از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز145ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی145 حیدرآباد۔ فون:9395381226
حیدرآباد میں شادی بیاہ کی تقاریب کے رات دیر گئے تک بلکہ آخری پہر تک اہتمام کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ تلنگانہ وقف بورڈ کے دفتر میں قاضیوں، پولیس عہدیداروں، اکابرین قوم کے علاوہ دانشوروں کے اجلاس میں یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ رات 12بجے تک یہ تقاریب ختم کردی جائیں اس سلسلہ میں قاضیوں کو تاکید کی گئی کہ رات 9بجے کے بعد دولہا آنے پر نکاح نہ پڑھایا جائے۔ اگر خلاف ورزی کی گئی تو انہیں سیاح نامہ کی کاپیاں فراہم نہیں کی جائیں گی۔ یقیناًاچھے اور نیک مقاصد کے ساتھ یہ اجلاس ہوا جس پر متضاد ردعمل کا الکٹرانک اور سوشیل میڈیا پر اظہار کیا جارہا ہے۔ بعض وقف بورڈ کے خیالات کو چیالنج کررہے ہیں اور بعض کو اعتراض یہ کہ شادی بیاہ کے معاملات میں پولیس کا کیا کام۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حیدرآبادی مسلمانوں کی شادیاں تکلیف دہ بنتی جارہی ہیں۔ لڑکی اور لڑکے والوں سے زیادہ مہمانوں کے لئے کیوں کہ 95فیصد شادیاں مقررہ وقت پر نہیں ہوتیں۔ دعوت نامہ میں نکاح کے اوقات بعد مغرب یا بعد عشاء ہوتے ہیں145 اگر کوئی غلطی سے ان اوقات میں شادی خانہ (فنکشن ہال) چلا جائے تو کچھ دیر کے لئے وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ آیا شادی اسی دن مقرر یہ یا وہ غلط تاریخ کو آگیا ہے145 یا یہی وہ شادی خانہ ہے یا کوئی اور۔ جب دونوں کی تصدیق ہوجاتی ہے تو اس کے بعد انتظار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی 10بجے تو کبھی رات گیارہ بجے145 دولہے میاں تشریف لاتے ہیں145 اُس وقت تک قاضی صاحب کو قریبی شادی خانے والے اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں لایا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دولہن ابھی بیوٹی پارلر میں ہے۔ بہرحال! تقریباً شادیوں میں طعام کا اہتمام کیا جارہاہے۔ وقت کے پابند حضرات کے لئے بڑا صبر آزما وقت ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ ذیابیطس کے مریض بھی ہوتے ہیں اور کچھ ضعیف بھی۔ دولہا، دولہن یا قاضی کے آنے کی تاخیرکی سزا انہیں ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کی دعوتیں اپنی تہذیب سے بے نیاز ہوتی جارہی ہیں۔ مہمانوں کی نظر دولہے پر کم ڈائننگ ہال کی طرف زیادہ رہتی ہے۔ ویٹرس کی نقل و حرکت پر ان کی نظر رہتی ہے۔ نکاح ہوتے ہی لوگ مبارکباد دینے کے بجائے ڈائننگ ہال کی طرف یلغار کرتے ہیں۔ ہاتھ دھوکر کھانا سنت ہے مگر بھوک میں نہ تو تہذیب یاد رہتی ہے نہ ہی سنت بلکہ کرسی پر قبضے کی فکر رہتی ہے۔ ہم نے مہذب تعلیم یافتہ بلکہ مذہبی شخصیات کو بھی ٹیبل کے نیچے چپکے سے ہاتھ دھوتے دیکھا ہے۔ طعام سے فراغت کے بعد وہ واش بیسن کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔
نکاح کے بعد خواتین کی رسومات کا سلسلہ شروع ہوجائے تو ختم نہیں ہوتا۔ اور خواتین کو یہ احساس ہے کہ فجر کی اذان سے پہلے دولہا دولہن گھر جائیں۔ یہ روایت کے خلاف ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایک نیا فیشن شروع ہوا ہے۔ یقیناًمسجد میں نکاح سنت ہے145 یہ سنت تو ادا ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد فنکشن ہال میں جو دھوم دھڑاکا ہوتا ہے وہ کسی بھی طرح سے نہ تو اسلامی تہذیب اور نہ ہی حیدرآبادی تہذیب سے میل کھاتا ہے۔ مسجد میں نکاح کا مطلب کہ دولہا اور دولہن فنکشن ہال میں رات گیارہ بجے کے بعد ہی آئیں گے۔ حیدرآباد میں بیشتر شادی خانے دور دراز کے علاقہ میں واقع ہیں جہاں آنے جانے کے لئے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ کہ اِن دنوں کیابس کی سہولت ہے145 اس کے باوجود بھی کئی مسائل ہیں۔ رات کے اوقات میں شہر کے دور دراز علاقوں سے آمد و رفت میں خطرات بھی ہیں اور اخراجات بھی زیادہ ہیں جس کا نہ تو لڑکی والوں کو احساس ہوتا ہے اور نہ ہی لڑکے والوں کو۔ رشتہ داروں کو تو رشتہ نبھانے کے لئے بیک وقت کئی تکالیف سہنی پڑتی ہیں۔ شادی بیاہ چاہے کسی بھی اوقات میں ہوں یہ یقینی دو خاندانوں کا آپسی معاملہ ہے۔ اگر دونوں رضامند ہیں تو تیسرے کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم ان دو خاندانوں کی خوشیوں یا شادی اور ولیمہ کے جشن کے نام پر تیسرے کو تکلیف ہوتی ہے تو ان پر گرفت ہونی چاہئے۔ اگرچہ کہ بیانڈ باجا بارات کی روایات بہت کم باقی رہ گئی ہیں۔ اس کے باوجود اکثر و بیشتر مسجد میں نکاح کی سنت ادا کرنے والے رات کے آخری پہر دولہن کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تو گویا اپنے شور و غل، بیانڈ باجے اور چھچھورے نوجوانوں کے رقص سے گویا پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے وہ کام کیا جو کسی نے نہیں کیا تھا۔ سڑکوں پر طوفان بدتمیزی اور اس میں نوجوانوں کے ساتھ خاندان کے کچھ بے غیرت ادھیڑ اور ضعیف حضرات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ بعض تنگ سڑکوں اور گلیوں میں تو ان کی اُچھل کود سے اگر ٹریفک میں خلل پڑتا ہے تو بیانڈ باجے یا مرفع کی آوازوں سے نیند میں خلل پڑتا ہے اور لوگ نہ صرف دولہے اور باراتیوں کو بلکہ بیانڈ باجے کے ساتھ نکالی جانے والی بارات کی اجازت دینے والی پولیس کو بھی کوستے ہیں۔ رات کے اوقات اِن بے حس لوگوں کو نہ تو ضعیف لوگوں کا نہ معصوم بچوں کا اور نہ ہی بیماروں کا خیال رہتا ہے۔ انہیں تو اپنے جشن اور اپنے خوشی سے غرض ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف پولیس کو کاروائی کرنی چاہئے۔ اکثر شادی خانوں میں باقاعدہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ بیانڈ باجے، آرکیسٹرا کی اجازت نہیں ہے145 مگر ہر شادی خانے میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ مقامی پولیس کا معمول مقرر ہوتا ہے۔ مخصوص وقت پر جب وہ آتے ہیں145 آرکیسٹرا ضبط بھی کیا جاتا ہے۔ لائٹ بند کروائی جاتی ہے145 کچھ دیر بعد پولیس چلی جاتی ہے اور آرکیسٹرا اور وہی دھوم دھڑاکا، شور و غل شروع ہوجاتا ہے۔ باراتیوں کی جانب سے یا دولہے کے دوستوں کی جانب سے پودینے کا ہار یا دوسرے بڑے بڑے ہاروں کو باجے یا مرفع کے ساتھ لانے کی ایک عجیب احقمانہ روایت چلی آرہی ہے۔ ہزاروں روپئے برباد کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حلال کی کمائی تو ایسے ضائع نہیں ہوتی۔ اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ دولہا کے دوست اور باراتی آخر ناچتے کیوں ہیں؟ کیا خوشی کا اظہار کا یہی ایک طریقہ ہے؟ تلوار بازی کا مظاہرہ پہلے بہت عام تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان تلوار بازی کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا۔ تب پولیس اور سماج کے کچھ ذمہ دارں کو ہوش آیا۔ تلوار بازی یا خنجر یا لاٹھی کا کرتب کی اجازت دینی ہی نہیں چاہئے۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہئے۔ وقف بورڈ میں منعقدہ اجلاس میں اچھے مقاصد کے ساتھ کچھ ارادے ظاہر کئے گئے ہیں افسوس کہ اُس پر بھی تنقید ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ سماج کے مسلم معاشرہ کے ہر فردکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کی اصلاح کرے۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے شادی بیاہ کے اصراف پر بہت کچھ سنتے آئے ہیں اصلاح معاشرہ کی کئی تحریکات اب بھی چلائی جارہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے عمل بھی کیا مگر کچھ ناصحین اور مصلحین نے بہ ظاہر تو شادیوں میں سادگی اختیار کی مگر شہر کے مضافاتی علاقوں میں فارم ہاؤز، دھاووں یا اسٹار ہوٹلس میں استقبالیہ ترتیب دینے کی روایت شروع کی۔ یہ سچ یہ کہ پہلے گھوڑے جوڑے کی وجہ سے شادیوں میں رکاوٹ تھی اب اصراف جہیز پر کم ہوتا ہے145 شادی خانے اور ضیافت پر اور بے جا رسومات پر زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر لڑکے والے لڑکی والوں سے کہتے ہیں کہ انہیں لین دین کچھ نہیں چاہئے صرف اچھے شادی خانے میں معیاری ضیافت کی جائے۔ لڑکی والوں کو یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ کیا اچھے شادی خانے سے ان کا معیار واقعی ہمیشہ کے لئے بلند ہوجاتا ہے اور کیا وہ خود اپنے طور پر اپنے مہمانوں کو اچھی ضیافت کرنے کے قابل نہیں ہیں145 اپنے مہمانوں کی معیاری ضیافت کے لئے آخر کیوں لڑکیوں والوں پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ اسی جھوٹی شان میں حیدرآبادی مسلمان تباہ و تاراج ہوچکا ہے۔ جائیدادیں نیلام ہوچکی ہیں۔ قرض کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ جو اپنے گھروں کے حالات سدھارنے کے لئے برسوں پہلے اپنے ملک سے باہر چلے گئے تھے145 وہ آج تک کولہو کے بیل کی طرح کام کررہے ہیں۔ نہ تو ان کا بوجھ کم ہوتا ہے نہ مسائل ختم ہوتے ہیں حالانکہ بیرونی ممالک میں روزگار کے وسائل بڑی تیزی سے کام ہوتے جارہے ہیں۔
بہرحال! بہت پہلے حیدرآباد کے ایک دانشور جناب ابن غوری نے شادی بیاہ کے مسائل اور مصارف کو کم کرنے کے لئے بڑی اچھی تجاویز پیش کی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھے کہ شادیاں دن میں کی جائیں۔ اس سے فنکشن ہالس میں بجلی کا خرچ 60فیصد کم ہوجائے گا۔ طعام کی دعوت ہو تو ظہرانے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے جس کے بعد خود لڑکے اور لڑکی والے جلد سے جلد اپنے اپنے گھر جانے کی فکر کریں گے۔ ورنہ انہیں عشائیہ کا بھی اہتمام کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ دور دراز کے علاقوں میں بھی منعقد ہونے والی تقاریب میں آمد و رفت کے دن کی اوقات میں سہولت رہتی ہے۔ آر ٹی سی بس سے لے کر آٹو اور کیاب تک بڑے آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔ اور مہمان بھی وقت پر اپنے گھر چلے جائیں تو دوسرے دن تازہ دم ہوکر اپنے اپنے کام میں مصروف ہوسکتے ہیں۔ ورنہ رات کی شادیوں اور دیگر تقاریب سے دوسرے دن کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔ نہ تو ا بن غوری کی تجویز پر عمل کیا گیا نہ ہی ہماری بات پر غور کیا جائے گا۔ جب علمائے کرام، اکابرین قوم کی نصیحت اور ان سب سے زیادہ خاتم البیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین پر عمل نہیں کیا جاتا تو ہماری کیا وقعت ہے۔ پھر دنیا سنے یا نہ سنے، عمل کرے نہ کرے145 یہ ہمارا فریضہ ہے کہ اپنی بات آپ تک پہنچادیں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ تیرے دل میں اُترجائے میری بات
بذریعہ 146146گواہ اردو ویکلی145145 حیدرآباد