ہاں! میں علاؤ الدین خلجی ہوں۔۔۔! نازش ہما قاسمی

ہاں! میں علاؤالدین خلجی ہوں، میرا پیدائشی نام علی گرشاسپ خلجی تھا ،بعد میں علاؤ الدین خلجی ہوا۔ میں 146146خلجی خاندان145145 کا سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ تصور کیا جاتا ہوں۔میری پیدائش 1266میں دہلی میں ہوئی اور تاجپوشی 1296میں عمل میں آئی۔ میں نے تقریباً بیس سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ ہندوستان کی معیشت کو بلندیوں پر پہنچانے میں میرا نمایاں کردار اور اہم رول رہا ہے ۔ میرے دور میں عوام خوشحال تھے۔ آج کی طرح ہندو مسلم منافرت نہیں تھی۔ میں نے ہندوستان کو منگولیوں سے بچانے کے لیے ایک بڑی فوج تیار کی، وہی منگولی فوج جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھوڑے کی نَس کاٹ کر اس کا خون پی جایا کرتے تھے ۔ انسانی گوشت ان کی لذیذ ترین غذا تھی۔ میں نے اس ظالم قوم سے اپنے ملک کی حفاظت کی ۔ اپنے ملک کے عوام کو بچایا؛ لیکن آج اسی ملک میں میرے کردارکے ساتھ میری روشن تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی نے تو شاید مسلم حکمرانوں کوبدنام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور فلمی دستاویز کے ذریعے وہ مسلمانوں کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑا ہے۔ اسی بدنامی کی تاریخ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے فلم 146پدماوتی 145بنائی جس میں مجھے وحشی، درندہ، قاتل، ہم جنس پرست ، وعدہ خلاف قرار دیا؛ حالانکہ میں ایسا شخص نہیں تھا۔ میں نے کبھی ہم جنس پرستی نہیں کی؛ لیکن تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو کون سمجھائے، اس نے مجھے 146146ہم جنس پرست145145ثابت کرکے شاید اپنے ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کیا ہے۔ میں تو اس دنیا میں نہیں ہوں؛ لیکن مجھے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے۔کیا میں نے اسی دن کے لیے ہندوستان کو منگولیوں سے محفوظ رکھا تھا۔ اس فلم میں میرے ایسے ایسے کردار پیش کئے گئے ہیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے ۔ میں ایک دلیر اور نڈر بادشاہ تھا، یہ الگ بات ہے کہ میں پڑھا ہوا انسان نہیں تھا، لیکن میں ہندوستان کا کامیاب ترین حکمراں تھا، میں دہلی کا پہلا ترک سلطان تھا جس نے سلطنت کو بدعنوانیوں سے پاک کرنے کے لیے مضبوط مرکزی فوج تیار کی تھی؛ لیکن میرے ساتھ ہندوستان کے 146146اکثریتی فرقے145145 سے تعلق رکھنے والوں نے ناانصافی کی ۔ مجھے 146146ایفائے عہد145145 نہ کرنے والا بتایا گیا؛ حالانکہ میں نے کبھی کسی سے وعدہ خلافی نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کسی کو دھوکہ دیا۔ میں انتہائی ٹھنڈے دماغ کا حامل شخص تھا؛ لیکن مجھے اس فلم میں 146146وحشی145145 قرار دیا گیا، مجھے عالمِ ارواح میں میرے اس کردار سے اتنی سخت تکلیف پہنچ رہی ہے جس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ خیر یہ فلم ریلیز ہوئی، مسلمانوں نے صبروضبط کا مظاہرہ کیا اور نام نہاد دیش بھکتوں نے فرضی رانی کی محبت میں میرے اس ملک کو جلایا جسے جلنے سے بچانے کے لیے میں نے بہت سارے جتن کئے ۔ اس ہندوستان کو خوشحال رکھنے کے لیے میں نے اپنے دور حکومت میں مناسب روزگار فراہم کئے، آج کے حکمرانوں کی طرح میں کرپٹ نہیں تھا، لٹیرا نہیں تھا؛ لیکن سنجے لیلا بھنسالی نے مجھے لٹیرا تک ثابت کیا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تاریخ پرمبنی فلمیں ہی بنانی ہیں تو حقیقی تاریخ پر مبنی فلم بنائیں، جو میری تاریخ ہے اسے فراموش نہ کریں۔ یہ سچ ہے کہ میں نے حصولِ اقتدار کے لیے اپنے عزیز از جان چچا کا قتل کروایا لیکن وہ ملکی مفادات کے پیش نظر تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ میں ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ایک نیا مذہب رائج کرناچاہتا تھا لیکن لوگوں کے مشورے کے بعد اس کام کو ترک کردیا ، اس خیال کو دل سے نکال دیا اور سوچا کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان کے لیے شریعت کامل دین محمدیﷺ ہے اسے کسی اور دین کی ضرورت نہیں۔ میرے دور میں منگولیوں کے خطرات کے باوجود بھی کسی نے تبدیلی مذہب نہیں کیا، لوگ اسلام پر قائم رہے، ہاں! اتنا ضرور ہوا کہ اسلامی تعلیمات سے مرعوب ہوکر ہزارہا منگولی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ میرے بارے میں ملک محمد جائسی نے ایک نظم لکھ کر میرے ساتھ ناانصافی کی اور اسی نظم کے تحت بھنسالی نے فلم بنائی اور مجھے رانی پدماوتی کا عاشق قرار دیا۔ کئی مؤرخین نے میرے بارے میں لکھا ہے اور سچ لکھا ہے۔ مؤرخ صفو ی نے جو لکھا ہے وہی حقیقت ہے نہ کہ جائسی کی نظم، مؤرخ صفوی نے میرے بارے میں لکھا کہ میں غاصب نہیں تھا، عورتوں کا رسیا نہیں تھا، ہاں! البتہ میں سلطنت کو بڑھاوا دینے اور فتوحات کے دائرے کو وسیع رکھنے کا خواہش مند ضرور تھا۔ شاید سنجے لیلا بھنسالی مجھے اس طرح کے کردار میں پیش کرکے موجودہ حکومت کی منشاء پر اترنا چاہ رہے ہیں اور اس ہندوستان جس پر میں نے بیس سال تک حکومت کی، عوامی اصلاحات کئے اسے پستی میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے ۔ آج کے ہندوستان کو دیکھ کر مجھے رونا آرہا ہے، کاش جس طرح کاہندوستان میں چھوڑ کر گیا تھا آج اسی حالت میں موجود ہوتا تو اس دور سے ہزار گنا بہتر ہوتا۔ مسلمانوں نے میرے مسخ کردار پر کوئی احتجاج ووایلا نہیں کیا، مجھے ان سے کوئی شکایت بھی نہیں؛ کیوں کہ میں ایک بادشاہ تھا ،مسلمانوں کا اور میرا بادشاہ محمد عربیﷺ ہیں اور مسلمان شاید یہی سوچ کر خاموش رہے کہ یہ ناہنجار حقیقی تاریخ کو کبھی مسخ نہیں کرسکتے جو حقیقت ہے وہ تو سرچڑھ کر بولے گا ہی، ہاں البتہ وقتی کامیابی ضرور حاصل کرسکتے ہیں اور شاید انہوں نے وقتی کامیابی حاصل بھی کرلی۔