی کے بعدانقلاب آزادی کے لئے افراد تیار کرناتھا اس انجمن کی سر گرمیاں بالخصوص ہندوستان کے شمال میں قبائلی علاقوں میں شیخ الہند ؒ تربیت یافتہ مجاہدین اور شاگردوں کے ذریعہ شباب پرتھیں اور حضرت شیخ الہندؒ سے برابر رابطے میں رہتے تھے ۱۹۰۹ء میں اپنے معتمد شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کو سندھ سے بلاکرآزادی وطن تحریک میں شریک بنایا چونکہ ’ثمرۃالتربیت‘ اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں کی نظر میں آچکی تھی اس لئے ۱۹۰۹ء میں ’جمعیۃالانصار‘ کے نام سے کام کو آگے بڑھایا اور اس کی باگ دوڑ مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے ہاتھوں میں سونپی ۱۹۱۱ء میں دیوبند مدرسہ میں جلسۂ دستاربندی کے نام سے لوگوں کو جمع کرکے ’جمعیۃالانصار‘ اور اس کے اغراض ومقاصد کا تعارف کرایا گیا اس جلسہ میں تقریباً تیس ہزار لوگوں نے شرکت کی جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو انجمن ’ثمرۃالتربیت‘ سے جڑے ہوئے تھے جب یہ انجمن بھی انگریز کی نظر میں آگئی تو ۱۹۱۳ء میں دہلی میں ’نظارۃالمعارف‘کے نام سے ایک اور انجمن قائم کی گئی ۱۹۱۵ء میں افغان حکومت کی مدد حاصل کرنے کے لئے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا ، انہوں نے وہاں پہنچ کر یکم دسمبر ۱۹۱۵ء کو ہندوستان کی آزادحکومت قائم کی جس کاصدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو بنایا گیااور وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی ؒ اوروزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھیؒ بنے، ۱۹۱۶ء میں خود حضرت شیخ الہندؒ خلافت عثمانہ سے مدد لینے کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر آپنے حجاز کے گورنر جمال پاشا اور اس تحریک کے سرگرم رکن مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے ذریعہ خلافت عثمانہ کے وزیر جنگ غالب پاشا اور وزیر بحریہ انور پاشا سے ملاقاتیں کیں اور یہ ملاقاتیں تین دن تک جاری رہیں اورمعاہدات کئے گئے!
ایک خاص موقع پر حجاز کے گورنر جمال پاشا نے جب ہندی علماء کی عملی صلاحیتوں اور آزادی حاصل کرنے کے جنوں کو دیکھا توگورنر کمال پاشا کی زباں سے نکلاحضرت شیخ الہند ؒ کے بارے میںیہ جملہ تاریخ میں محفوظ ہیکہ:’’ان مختصر سی ہڈیوں میں کس قدر دین اور سیاست بھری ہوئی ہے!‘ مولانا محمود الحسنؒ نے اپنی طاقت سے زیادہ ہمت ، حوصلہ اور سرگرمی دکھا کرپوری دنیا کو ایک بار یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس ملک میں محمود الحسنؒ جیسے لوگ موجود ہیں اس ملک کو کوئی زیادہ دن تک غلام بناکر کون رکھ سکتا ہے مولانا محمود الحسن ؒ کی تمام زندگی ہم سب کے لئے ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہر فرقہ ہر مذہب اور ہر شعبہ کے ذمہ دار کے لئے ایک نادر مثال ہے آپکی جد و جہد کو تا قیامت یاد کیاجاتا رہیگا پھر جو کچھ طے ہوا تھا خاص قسم کے ریشمی رومالوں پر لکھ کر تحریک کے مراکز میں بھیجا گیا تاکہ سی آئی ڈی اور انگریزوں کی خفیہ پولیس کے شک وشبہ سے علماء حق کی عملی جدوجہد پوشیدہ رہے اور حضرت شیخ الہند یہاں ملاقات کے بعد کچھ وقت نکال کر کابل پہنچ نیکاکا پروگرام بنا رہے تھے لیکن بدقسمتی سے عین موقع پر ہی ۱۹۱۷ء میں تحریک کا راز فاش ہونے کی وجہ سے پورے ملک سے ۲۲۳ جنگ آزادی تحریک کے قائدین کو بیک وقت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور خود حضرت شیخ الہندؒ کو ان کے چار شاگردوں و اس قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا وحید احمد مدنیؒ ، مولانا عزیزگل پیشاوری ؒ اور حکیم نصرت حسین صاحبؒ (جنکان کا مالٹا جیل ہی میں انتقال ہو گیاتھا) کے ساتھ گرفتار کرکے یورپ کے ایک ٹاپو مالٹا کے انتہائی سردقیدخانے میں لے جا کر ڈال دیا گیا بس اسی عملی کارکردگی کو آجکل تحریک ریشمی رومال کے نام سے ہی کل عالم میں جانا جاتا ہے، مالٹا کی جیل ہی میں شیخ الہند ؒ نے مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ساتھ رہتے ہوئے ماہ رمضان المبارک میں قرآن پاک حفض کیا اور تراویح میں سنایا یہ ایک سنہری اسلامی تاریخ ہے!
قابل ذکر ہے کہ جب ۱۹۱۹ء میں یہ خبر عام ہونے لگی کہ اب سبھی معزز علماء کرام کو جیل سے رہائی ملنے والی ہے تو حضرت شیخ ا لہندؒ کے حکم سے انکے شاگرد مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے ہی ’جمعیۃالعلماءء ہند‘ کی تشکیل کی جو آج تک علمی، دینی اور انسانی خدمات انجام دینے میں سب سے آگے ہے!۸؍جون ۱۹۲۰ء کو تین سال سات ماہ کے بعدجیل سے چھوٹ کر آپ بمبئی پہنچے، اس وقت آپکے استقبال کے لئے بے شمار خلق خدا کے ساتھ گاندھی جی ، حکیم اجمل خاں اور ہندوستان کے مسلم و ہندو مجاہدین آزادی بھی بمبئی پہنچے تھے۔آپ کی تحریک کے اہم مراکز دیوبند ، دہلی ، دین پور شریف، امروٹ شریف ، کھڈہ کراچی،چکوال جہلم، زیگی باجوڑ ، ٹھٹ (سندھ) یاغستان اور کابل تھے۔ ۲۱؍نومبر ۱۹۲۰ء میں دہلی میں ’جمعیۃعلماء ہند‘کے دوسرے اجلاس عام کی صدارت شیخ الہند ؒ نے کی۔ شیخ الہندؒ نے موہن داس کرم چند گاندھی کو اپنے شاگردوں اور احباب سے مشورہ کے بعد ’مہاتمہ‘ کا لقب دیا اور مولانا عبدالباری بدایونیؒ کے ساتھ ’جمعیۃ علماء ہند‘ کے فنڈ سے تعارف کرانے کی غرض سے پورے ملک کا دروہ کرایا۔ اس جلسہ کے گیارہ دن بعد ۳۰ ؍نومبر ۱۹۲۰ ء کو دہلی میں حضرت شیخ الہند ؒ کا انتقال ہوگیا اور دیوبند میں ان کی تدفین ہوئی اس ملک کی آزاد اور نئی نسل کو نیا جوش اور نئی زندگی عطا کرنے والے قابل تعظیم مولانا محمود حسنؒ کے بارے میں یوں تو لگاتار اخبارات اور میگزین میں مضامین شائع ہوتے آرہے ہیں مگر یہ کسی نے نہیں لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادہندوستان میں اعلیٰ مقام اور عزت دلانے میں جوکردار مولانا محمودال حسنؒ نے اداکیا ہے وہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے بعد سے آج تک بھی کسی نے اشاعت دین ،حق پسندی ، مسلم قوم کی سر بلندی ، ترقی اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کے لئے ادا نہیں کیا ہے اور شائد آنے والی صدی تک کوئی اس سنجیدہ سوچ و فکر کا عظیم الشان عالم شائد ان صلاحیتوں کو پیدا ہونا بھی مشکل ہوگا !