دنیا میں بےشمار مذاہب اپنی تعلیات کے ذریعے اخلاق و عادات کی درستی کرنے،برائی اور جہالت سے بچا کر اچھائی اور ترقی کی جانب ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ان سب کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام گوشوں کی طرف مستقل رہنمائی کرتا ہے،یہی تو وجہ ہےکہ یہ نا صرف مذ ہب کہلاتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسے دین کا درجہ حاصل ہے۔یعنی نظامِ زندگی system of Life۔ جہاں معاشی،سماجی،سیاسی،اقتصادی،عائلی،معاشرتی،تمدنی غرض کہ زندگی کے تمام تر حصّوں پرمحیط یہ نا صرف فرد کی ذاتی زندگی میں حسن پیدا کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے معیار و اخلاق کی بہتری کی جانب گامزن ہوتا ہے۔یہ وہ دینِ فطرت ہے جس نے عدل و قسط کے قیام کو نہ صرف لازم کیا بلکہ ہر ایک فرد کو اِس کے نفاذ کی جدو جہد کے لیے کوشاں رہنے کا حکم دیا۔جس نے اپنی تعلیمات میں ظلم و زیادتی،حقوق تلفی کی سخت مخالفت کی ہے۔
دورِ جدید کی سسکتی بلکتی اِنسانیت،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش،غبن،چوری،ڈاکہ زنی،قتل و خون کی واردات،عیّاش پسندانہ life style، تعصّب و تنگ نظری (intolerance)، غربت و مفلسی میں غریبوں کی انتہا اور رئیسی و مالداری میں امیروں کی بہتات،تکریم اِنسانیت کا فقدان،نظامِ تعلیم کی بد عنوانیاں،جنسی کرائم،اخلاقی گراوٹ ،کرپشن،ان سب سے بڑھ کر غیر واضح مقصدِ زندگی اور نہ جانے کتنی بےشمار انگنت مسائل یا پریشانیاں کو مادی مفاد کی تکمیل تو کر لیتے ہیں لیکن روحانی سکون سے عاری ہیں۔
سنگین حالات،مشکل مرحلے ہر دور میں رہے ہیں بس ضرورت ہے اس مشعلِ راہ کو تھامے رکھنے کی جو ہر وقت جہالت سے اجالے کی طرف،نا اُمیدی سے پر اُمیدی کی طرف گامزن کرنے والی ہوتی ہے۔اور اللہ نے قرآن میں بھی ارشاد فرما دیا کہ”مومن آزمائے جائیں گے۔” ایسی بے شمار آزمائشیں انبیاء،اصحاب اور نیکو کاروں پر آتی رہی ہیں لیکن وہ صبر و ثبات کا پہاڑ بنے رہے اور کیسے بھی نا مصائب حالات میں اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔
الحمداللہ ہمارے پاس اسلام جیسا دین اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ موجود ہےجو ہر وقت اِنسانیت کی فلاح کا نسخہء کیمیا ہے۔جس نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایسے دگرگوں مسائل اور حالات میں بھی چھٹکارہ دلایا۔لہٰذا ایسے ہی حالات اور مشکلات میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ادا کی گئی سنت کو collectively ، مجموعی طور پر اُمتِ مسلمہ پر عائد کیا گیا کہ دعوتِ دین کے مشن کو تھام کر،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جذبے سے سرشار ہوکر حق،راستی و صداقت کا درس بھول گئی اِنسانیت کو اپنے داعیانہ کردار کے ذریعے،اپنے قول و عمل کے ذریعے سماج میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے اور کما حقہ اُن کے سامنے اس بات کی وضاحت کر سے جائے کہ واقعتاً اسلام ہی اِنسانیت کی نجات کے لیے ایک واحد one and only اُمید ہے۔
والسلام
عبیدالرحمٰن عبدالعظیم ممبئی