شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز؍سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن)
عام بجٹ کا بڑا ہنگامہ تھا:
عام آدمی کی سانسیں سینوں میں جمی ہوئی تھیں، سیاسی پارٹیوں پر لرزہ طاری تھا اور تجزیہ ٔ کار بجٹ آنے سے پہلے ہی شور مچا رہےتھے کہ اس بار کا مودی سرکارکابجٹ عوام وخواص سب کی امیدوں پر پورا اترے گا۔۔۔مگر بجٹ جو آیا وہ غالب کے اس شعر کے مصداق ہے ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ ٔ خوں نہ نکلا
اپوزیشن اور اکثر تجزیہ کاروں نے اس بجٹ کو، جسے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پیش کیا، مودی سرکار کی بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی 146لوگوں کو خواب دکھانے145 کی پرانی روش قرار دیا۔۔بجٹ میں متوسط طبقے کو وہی سپنے دکھائے گئے ہیں جو گزشتہ چار برسوں سے مودی اور ان کی سرکار انہیں دکھاتی چلی آرہی ہے۔ اس کا تو اعتراف کیاجارہا ہے کہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی سرکار نے بجٹ پیش کیا ہے، لیکن اس حقیقت پر بہت زیادہ روشنی نہیں ڈالی جارہی ہے کہ بجٹ میں آخر ایسا کیا ہے کہ ۲۰۱۹ ءکے الیکشن میں عام آدمی گھروں سے باہر نکلے گا اور بی جے پی کو اپنے ووٹ دے دے گا! اسے الیکشنی بجٹ کہنے کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس بار مودی سرکار نے شہروں کے ساتھ گاوئوں پر بھی توجہ دی ہے۔ فصلوں کے ایم ایس پی لاگت کو ڈیڑھ گنا بڑھا کر اس نے کوشش کی ہے کہ وہ کسان جو خودکشی کررہے ہیں خوش ہوجائیں۔ دس کروڑ غریب خاندانوں کو صحت بیمہ سے جوڑنے کا اعلان کیاگیا ہے، یہ بھی اُن غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو 146رام 145 کرنے کی ہی ایک کوشش ہے جنہیں سرکاری دواخانوں سے مفت فراہم کی جانے والی دوائیں تک نہیں مل پاتی ہیں! کرپشن کا بول بالا جو ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بجٹ 146گائوں اور کسان145 کے گرد گھوم رہا ہے۔ کسانوں کی آمدنی کو ۲۰۲۲ ءتک دوگنی کرنے کی بات دہرائی گئی ہے۔ ماہی پروری اور مویشی پروری کے لیے دس ہزار کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیاگیا ہے، دو ہزار کروڑ روپئے سے زرعی بازار بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ فوڈ پروسیسنگ کے لیے ۱۴ سو کروڑ روپئے دینے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ کسانوں کے قرضہ جات کے نام پر ۱۱ لاکھ کروڑ روپئے مختص کرنے کا بھی اعلان کیاگیا ہے۔ کسانوں کو مزید ایسے ہی کئی خوش کن خواب دکھائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو سرکار اپنے چار سالوں کے دوران کسانوں کی خودکشیوں کو نہیں روک سکی ہے؛ جس کے دور میں خودکشیوں کا فیصد بڑھا ہے اور قرض معافی کے نام پر جس کے دور میں کسانوں کے ساتھ گھنائونا مذاق کیاگیا ہے وہ سرکار کیسے کسانوں سے متعلق مذکورہ اعلانات کو روبہ عمل لائے گی؟ یہ سوال ابھی سے اس لیے پوچھا جانے لگا ہے کہ ربیع کی فصلوں کا اس بجٹ میں تذکرہ نہیں ہے۔ نہ ہی قرضہ جات کے بوجھ تلے دبے کسانوں کو اس بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ان کے قرضوں کوقسطوں میں معاف کرنے کا کوئی اعلان ہے۔
کانگریس کے منیش تیواری کی بات اگر مانی جائے تو 146146کسانوں کے مسائل پر حکومت نے صرف ز بانی جمع خرچ کیا ہے، صرف وعدے کیے ہیں کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے کا اشارہ نہیں دیا ہے145145۔
اور اگر تجزیہ کیاجائے تو سارا کا سارا بجٹ کسی خوش کن خواب ہی جیسا ہے۔ اس بجٹ میں متوسط طبقے کی پریشانیوں کو دور کرنے کاتو کوئی منصوبہ نہیں ہے مگر ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ صدرجمہوریہ، نائب صدر اور گورنروں کی تنخواہیںتو بڑھائی گئی ہیں مگر عام آدمی مہنگائی کی جو مار جھیل رہا ہے اس پر غور نہیں کیاگیا ہے۔
یہی دیکھ لیں صنعت کاروں کے مفادات کا تو خیال رکھا گیا ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کو پانچ فیصد گھٹا دیاگیا ہے مگر عام آدمی کوئی کوئی خاص راحت نہیں دی گئی ہے۔ متوسط طبقے اور ملازم پیشہ افراد کے لیے یہ بجٹ مایوس کن ہے۔ حکومت نے انکم ٹیکس میں نہ کوئی چھوٹ دی ہے نہ ہی کسی طرح کی تبدیلی کا وعدہ کیا ہے۔ عام آدمی کے استعمال کی اکثر چیزوں پر ٹیکس بڑھا دیاگیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے اہم بات یہ کہی ہے کہ بجٹ کو پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی سرکاری خزانے کو مضبوط کرنے کے امتحان میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس بجٹ پر سابق وزیر اعظم اور ماہر معاشیات منموہن سنگھ نے چند جملوں میں بڑی اہم بات کہی ہے کہ 146146بجٹ میں سرکاری خزانے کی جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں ان میں خامیاں ہیں اور فکر کی بات یہ ہے کہ حکومت نے جو اعلانات کیے ہیں اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا145145؟
اگر یہ کہاجائے کہ مودی سرکار کی نظر لوک سبھا الیکشن پر ہے اورسرکار لوگوںکو سنہرے سپنے دکھا کر، خوش کن وعدے کرکے الیکشن جیتنا چاہتی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ یہ بجٹ ۲۰۱۹ ءکے الیکشن کا بی جے پی کا منشور ہے۔ یہ مودی کی اس سرکار کا آخری بجٹ ہے اگر اس پکوڑا بجٹ پر آنے و الے مہینوں میں کوئی عمل نہیںہوا، وعدے جو کیے ہیں ان کی شروعات نہیں ہوئی تو یہ این ڈی اے کی سرکار کا آئندہ کے کئی برسوں کے لیے آخری بجٹ ثابت ہوگا۔