ہنداسرائیل رشتوں کی بنیادتونہرونے ہی رکھ دی تھی ہنداسرائیل رشتوں کی بنیادتونہرونے ہی رکھ دی تھی غفران ساجدقاسمی چیف ایڈیٹربصیرت آن لائن

غفران ساجدقاسمی
چیف ایڈیٹربصیرت آن لائن
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو’’اپنے دوست‘‘مودی کی دعوت پرہندوستان آئے ۔ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق یہ دورہ پورے 6؍دن پرمشتمل ہے۔اوراس دورہ میں اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ ان کی بیوی کے علاوہ ایک سوتیس افرادپرمشتمل پوراوفدہے جس میں حکومتی کارندوں کے ساتھ اسرائیل کے تجارتی گھرانوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ہندوستان ایک امن پسندملک ہے اورپیارومحبت،اخوت وبھائی چارگی اس ملک کی سرشت میں داخل ہے۔ہندوستان نے ہمیشہ پوری دنیاکوامن وشانتی اوربھائی چارگی کاپیغام دیاہے۔میرے محدودتجزیے کے مطابق ہندوستان ہی وہ واحدملک ہے جہاں دنیابھرمیں پھیلے ہوئے انسانوں کی خیرخواہی،فلاح وبہبوداوراس کی سلامتی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ہندوستان کے باشندے جس قدرمذہب کی بنیادوں پرعالم انسانیت کی خیرخواہ ہے اس سے کہیں زیادہ انسانیت کی بنیادپردنیامیں بسنے والی ہرقوم کی فلاح وبہبودکی دعائیں مانگتے ہیں۔دنیاکے جس گوشے میں بھی انسانیت پرظلم ہوتاہے سب سے پہلے ہندوستان سے اس کے خلاف آوازاٹھتی ہے اوروہ آوازپوری دنیامیں گونجتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے گذشتہ چندسالوں سے نفرت کے چندپجاریوں نے پوری دنیاکوامن وشانتی کاپیغام دینے والے گہوارہ امن وسلامتی کوہی میدان جنگ کابدترین نمونہ بنادیاہے،پھربھی یہاں کے امن پسندباشندے امن وسلامتی کاپیغام پہونچانے اورظالموں اورقاتلوں کے خلاف احتجاج کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے،اوراس کاعملی نظارہ اس وقت دیکھنے کوملاجب ظلم وجورکی علامت بنےاسرائیلی وزیراعظم نے گہوارہ امن وسلامتی پراپنے ناپاک قدم رکھے،ملک کے گوشے گوشے سے اس کی آمدپراحتجاج اورمظاہرے شروع ہوگئے،اورممبئی کے غیورمسلمانوں نے تواس وقت حکومت ہندکوواضح پیغام دیدیاجب احتجاج پرپابندی کے باوجودکثیرتعدادمیں باغیرت مسلمانوں نے نیتین یاہوکی ممبئی آمدکے موقع پرظالم وقاتل کے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا۔یقیناغیورمسلمانوں کایہ قدم انتہائی واجب اوربروقت تھاتاکہ حکومت ہندکویہ احساس ہوجائے کہ ہندوستان صدیوں سے امن وشانتی کاگہوارہ رہاہے،یہاں نہ توباہرکے ظالموں کااستقبال کیاجائے گااورنہ ہی اندرکے ظالم وقاتل کوپسندکیاجائے گا۔ظلم بہرحال ظلم ہے،نہ اس کی حمایت کی جائے گی اورنہ ہی ظلم کرنے والوں کاپرتپاک استقبال کیاجائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک ناجائزریاست ہے،جومنصوبہ بندطریقہ سے عربوں کے سینے میں خنجرکی طرح پیوست کیاگیاہے۔یہودجن پراللہ نے ذلت ومسکنت طاری کردی تھی،بڑے ہی شاطرانہ چالوں سے انہیں قبلہ اول میں غاصبانہ طریقہ سے بسادیاگیا،اس میں جہاں غیروں کی سازش تھی وہیں اپنوں کی عیاری ،مکاری اوردغابازی نے بھی اہم کرداراداکیااوریوں ایک بارپھرقبلہ اول ہم سے چھن گیا۔14مئی 1948 وہ سیاہ تاریخ ہے جس نے عالم انسانیت میں لرزہ طاری پیداکردیااورقیامت تک کے لئے ایک ایسی ریاست کووجودمیں لے آیاجوبہت جلدہی ظلم وجور،جبرواستبداد اورغصب کی علامت بن گیا۔کہنے کوتوآج یہ کہاجارہاہے کہ مودی جی اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کوہی 56؍انچ سینہ کااصلی کارنامہ سمجھ رہے ہیں،اوراسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہوکواس طرح’’دوست‘‘ مخاطب کررہے ہیں جیساکہ دونوں نے اپنابچپن مہسانہ کے واڈنگرمیں ایک ساتھ گلی ڈنڈاکھیل کرگذاراہواورلنگوٹیایارہوں،خیراس پرتبصرہ کرنابھی فضول ہے،کیوں کہ یہ ’’دوستی‘‘ کسی نیک مقصدکے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک خفیہ مشن کے تحت ہےاوراسرائیل کے حالات سے واقف شخص اورمودی جی کی سرشت کاعلم رکھنے والے افراداس خفیہ مشن کوخوب سمجھتے ہیں۔
اسرائیل نوازی کے لئے موجودہ مودی حکومت کوہی موردالزام نہیں ٹھہرایاجاسکتاہے۔مودی نے تواس بنیادکومضبوط کرنے کاکام کیاہے جس کی بنیادآج سے 70؍سال قبل ہندوستان کے پہلے وزیراعظم اورکانگریسی رہنماجواہرلال نہرونے رکھی تھی۔جی ہاں!ہنداسرائیل رشتوں کے اصل بانی جواہرلال نہروہی ہیں۔ہنداسرائیل رشتوں کی اصل کہانی سمجھنے کے لئے جب ہم تاریخ کے صفحات کا بنظرغائرمطالعہ کرتے ہیںتویہ حقیقت واضح ہوکرسامنے آتی ہے کہ اسرائیل خودہمارے پاس چل کر نہیں آیا ہے بلکہ ہم خودآگے بڑھ کراسرائیل کے قدموںمیںنچھاورہوتے چلے گئے ،کہ جس وقت اسرائیل کوناجائزطریقہ سے عرب کے سینہ میںپیوست کیاجارہاتھااس وقت نہرونے یہ کہہ کرحمایت کی تھی کہ میںاقوام متحدہ کے اس بل کی حمایت نہیںکروںگاجس میںاسرائیل کی تخلیق کوبین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بتایاگیاہے جب کہ مہاتماگاندھی نے اسرائیل کے قیام کی مخالف کی تھی،17؍ستمبر1950 کوجب ہندوستانی حکومت نے اسرائیل کوتسلیم کیاتوجواہرلال نہرونے یہ کہہ کرسب کوچونکادیاکہ ہم نے تواسرائیل کوبہت پہلے ہی تسلیم کرلیاتھاصرف اپنے عرب دوستوں کی وجہ سے اقوام متحدہ میں بل کی مخالفت کی تھی،نہرونے مزیدکہاکہ اسرائیل توایک حقیقت ہے اس کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارہ ہی نہیںہے۔اوراس کے بعد1953 میں ہی اسرائیل کوممبئی میں اپناقونصلیت کھولنے کی اجازت مل گئی ۔پھربھی نہرونے اسرائیل سے تعلقات کوبڑھانے میں بہت احتیاط سے کام لیایہی وجہ ہے کہ دہلی میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت نہیں دی کیوں کہ نہروکوخطرہ تھاکہ اس سے عرب اورفلسطین سے تعلقات پرگہرااثرپڑے گا۔گوکہ اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات کی ابتداء بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی مجرم نرسمہاراؤ کے زمانہ میں1992ء میںہوئی لیکن اسرئیل کی حمایت اوراسرائیلی کاز کوفروغ دینے میںہندستان کی حکومت اسرائیل کے قیام کے اول دن سے پیش پیش ہے،اورایک ایسا ملک جس کے عربوںسے صدیوںپرانے تہذیبی وثقافتی رشتے رہے ہیں،اورجس نے ہمیشہ عربوں کو اپنا دوست سمجھا،اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی اپنے رشتوںکوبالائے طاق رکھ کرایک ناجائزریاست کے ساتھ پینگیںبڑھانی شروع کردیں،آخراس کی کیاوجوہات ہوسکتی ہیں؟اس کی صرف اورصرف ایک وجہ ہے اوروہ ہے اسلام اورمسلم دشمنی!افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس کی آبیاری میںمسلمان برابرکے شریک ہیں، اس اسرائیل نوازی پرنہرویانہروکے بعدحکومت ہندکے سامنے مسلمانوںنے کبھی اپنااحتجاج نہیںدرج کرایا،آخرکیوں؟یہ ایک ایساسوال ہے جوہراس شخص کی زبان پرہے جومسلمان ہے اورجس کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ’’مسلمان ایک جسم کی طرح ہے کہ اگراس کے کسی عضوکوتکلیف ہوگی تواسے تکلیف پہونچے گی‘‘،لیکن اسرائیل اپنے قیام کے دن سے ہی فلسطینی مسلمانوںپر ظلم وجبرکوروارکھاہے ،اورنہروجی اپنے خط میںفلسطینیوںکے ساتھ یہودیوںکے اس عمومی رویہ کودرست ٹھہرارہے ہیںاورمسلمان خاموش ہے، آخرکیوں؟ہندستان کثرت میںوحدت کی عظیم مثال ہے،یہاںآزادی سے قبل تک ہرفرقہ کے لوگ آپس میںشیروشکرہوکررہاکرتے تھے،ہندستان میں مسلمانوں نے تقریبا800؍سالوںتک بڑی شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی اوراس حکومت میںراجہ رجواڑے اپنے اپنے علاقوںکی باگ ڈوربڑی آزادی کے ساتھ سنبھالے ہوئے تھے،اورسب فرمانروائے مغلیہ سلطنت کے زیرنگیںتھے،اکادکاواقعات کے علاوہ مسلم حکمرانوںکے خلاف بغاوت کی کوئی مثال نہیںملتی،لیکن جب انگریز ہمارے ملک میںداخل ہوئے توانہوںنے ہمارے آپسی مثالی اتحادکوتوڑنے کے لیے فرقہ پرستی کی بیج بوئی جوآج تک قائم ہے،اوراب جسے اسرائیل مزیدہوادے کرایک مخصوص فرقہ کونشانہ بنارہاہے اورہماری حکومت اسرائیل نوازی میںاسے مزیدبڑھاوادے رہی ہے۔
ہندستان اسرائیل نوازی میںکس قدرآگے جاچکاہے اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت اسرائیلی ہتھیاروںکاسب سے بڑاخریدارملک ہندستان ہی ہے،روس کے بعداسرائیل ہی سب بڑاملٹری ہتھیاروںکاسپلائرہے،اورصرف ملٹری ہتھیاروںکی تجارت 2009ء کے اعدادوشمارکے مطابق ۹؍بلین ڈالرہے اوردیگرتجارتی تعلقات تقریباً2010ء کے اعدادوشمارکے مطابق 4؍اعشاریہ 7 بلین ڈالر ہے۔ 2014 تک ہندوستان ایشیاء میں اسرائیل کاتیسراسب سے بڑاتجارتی شراکت داربن چکاتھا اورپوری دنیامیں اس کی شراکت داری دسویں نمبرپرتھی۔اوریہ تجارت 4؍اعشاریہ 52 بلین ڈالرتک پہونچ چکی تھی۔صرف 2017 میں دونوں ملکوں نے 2؍بلین ڈالرکے ملٹری معاہدوں پردستخط کیا۔اگست2012 میںدونوںممالک نے50؍ملین ڈالرکے اکیڈمک ریسرچ معاہدہ کومنظوری دی ہے، معتمدذرائع سے ملی خبروںکے مطابق اسرائیل نے ہندستان کے مختلف یونیورسیٹیوںکے66؍پی ایچ ڈی کے طلبہ کوانفارمیشن ٹیکنالوجی، ایگریکلچر،سائنس،بائیوٹیکنالوجی کے مختلف میدانوںمیںریسرچ کے لیے اسکالرشپ دی ہے،جن کاہندستان کی مشہوریونیورسیٹیوںجیسے،عثمانیہ یونیورسٹی،دہلی یونیورسٹی کے ساتھ ملک کی دیگربڑی یونیورسیٹوںسے تعلق ہے ،افسوس کامقام ہے کہ جس ملک کی بنیادہی ناجائزہے،جوخودغلط اصولوںپرقائم ہے،اورجس کاکارنامہ ہی نہتوں،بے قصوروں،بچوںاورعورتوںپرظلم وستم کے پہاڑتوڑنے ہیںان سے ہمارے یہ فاضل اسکالران مخرب اخلاق حرکتوںکے سوااورکیاسیکھیںگے؟؟؟1997 میں ایزروزمین پہلااسرائیلی صدرتھاجس نے ہندوستان کادورہ کیاتھااوراس کے بعد2000 میں لال کرشن اڈوانی ایسے پہلے ہندوستانی وزیرتھے جنہوں نے اسرائیل کادورہ کیااورتب سے آج تک دونوں ملکوں کے متعددوزراءاورسربراہ مملکت کادورہ ہوچکاہے۔
ہندستان کی اسرئیل نوازی کاقصہ بہت طویل ہے، غورطلب یہ ہے کہ ہندستان کی اسرائیل نوازی کوکیسے لگام دی جائے اس کے لیے لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم چھوٹے موٹے مطالبوںمیںپڑے ہوئے ہیں،اورحکومت چاہتی بھی یہی ہے کہ وہ انہی جھمیلوںمیںالجھے رہیں اورہم آسانی سے کام کرتے جائیں،ہمارامطالبہ کیاہوتاہے؟ہمارامطالبہ ہوتاہے کہ ہمیںریزرویشن دو،ہمیںنوکری دو،ہماری قبرستان کی چہاردیواری کرادو،وغیرہ وغیرہ،لیکن کبھی ہم نے یہ مطالبہ کیاکہ خارجہ پالیسی میںتبدیلی لاؤ،جومسلمانوںکاہی نہیںبلکہ انسانیت کاازلی دشمن ہے اس سے ناطہ توڑو،کبھی نہیں،کیوں؟کیوںکہ ہمیںصرف اپنی فکرہے،مستقبل کی کوئی فکرنہیںہے،آج ہماراانتشاراس حدتک بڑھ چکاہے کہ ہم ہرمحاذپرمنتشرہوچکے ہیں،ہمارے قائدین کی اتحادکی صدابصحراثابت ہورہی ہے اوراسی کانتیجہ ہے کہ آئے دن ہم حکومت کی نئی دسیسہ کاریوں میں پھنستے چلے جارہے ہیں،جس کی ایک بڑی مثال آج طلاق ثلاثہ جیسے غیرضروری مسئلہ کومسلم قوم کاسب سے بڑامسئلہ بنادیناہے۔نتیجتاطلاق ثلاثہ جیسے غیرضروری مسئلہ کی بناپرہم بنیادی مسائل سے بہت دورجاچکے ہیں،بلکہ یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ ہمیں آج یہ احساس تک ہی نہیں ہے کہ ہمارابنیادی مسئلہ کیاہے؟آج کی حکومت کی سب سے بڑی کوشش ہے کہ وہ ہمیں ہمارے قائدین سے توڑدے اوراپنی داخلی وخارجہ پالیسی فرقہ پرستی کے تناظرمیں تیارکرسکے اوراس میں وہ کامیاب ہے،اسے ناکام بنانے کے لئے ہمیں بیدارمغزہوکراپنی قیادت پربھرپوراعتمادکرناہوگاتبھی ہم حکومت کی چالوں سے بچ سکیں گے۔