غیرملکی طلباءمدارس پر حملہ:* طلباء ندوہ، ندوی فضلا اور اہالیان لکھنؤ کی خدمت میں کچھ صاف صاف باتیں: تحریر۔۔۔۔ سمیع اللہ خان
دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، کی ملک و بیرون ملک ایک انفرادی شناخت ہے، عالم اسلام میں ندوے کو ایک نمائندہ مرکزیت بھی حاصل ہے، یہی وجہ ہیکہ نا صرف ہندوستان بلکہ دور دراز کے ملکوں سے یہاں مسلم بچے تعلیم حاصل کرنے آتےہیں، اور یہی وجہ ہیکہ، ہمارے لیے ندوے کا وجود باعث فخر ہے،
اسی طرح شہر *لکھنؤ*کو ندوی طلبا کی میزبانی کا شرف حاصل ہے، اور تاریخی شہرت و امتیاز کے حامل اس شہر کی اہم خصوصیات میں سے روایتی مہمان نوازی اور تہذیبی پاسداریاں کافی مشہور ہیں، یہاں کے اہل علم اور دانشوران بطور خاص اس کا خیال رکھتےہیں، جیسا کہ آج تک ہم لکھنؤ شہر کے متعلق سنتے آئے ہیں اور تاریخی کتب میں پڑھتے آئے ہیں ۔
البتہ گذشتہ دنوں تقریباﹰ دو روز قبل دارالعلوم ندوۃ العلما کے دو طلبا کے ساتھ پیش آنے والے ایک سنگین واقعے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاہے ۔
اطلاعات کے مطابق:
تھائی لینڈ کے دو طلبا کو ندوۃ العلما سے متصل ڈالی گنج چوراہے پر ایک بھیڑ نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، واقعہ کی تفصیل یہ ہیکہ، یہ دو طلبا رات کے وقت باہر کسی کام سے یا یہ کہ ٹہلنے نکلے تھے، ایک جگہ پر بائک کھڑی کرنے کو لیکر کوئی بات ہوئی اور ۲۰ سے ۲۵ لوگوں کی بھیڑ نے ملکر ان دونوں بچوں کو بری طرح زدوکوب کردیا، سر اور پیٹھ پر دھار دار اور سخت چیز سے ایسے وار کیے گئے کہ خون رسنے لگا ۔
جب یہ خبر آئی تب سے اب تک ہم اس امید میں رہے کہ آج نہیں کل، اب نہیں تب، ندوہ کی انتظامیہ کوئی ایکشن لے گی، مسلمانان لکھنؤ اور لکھنؤ کے سربرآوردہ مسلمانوں کی طرف سے اپنے مہمان طلبا کے تئیں اس برتاؤ پر کسی نا کسی ردعمل کا اظہار کیا جائےگا، کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، اسوقت ملک بھر میں اسطرح کی واردات کا ٹرینڈ چل پڑا ہے اس کو لیکر ایک خاص طبقے کو ہراساں کیا جارہاہے، اس کے نوجوانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، احساس ڈر اور عدم تحفظ کی نفسیات پیدا کی جارہی ہے، اس صورتحال میں دارالعلوم ندوہ جیسے مرکزی ادارے کے طلبا کو یوں نشانہ بنایاجائے اور پھر وہ طلبا بیرون ملک سے ایک اسلامی یونیورسٹی میں پڑھنے آئے ہوں، تو، یہ ایک قومی ہی نہیں ملکی سطح پر بھی شرمساری کا مقام ہے، ہماری مصلحت آمیز چپیوں سے آخر کیا پیغام دے رہے ہیں ہم قوم کو؟ اپنے طلبا کو؟ اور بیرون ملک پھیلے ہوئے ہمارے وابستگان کو؟
چلیے مان لیتے ہیں کہ، طلبا کی بھی غلطی ہوگی، لیکن یہاں یہ بھی سوچنے والی بات ہیکہ، کیا یہ غلطی اگر کسی عامی سے ہوتی تو اسے بھی یونہی نشانہ بنایا جاتا؟ انہیں نشانہ اسلیے بنایاگیا کیونکہ وہ ندوہ کے طالبعلم تھے، کیا یہ ندوہ پر حملہ نہیں؟
آج ہم دیکھتے ہیں، اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے کالج یا یونیورسٹی کے طالبعلم کا کوئی معاملہ ہوتاہے تو متعلقہ انتظامیہ اپنے طالبعلم کو مکمل تعاون دیتی ہے، یہ بعد کی بات ہوتی ہیکہ نفس مدعا کیا ہے؟ چہ جائیکہ ندوہ جیسے ادارے کے دو غیر ملکی طالبعلموں پر کھلے چوراہے پر زیادتی کی جائے، اور ندوی ایڈمنسٹریشن سردمہری کی تمام حدیں پار کرجائے!
*نہایت ہی افسوس اور بے حد قلق کے ساتھ یہ حقیقت لکھ رہا ہوں کہ:* اس معاملےمیں دارالعلوم ندوۃ العلما کی انتظامیہ کا رویہ انتہائی درجہ افسوسناک اور شرمناک ہے، متاثرین طلبا کی خبر گیری تو درکنار انتظامیہ کی سردمہری
یہاں تک کہ ایک طالبعلم کو اس کے سرپرست واپس بلا چکے ہیں، اور آج ملی اطلاعات کے مطابق یہ طالبعلم ہندوستان سے روانہ ہورہاہے، اس کی پڑھائی اس کا مستقبل اس ایک واقعے کی بنا پر یہاں سے تاریک ہوگیا! اس کا ذمہ دار کون؟ جواب کون دے گا جب اپنوں کے سات خون معاف کرنے والا مزاج پنپ رہاہے،
*طلباء کو سوچنا چاہیے کہ جہاں انہیں تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا، نازک گھڑیوں میں علیحدگی کا چلن ہو،اپنی باری پر اظہار کا واجبی حق چھینا جائے، وہاں فکر کا واقعی رنگ و آہنگ کیونکر مل سکتا ہے؟ ویسے بھی جہاں تک بات ہے ندوی پیرہن کی تو وہ بے لاگ ہے، صاف ستھرا، اور واضح ہے، اسوقت ہر ندوی المشرب اس دور کو دیکھنے کے لیے ترس رہاہے، جس کے لئے حضرت مونگیری ؒ حضرت حسنی ؒ اور حضرت علامہ شبلی ؒ و بوالحسن ؒ نے اپنا خون پسینہ بہایا تھا، زوال پذیر دور میں اس کی واپسی کی امیدیں بجز طلبا کے آخر کس سے قائم کی جائیں؟ کیا آپ خود سے یہ سوال کبھی کرتےہیں کہ آپ کس ندوہ میں ہے؟ اس کی شان و یکتائیت کے کیا خطوط تھے؟*
اور اب جبکہ زوال اپنی اس انتہا کو جاپہنچا ہے کہ طلبا کی زندگی اور تحفظ تک سے کوئی واسطہ نہیں رہاہے تو طلبا کو داخلی خدشات سے کہیں زیادہ حفظ ما تقدم پر غور کرنا چاہیے،
*ہم یہاں ندوی فضلا سے بھی جاننا چاہتےہیں کہ* کیا آپ نے اس واقعے کے متعلق سنا؟ آپ یقینًا آزاد ہیں کہ آپ ہماری مذکورہ سطروں سے عدم اتفاق ظاہر کریں، لیکن ہم آپ سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ کیا واقعی یہی ندوی اسٹائل ہے؟ کیا آپ کے دور میں کسی طالبعلم کے ساتھ اگر ایسا واقعہ پیش آتا تو آپ یونہی بھرے منہ اسے برداشت کرلیتے؟ کیا مادرعلمی کی اس درجہ تنزلی آپ کو کچوکے نہیں لگاتی؟ برسر چوراہا آپکے جونئیر پٹ رہےہیں، پڑوسی یونیورسٹی سے پتھراؤ کیا جاتاہے، لیکن طلبا کو اس کا عادی بنایا جارہاہے، کیا آپ اس سے اگلی صورتحال سے بے خبر ہیں؟ اور کیا اس کے لیے تیار ہیں؟ ندوی روایات کے مطابق قدیم فضلا تو اپنے سینئر کے بھائی کے درجے میں ہوتےہیں،
لکھنؤ شہر کے مسلمانوں سے، ائمہ و علما سے، صحافیوں اور وکلا سے پوچھنا چاہتےہیں کہ، کیا یہی لکھنوی تہذیب ہے؟ کیا کوئی بھی حساس لکھنوی دل زندہ نہيں؟
*آج یقینًا ہماری یہ معروضات بعض طبائع پر گراں گذریں گی، ہوسکتاہے ہمارے اب تک کے اپنے بھی خاطر جمع کریں، لیکن کیا کریں ہم، ہمارے یہاں یہ ضابطہ نہیں ہے، طبقاتی نظام والوں کی طرح کہ: سب پر تنقید کرو اور اپنوں کے سات خون معاف کرو،اگر بڑے ازخود اقدامات کریں، ہمارے سینئر ایسے مسائل پر آگے آئیں تو بھلا ہم جیسے کم علموں کو آڑی ترچھی لکیریں پیٹنے کی کیا ضرورت؟* ہم اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، گرچہ پرانے پیچ پھر آزمائیں جائیں اور مظلوم طلبا کو ہی پوری ڈھٹائی سے غلط ٹھہرایا جائے یا دامن جھاڑنے کی بدترین سطحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو طالبعلم ہی تسلیم نا کیا جائے ۔یہ عجیب اور انتہائی شرمناک مقام ہے ہمارے لیے کہ آجکل طلباء مدارس پر تشدد کو لیکر ذمہ داران مدارس کا رویہ بے حد سطحی ہوتا جارہاہے ۔
لیکن بہت خوب یاد رکھا جائے کہ: استحصال اور مداہنت کی زندگی شاخ نازک کے آشیانوں سے بھی بدترین انداز میں خاکستر ہوتی ہے ۔
ہمیں امید ہیکہ اب اس حساس مسئلے پر توجہ دی جائے گی، اسٹوڈنٹس پاور کی آئینی گونج سنائے دے گی، بیدار مغز، زندہ دل ندوی اپنے مادرعلمی کے واجبی حق کو ادا کرینگے، لکھنوی حسّاسیت لکھنوی روایات اور تہذیب کے نظارے کروائے گی:
فکر اقبال کے شارح سید ابوالحسن کے چمن میں روح اقبال ؒ پھر سرشار ہوگی:
*جس کھیت سے دہقاں کو میسر نا ہو روزی*
*اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو*