مشن 2019 کے سیاسی جنگ کی تیاری شروع،کیا 2019 سے پہلے بی ایس پی اور ایس پی میں ہوگا اتحاد 

نئی دہلی 3فروری
مشن 2019 کے سیاسی جنگ کی تیاری شروع ہو چکی ہے، بی جے پی جہاں اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے وہیں کانگریس واپسی کرنا لازمی تصور کرتی ہے ۔کانگریس صدر راہل گاندھی مودی حکومت سے انتخابی مقابلے کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتحادقائم کرنا چاہتے ہیں، ایک فروری کو اپوزیشن پارٹیوں نے ایک اجلاس کیا تھا اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے خاص طور پر اتر پردیش میں اتحاد کی ضرورت بتائی۔ موصولہ اطلاع کے مطابق سونیا گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس اجلاس میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں سے ساتھ آنے کی اپیل کی گئی ۔یہ اپیل اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے کی تھی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ تمام پارٹیوں کو علاقائی اختلافات سے بالاہوکر ساتھ آنا چاہیے ، اس کے لئے ہر ریاست میں مختلف شعبہ میں اتحاد قائم کرنا ہوگا ۔ راہل گاندھی نے یوپی کے متعلق کافی زور دیا اور کہا کہ اتر پردیش میں تمام اپوزیشن کا متحد ہونا ضروری ہے ۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اجلاس میں سماج وادی پارٹی سے رام گوپال یادو اور نریش اگروال جیسے بڑے لیڈر تو پہنچے تھے لیکن بی ایس پی کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ یوپی میں ایس پی۔بی ایس پی جب تک ساتھ نہیں آتی اس وقت تک مورچہ کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ الغرض ایس پی اور بی ایس پی لیڈروں کی باہمی دشمنی جگ ظاہر ہے۔ دونوں پارٹیاں ساتھ آنے کو لے کر کبھی رضامند نظر نہیںآتی ہیں ۔ کانگریس اگر بی ایس پی سربراہ مایاوتی اور اکھلیش یادو کو ساتھ لے کر میدان میں اترتی ہے تو سیاسی تصویر یوپی کی بدل سکتی ہے۔اگر 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ملے ووٹ کو دیکھیں تو بی جے پی کے خلاف تینوں پارٹیاں ساتھ آتی ہیں تو پھر مودی کے لئے مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے ۔ 2014 میں ا یس پی کو 22 فیصد ، بی ایس پی کو 20 فیصداور کانگریس 7.5 فیصد ووٹ ملے تھے۔اب اگر کانگریس ایس پی اور بی ایس پی ساتھ الیکشن لڑتی تو انہیں تقریبا 50 فیصد ووٹ ملتے جبکہ این ڈی اے کو 43 فیصد ووٹ ہی ملنا کا امکان ہے ۔