کیا واقعی ملک میں جمہوریت اور آئین محفوظ ہے ؟شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
وزیر اعظم نریند رمودی نے پھر لب سی لیئے ہیں!مودی کی خاموشی ایک ایسے ملک کے لیے جسے جمہوری کہلانے اور منوانے کے لیے ملک کی سرکاریں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی چلی آرہی ہیں ، ایک ’جرم‘ہے ۔ اور کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی خاموشی بھی کسی ’جرم‘ سے کم نہیں ہے۔ ’راجپوت کرنی سینا‘کے دہشت گرد اور ان کے ساتھ سنگھی ٹولےکے انتہا پسند ملک بھر میں خوف ودہشت پھیلاتے رہے ،ننگی تلواریں لے کر سڑکوں اور گلیو ں میںنکلنے اور چلنے والو ں کو دھمکاتے رہے، مال اور سنیما گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے اور ملک کے شہریو ں کی املاک ، چاہے وہ کاریں او ر گاڑیا ں ہو ں یا دوکانیں،جلاتے رہے اور ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی جنہو ں نے دائو س میں یہ ’دعوی‘ کرتے ہوئے نہ شرم محسوس کی او ر نہ غیر ت کہ انہیں ۶سو کروڑ لوگوں کے ووٹ ملے ہیں، خاموشی کی تصویر بنے غیر ملکیو ں کے سامنے اپنے ۵۶انچ کے سینے کو تانے ’گپیں‘مارتے رہے!اوروہ نوجو ان لیڈر ،راہل گاندھی ،جس کے کندھوں پر کانگریس کےاحیا کی ذمہ داری ہے اور جس نے ’آئین بچائو‘ کا نعرہ بلند کررکھاہے، وہ بھی مودی ہی کی طرح اپنے ہو نٹوں پر تالاڈالے سارے ملک میںجمہوریت کاجنازہ نکلتے ہوئے بھی دیکھتا رہا اور آئین کی دھجیاں بکھرتے ہوئے بھی ۔ راہل گاندھی کو ذراسی بھی جرأت اور ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جمہوریت کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف احتجاج کرتے۔ان کی مذمت کرتے۔الٹے ہو ا یہ کہ راجستھان میں کانگریس نے ’پدماوتی‘جسے اب ’پد ماوت‘کردیا گیا ہے ، پر پابندی کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کرکے بی جے پی کی ہاں میںہاں ملائی !
بات’ تلخ‘ ہے مگر اس ملک کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ یہا ں ’جمہوریت‘کا لفظ سرکاری دفتروں اور سرکاروں کے اپنے اپنے مقاصد کے استعمال کےلیے تو ہے حقیقی طورپر اس ملک میں’جمہوریت‘ نہیںہے ۔ اس ملک میں ’آئین ‘ تو ہے مگر ’آئین‘پر عمل کے لیے جس جذبے اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے وہ ’سیاسی مفادات ‘ کے تیز دھارے میںیو ں بہہ جاتےہیں جیسے تیز بہاو میںخس وخاشاک۔ ’پدماوت‘کی نمائش رکوانے کے لیےہر یانہ ،راجستھان،مدھیہ پردیش اور گجرات میں تشدد کا جو ننگا مظاہر ہ کیا گیا، یو پی اوربہار میں جس طرح سڑکو ں پر ننگی تلواریں لے کر سنجے لیلا بھنسالی ،دیپکاپڈکون اور رنویر سنگھ کے خلاف نعرے بازی کی گی اور ملک کی دوسری ریاستوں میں بشمول دہلی،جس طرح بھگوا دھاری ٹولیاں سنیما ہالوں کو نشانہ بناتی رہیں، اس کی ذمے دار ریاستی سرکاریں تو ہیں ہی ، بالخصوص وہ ریاستی سرکاریں جہاں بی جےپی برسر اقتدار ہے پر سب سے بڑی ذمے دار مودی سرکار ہے۔ مودی سرکار نے اب تک نہ ہی تشدد کی ، جس میںہریانہ میں ننھے اسکولی بچوں کی ایک بس پر حملہ بھی شامل ہے، مذمت کی ہے اورنہ ہی اپنی ریاستوں کو لاء اینڈ آرڈر کی برقراری کا درس دیاہے۔ یہ بات کئی لوگ کہہ چکے اور سوال بھی پوچھ چکے ہیں کہ اگر اس ملک میں بالخصوص مسلمان کسی بات پر ننگی تلواریں لے کر تو دور ننگے ہاتھوں ہی کوئی احتجاج اور مظاہر ہ کرتے تو ان کے سینوں پر گولیاں چل جاتیں، پر ان دہشت گردوں کو چھوٹ کیوں ہے ؟چھوٹ اسی لیے ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ جموںو کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمرفاروق عبداللہ لاکھ یہ سوال پوچھیں کہ کیا ’کرنی سینا‘کے دہشت گردوں کو بھی کسی جیپ سے باندھ کر ہیومن شیلڈ بنایا جائے گا انہیں کوئی جواب ملنے والانہیں ہے۔ ’کرنی سینا‘کے دہشت گرد کوئی فاروق احمد ڈار تو ہیں نہیں کہ جیپ کے سامنے بونٹ پر ہاتھ پیر باندھ کر بیٹھا دیئے جائیں!یہ تو وہ کشمیری لڑکے اور لڑکیاں بھی نہیںہیںجنہیں صرف پتھر بازی کے لیے پیلٹ گنوںکا سامناکرنا اور اپنی آنکھوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ مودی کے بھی مودی کی سرکار کے بھی اور سنگھ پریوار کے بھی چہیتے ہیں ۔یہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے بھی چہیتے ہیں اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے بھی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ آدیتہ ناتھ یو گی اور گجرات کے وزیراعلیٰ وجئے روپانی کے بھی۔
بات یہ بھی ’تلخ‘ہے پر ’سچ‘ ہمیشہ ’تلخ‘ ہی ہو تا ہے۔ اس ملک میں نجی اور ذاتی سینائیں بناکر دہشت پھیلانے والوں پر نہ کارروائی ہوتی ہے اور نہ ہی گولیاں چلتی ہیں، اس ملک میںگولیاں صرف مسلمانوں پر چلتی ہیں اور کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی اور گولیاں چلوانے میں ایسا نہیں کہ بی جے پی ہی آگےہے، کانگریس کوئی بی جے پی سے پیچھے نہیں رہی ہے۔ اگر بی جے پی نے گجرات ۲۰۰۲ کیاہے تو کانگریس نے میرٹھ ،ملیانہ ،ہاشم پورہ اور بھاگلپور کیاہے، سلمان’شیطان‘رشدی کے خلاف مظاہرے پر گولیاں چلوائی ہیں اور ۹۳۔۱۹۹۲کے ممبئی فسادات میں ایسی ’لاپروائی‘ برتی ہےکہ ساری مشترکہ تہذیب جل کر راکھ ہوگئی ہے۔ ’پدماوت‘کی مخالفت صرف اس لیے نہیں کی گئی کہ یہ فلم ’راجپوتوں ‘ کی عزت او ر عظمت پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ کوئی سوال نہیں کھڑے کرتی۔بلکہ فلم کی مخالفت اس لیے کی گئی کہ راجستھان میںلوک سبھا کی دو اور اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے ضمنی الیکشن ہونا ہیں اور ایم پی میں بھی الیکشن کے دن آرہےہیں ۔ سار ا زور راجپوتوں کے ووٹوں پر قبضہ کےلیے ہے۔ بی جی پی کی نظر ان ووٹو ں پر ہے اور کانگریس کی نظر بھی ۔لہذا سپریم کو رٹ لاکھ ’پدماوت‘ کی نمائش کی اجازت دے اور لاکھ ریاستوں کو فلم کی پرامن نمائش کےلیے ہدایت دے،ریاستی سرکاروںاورسیاست دانوں نے اس اجازت اور ہدایت کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ اور ان کی پولس کی نگرانی میں۔۔۔۔۔یہ ہم گجرات میں ۲۰۰۲ء میںدیکھ چکےہیں ۔۔۔۔۔ ’کرنی سینا‘ کے دہشت گردوں نے بھی دہشت مچائی،’ہندوسینا‘کے دہشت گردوں نے بھی اور بجرنگ دل اور دوسری سنگھی ٹولیوں نے بھی دہشت مچائی ۔ راجستھان اور ایم پی کی سرکاروں کو اپنے ’سیاسی مفادات‘ کی کچھ اتنی فکر تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلا ف یہ سرکاریں پلٹ کر پھر سپریم کورٹ گئیں ،یہ درخواست لےکر کہ ’پدماوت‘کی نمائش روکی جائے۔ سپریم کو رٹ نے تو درخواست رد کردی مگر بھاجپاکی سرکاروں نے ’سینائوں ‘کو ایسی چھوٹ دی کہ کئی ریاستوں میں ملٹی پلیکس مالکان ’پدماوت‘کی نمائش سے بچے رہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جمہوری طرز کی ان سرکاروں نے اپنے جمہوری فرائض کی کو پرے رکھ دیا اور لاء اینڈ آرڈر کو بد سے بدتر ہونے دیا۔ کیا یہ سپریم کورٹ کی توہین نہیںہے؟
ایک اور ’تلخ سچ‘اس ملک میںدوسروں کے مقابلے مسلمان ہی ہیں جو عدالتی فیصلوں کا زیادہ احترام کرتے ہیں ۔بابری مسجد کے قضیئے سے لے کر ممبئی فسادات اور بم بلاسٹ کے فیصلوں تک کو لے لیں۔ وی ایچ پی ہو یا بجرنگ دل یا بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک سے جڑے سادھو ،سنت،سنیاسی،سنیاسنیں اور سیاست داں،بار بار لوگوں نے سناکہ ’ایودھیاتو ہماری آستھا (عقیدہ) کا معاملہ ہے عدالت کی ہم نہیںسنیں گے‘ ۔فلم ’پدماوت‘کی نمائش کے معاملے میں بھی چاہے وہ ’راجپوت کرنی سنیا‘ کے سربراہ لوکیندر سنگھ کالوی ہو ں یا اس کے جنرل سیکریڑی سورج پال آمو،یہ بار بار کہتے رہےکہ انہیں عدالتی فیصلہ قبول نہیں ہے۔ انہو ں نے آج تک سپریم کو رٹ کے ذریعے ’پد ماوت‘کی نمائش کی اجازت کو قبول نہیں کیا ہے۔ یہ باربار ہواہے اور باربار ہوگا۔ دوسری طرف مسلمان ہیں ،طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سپریم کو رٹ کا فیصلہ آیا،وہ قبول کیا۔ بابری مسجد کی جاری سماعت میں جو بھی فیصلہ آئے اسے قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس ملک میں بڑی تعداد میں بے قصور مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا گیا، ان پر دہشت گردی کے الزامات بھی عدالتوں نے جائز ٹہرائے، اور جب ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنچ کیاتو وہاں سے جو فیصلے آئے وہ قبول کیئے ۔ممبئی فسادات میں اور سلسلے وار بم دھماکو ں میں’خلاف‘آئے فیصلے قبول کیئے۔ اس ملک کےمسلمانوں نے فیصلوں کو اعلی عدالتوں میں چیلنج ضرور کیا مگر عدالتوں کے خلاف کبھی نہیں گئے۔
تین حقائق یا تین ’سچ ‘سامنے آچکے ہیں…..
٭ہندوستان میں صرف نام کی جمہوریت ہے۔
٭گولیاں صرف مسلمانوں پر چلتی ہیں
٭آئین کا احترام سنگھی ٹولے ،سنگھی قائد اور سنگھی ریاستیں نہیں کرتیں مگر مسلمان کرتے ہیں۔
ایک ’سچ ‘اورہے،یہ ’سچ‘ کہ اس ملک کےزیادہ تر ’دانشور‘دوغلے ہیں ۔ مثال سنجے لیلابھنسالی کی لے لیں۔ بھنسالی ’پدماوت‘کے خالق ہیں۔ انہیں ایک بڑا ظلم میکر سمجھاجاتا ہے۔ انہو ں نے کئی اچھی (اور بری بھی)فلمیں بنائی ہیں۔ یہ حقائق سے کھلواڑ کے لیے بھی معروف ہیں ۔ ’دیو داس‘بناکر انہو ں نے لٹریچر سے کھلواڑ کیا۔ ’باجی رائو مستانی‘بناکر انہو ں نے تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اور ’پدماوت‘ بناکر انہو ں نے لڑیچر کی بھی دھجیاں اڑائیں اور تاریخ کو بھی مسخ کیا۔ یعنی وہی کا م کیا جو سنگھ پریوار کرتا چلا آرہا ہےاور دوسروں سے کروانا چاہتاہے ۔’راجپوت کرنی سینا‘ کاالزام ہے کہ بھنسالی نے ’پدماوت‘بناکرراجپوتوں کی عزت ،فخر بہادری اور قربانی کا مذاق اڑایا ہے، یہ سارا تشدد اس لیے تھاکہ لوگ راجپوتوں کی عزت کو فلم کے پردے پر نیلام ہوتے نہ دیکھیں ۔پر فلم میں نہ راجپوتوں کی عزت کو سربازار نیلام کیاگیا ہے اور نہ ہی ان کی فخر ،شان،بہادری اور قربانی پر سوالیہ نشان لگایا گیاہے بلکہ الٹے ساری فلم میں راجپوتوں کی آن بان شان اور عزت ، کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کی کو شش کی گئی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ جس شان ،عزت اور بہادری کے قصیدے بھنسالی نے پڑھے ہیں وہ سب سوالوں کی زد میں ہیں۔راجپوتوں کی مغلوں سے وفاداریا ں ،شادیاں تک، تاریخ کا سچ ہیں ۔ اکبر اعظم کے سالے راجپوت ہی تھے !جہانگیر اور شاہ جہاں کی رانیو ں میں بھی راجپوت خواتین تھیں۔ اور رہی راجپوتوں کی بہادری تو تاریخ کاایک سچ یہ بھی ہے کہ۱۱۹۱ءمیں محمد غوری کو ترائن کی جنگ میںہرانے کے بعد پرتھو ں راج چوہان کو ۱۱۹۲میںوہیں پر شکست ہوئی تھی اور اس کے بعد مغلوں ،سلطانوں اور مراٹھوں کے ساتھ راچپوتوں نےمسلسل جنگیں لڑیں انہیں کسی ایک بھی جنگ میں فتح نہیںملی وہ مسلسل ہارتے رہے، پرتھوی راج چوہا ن قیدی بنے، ہلدی گھاٹی میں اکبر کے ہاتھو ں مہارانا پرتاپ کو شکست ہوئی، مہاراجہ جسونت سنگھ کو اورنگ زیب نے ہرایا ۔ راجپوت وعدہ توڑنے والے بھی تھے۔ روپ شاہ کے ہاتھ نادرہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کا قتل اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔یہ تاریخی سچائیاں ہیں جنہیں مسخ کرنے کا کام کیاجارہاہے ۔ اور اگر کہاجائے کہ فلم ’پدماوت‘ کے ذریعے راجپوتوں کی جھوٹی شان بان آن ،فخر اوربہادری وشہادت کی تشہیر تاریخ کو مسخ کرنے کی سنگھی سازش کا حصہ ہے تو ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہوگا۔ علائوالدین خلجی کو تاریخ میںکہیں عیاش نہیں لکھاگیاہے ۔ علائو الدین خلجی کی دہلی پر بیس سال حکمرانی رہی، ا س فلم میں خلجی کو سفاک، جنگلی اور وحشی کے طورپر پیش کیا گیا ہے یعنی مکمل ویلن مگر بقول پروفیسر سید علی ندیم رضوی’’ خلجی کا شمار ہندوستان کے سب سے روشن خیال حکمرانو ں میں ہوتا ہے اور ان کی زندگی کا مکمل ریکارڈ موجو د ہے۔‘‘ اور رہی رانی پدمنی،عرف ’پدماوتی‘ توآج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ یہ کردار فرضی ہے یا حقیقی ! ’پدماوت‘کےخالق ملک محمد جائسی نے اپنی کہانی کو تخیلی قرار دیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگران کی مانیں تو یہ کردارفرضی ہے۔ مگر اس ملک میں جو جمہوری ہے ،جہاں آئین میں سب کے حقوق ہیں ، ایک فرضی کردار کو ’مقدس‘ قرار دینے کے لیے سارے ملک کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ اس جرم میں جہاں مرکز کی مودی سرکار،ریاستی سرکاریں،راجپوت کرنی سینا،سنگھی ٹولے اور سنگھی سیاست داں ، پولس اور ایجنسیاں شامل ہیں وہیں بھنسالی بھی شامل ہیں۔ بھنسالی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہو ں نے تاریخ مسخ کرنے کی سنگھی سازش کا دامن تھاما ہے اور بالکل سنگھی نظریئے کے مطابق ایک ایسے مسلم بادشاہ کو عیاش او ر سفاک ثابت کیا ہے جو مہذ ب تھا۔ بھنسالی کے ’فن ‘کو ’تخلیق‘قرار دینے والے دوسرے فلم ساز بھی دوغلے ہیں ۔اگر نہیں ہیں تو کیا وہ چھترپتی شیواجی مہاراج اور رانی لکشمی بائی کے کرداروں کو فلم کے پردے پر مکمل نہ سہی کسی حد تک مسخ کرنے کی ہمت کریں گے۔؟؟