کاس گنج میں جشنِ جمہوریہ پرفرقہ پرستوں کا شیطانی رقص , ترنگا یاترا میں وندے ماترم، جے شری رام، پاکستان یا قبرستان کے شرانگیز نعرے* ابھیشیک چندن کی گولی لگنے سے موت، محمد اکرم کو کار میں گولی ماری، پتھرائو، توڑپھوڑ، آتش زنی کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری، حالات کشیدہ، پولس الرٹ
لکھنو۔ ۲۷؍جنوری:
ملک میں سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوت کو لے کر ہنگامہ تھما بھی نہیں تھا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں کاس گنج جلنے لگا۔ دو دن سے چل رہے اس تشدد میں ضلع انتظامیہ اور پولس کی بڑی چوک سامنے آرہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کاس گنج میں یوم جمہوریہ کو نکالے جارہے ترنگا یاترا کی پولس کو کوئی جانکاری نہیں تھی نہ ہی انتظامیہ سے اس کی اجازت لی گئی تھی۔جھوٹی دیش بھکتی کے جوش سے لبریز چالیس پچاس نوجوان جب بائیک پر ترنگا لے کر نکلے تب بھی پولس کا دھیان اس جانب نہیں گیا جس وقت یہ ہنگامہ ہوا اس وقت ضلع انتظامیہ اور پولس عملہ پریڈ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں مصرو ف تھا۔ نتیجتاً جوشیلے نوجوانوں کی ٹولی مسلم آبادی کی جانب چلی گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت ترنگا یاترا بدونگر علاقے سے گزررہا تھا تب بھی پولس کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ایسے میں نعرے بازی سے شروع ہوئے ہنگامے نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کرلیا۔اطلاع کے مطابق جب یہ ریلی چوراہے پر پہنچی تو جے شری رام، وندے ماترم کے نعرے کے ساتھ ہندوستان میں رہنا ہوگا جے شری رام کہنا ہوگا ، ملّوں کا ایک ہی استھان، پاکستان یا قبرستان، جیسے نعرے زور زور سے لگنے لگے، جب اتنے سے جی نہیں بھرا تو ایک ٹوپی پہنے شخص کو پکڑ کر زبردستی اس سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کے لیے کپڑے کھینچے اور تھپڑ ماردئیے پھر کچھ مسلم لڑکے وہاں اکٹھے ہوئے اور اس لڑکے کو چھڑانے لگے اس کے بعد نوجوانوں نے مخالفت کرتے ہوئے ان پر بھی حملہ کردیا اور ہاتھا پائی شروع ہوگئی اور پتھر بازی بھی ہوئی۔ اس دوران نعرے بازی کو لے کر آپس میں تکرار و بحث شروع ہوگئی، اور پھر پتھر بازی وفائرنگ شروع ہوگئی جس میں ایک نوجوان چندن گپتا ہلاک ہوگیا۔ مہلوک چندن گپتا کے والد کا کہنا کہ وندے ماترم نہ کہنے کی وجہ سے یہ ہنگامہ ہوا جبکہ وہیں مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ترنگا کے ساتھ بھگوا لہرانے کو مجبور کیا جارہا تھا اور اسی بات پر ہنگامہ شروع ہوا ان لوگوں نے ہمیں یہ بھی کہا کہ ملّوں کو ایک ہی استھان، پاکستان یا قبرستان، جس پر دونوں جانب سے پتھرائو اور فائرنگ ہونے لگی اور چندن کو گولی لگی جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔فائرنگ کی اطلاع پر پولس موقع واردات پر پہنچی جب تک پورے علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ سنیچر کو مہلوک نوجوان ابھیشیک عرف چندن گپتا کے انتم سنسکار کے دوران بھی تنائو کے حالات بن گئے حالانکہ بعد میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے بات چیت کے بعد لاش کا انتم سنسکار کردیاگیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع انتظامیہ کو اس معاملے میں قصور واروں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا ہے، دنوں فرقوں سے پرامن رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اور مہلوک نوجوان کے اہل خانہ کی ہر ممکن امداد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ سنیچر کو لگاتار تشدد اور آتشزنی کی خبریں موصول ہورہی ہیں، فرقہ پرستوں نے دو بسوں میں آگ لگا دی ہے انتظامیہ نے ضلع کی سرحدیں سیل کردی ہیں وہی شہر میں زندہ بم ملنے سے سنسنی پھیل گئی ہے۔ ادھر تنائو بڑھنے کے بعد کاس گنج آرہی سادھوی پراچی کو پولس نے سکندررا رائو میں ہی روک لیا ہے جس کی وجہ سے فائربرینڈ لیڈر سادھوی پراچی پولس کے خلاف اپنے حامیوں کےساتھ دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ کاس گنج شہر میں آج بھی بازار بند ہیں، جگہ جگہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہے، کرفیو کا ماحول ہے، چپے چپے پر پی اے سی اور آر ایف ایف کے جوان نگرانی کررہے ہیں، ڈی ایم وی ایس پی بھی کیمپ کیے ہوئے ہیں مقامی لوگ کسی بھی غیر متوقع ا نہونی سے متفکر ہیں۔ افواہوں کا بازار بھی گرم ہے، کچھ لوگوں کو پولس نے حراست میں لیا ہے جس سے تفتیش کی جارہی ہے۔ اطلاع کے مطابق فرقہ پرستوں نے آج ایک مسلم نوجوان کو گولی ماردی ہے جس سے کاس گنج میں مزید تنائو پھیل گیا ہے اور شہر چھائونی میں تبدیل ہے ۔موصولہ اطلاع کے مطابق ایک کار سوار مسلم نوجوان محمد اکرم اپنی کار سے علی گڑھ لوٹ رہے تھے، بتایا جارہا ہے کہ ان کی اہلیہ کا ڈیلیوری آپریشن ہونا تھا جیسے ہی وہ کاس گنج کے نردئی گیٹ پر پہنچے ان کو سینکڑوں لوگوں نے گھیر کر بہت مارا ، پتھر مارے، گاڑی توڑ پھوڑ دی، خبر کے مطابق فسادیوں نے اکرم کو گولی بھی ماردی، اکرم ابھی میڈیکل کالج میں ایڈمٹ ہے ، جہاں وہ زندگی اور موت سے جنگ لڑرہا ہے۔ فی الحال مسلم محلوں میں چھاپہ ماری چل رہی ہے۔ اقلیتی طبقہ نے خود کو اپنے گھروں میں قید کر لیا ہے۔ مقامی باشندہ رئیس احمد نے ہمیں بتایا ہے کہ 146146ہنگامہ قصائی مارکیٹ میں ہوا لیکن دہشت میں پورا علاقہ ہے اور مسلمانوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا ہے اور وہ خوف میں مبتلا ہیں۔145145آج دن بھر ہنگامے کا عالم رہا، کاس گنج کی سبھی سرحدیں سیل کر دی گئی ہیں اور باہر سے کسی کی آمد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہاں لکھنؤ سے کثیر تعداد میں پولس فورس بھیجی گئی ہے۔ یہاں پہلے سے ہی5 کمپنی پی اے سی، ایک کمپنی آر اے ایف موجود تھیں، اس کے باوجود آج ایک درجن سے زائد گاڑیاں اور دکانیں خاکستر کر دی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پولس نے مسلم علاقوں میں سرچ آپریشن چلا رکھا ہے اور نصف درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ کاس گنج کے ضلع مجسٹریٹ آر پی سنگھ نے حالات قابو میں ہونے کی بات کہی ہے۔ فساد کے سلسلے میں انھوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ 146146مسلم اکثریت والے علاقے میں ایک مسجد میں گھسنے اور اور گھروں میں گھسنے کی کوشش کے بعد مسلم نوجوانوں سے ان کا جھگڑا ہو گیا اور فائرنگ میں ایک ہندو کارکن کی موت ہو گئی۔145145 انھوں نے مزید بتایا تھا کہ 146146معاملے میں زخمی ایک دوسرے شخص نوشاد کی حالت سنگین ہے اور اسے علی گڑھ اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یہ واقعہ آگرہ ہائی وے سے ملحق محلہ بدو نگر میں ہوا۔145145اے ڈی جی پی (قانون و انتظامیہ) آنند کمار کے مطابق یہ ایک منصوبہ بند طریقے سے پیش آیا واقعہ نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔ حالانکہ مقامی لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کاس گنج تین دن سے جل رہا تھا۔ یہاں کوتوالی حلقہ میں چامنڈا دیوی مندر پر گیٹ لگنے کے سلسلے میں زبردست کشیدگی تھی۔ اس مندر میں گیٹ لگانے کی مسلمانوں کے ایک گروپ نے مخالفت کی تھی جس کے بعد یہاں اس گیٹ کو سرکاری مشینری کے ذریعہ لگانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی کاس گنج سلگتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ محکمہ خفیہ کے ناکام ہونے کا معاملہ ہے۔بہر حال، آگرہ کے اے ڈی جی پی اجے آنند نے کہا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور ہر ایک نکتے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے بیٹے راجویر سنگھ عرف راجو بھیا یہاں سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ انھوں نے فوراً اعلان کر دیا ہے کہ اب ہندو خاموش نہیں بیٹھے گا جس کے بعد پورے کاس گنج میں ایک دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔