دعوتِ دین ایک فریضہ حق اور ہر مسلمان کی ذمہ داری
عائشہ پروین جہانگیر بیگ
صدف کالونی، اورنگ آباد
وقت فرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
اسلام دینِ فطرت ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۷۲ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 146146اَلَسْتُ بِرَبکُم۔ قالُوا بَلٰی ۔145145 کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا آپ ہی ہمارے رب ہیں۔
یہ معاملہ تخلیقِ آدم کے موقع پر پیش آیا تھا، جس وقت اللہ رب العزت نے زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا۔اسی وقت پوری نسل انسانی کو جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، بیک وقت وجود اور شعور بخش کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ حدیث کا مفہوم ہے 146146ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے گھر والے اسے یہودی، نصرانی اور مشرک بنادیتے ہیں۔145145 یعنی ہر انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ ایک اللہ ہی اس کا رب ہے خالق و مالک ہے۔ لیکن اللہ کی شان ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو ہدایت اور ضلالت کے معاملے میں اس کی فطرت پر نہیں چھوڑا اور نہ اَخوت میں سزا و جزا دینے کے لیے فطری رہنمائی کو کافی قرار دیا ، بلکہ اپنی حجت تمام کرنے کے لیے نبیوں اور رسولوںکو بھیجا تاکہ قیامت کے دن لوگ عذر نہ کرسکیں کہ ان کو سچائی اور نیکی کا راستہ پتہ نہ تھا۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ 146146اور ہم نے بھیجے رسول خوشخبری دیتے ہوئے اور ہوشیار کرتے ہوئے، تاکہ لوگوں کے پاس ان رسولوں کے بعد اللہ کے خلاف کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔145145یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی اور رسول بھیجے، پھر آخر میں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر تمام عالم کی ہدایت اور رہنمائی اور تما م مخلوق پر اتمامِ حجت کی ذمہ داری ڈالی۔ اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو وہ مکمل نظام حیات عطا فرمائی جو تمام بنی نوع انسانی کے مزاج ،حالات اور ضروریات کے مطابق ہو، یہی خدائی نظام زندگی دین اسلام ہے، جس کو تمام انبیاء لے کر آئے اور یہی تمام انسانوںکا حقیقی مذہب ہے۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے بعد دین کو صحیح حالت میں محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو خاص انتظام فرمائے : (۱)ایک یہ کہ قرآن مجید کو ہر قسم کی کمی و بیشی اور تحریف و تبدیل سے محفوظ فرمادیا۔ (۲) دوسرے یہ کہ اس امت محمدیہ کو ہمیشہ کے لیے اس بات کا حکم دیا کہ وہ اس دین کی دعوت کو دنیا میں پھیلاتے رہیں۔ سورہ آل عمران میں ارشادِ ربّانی ہے کہ 146146کنتم خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلناسِ تَأمُرون بِالمعروفِ وَ تَنھَون عَنِ المُنکِر و یُؤمِنونَ بِاللّٰہ۔145145 اے مسلمانو! تم تمام امتوں میں بہترین امت ہو، جو لوگوں کی اصلاح کے لیے ظہور میں آئی ہے۔ تم نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے ہو۔
تبلیغ دین محض نہ بطور نیکی کاکام ہے اور نہ مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لیے مطلوب ہے، بلکہ اسلام جو دین حق ہے ، ایک عالمگیر مذہب ہے، اسے دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے اور حق سے روشناس کرانے کی ذمہ داری امت مسلمہ کے ہر فرد پر ڈالی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شہداء علی الناس کا درجہ عطا کیا ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 146146تم ایک امت وسط ہو،تم لوگوں پر گواہ ہونگے اور رسول تم پر گواہ ہونگے۔145145 قیامت کے دن جب اُمتیں انکار کریں گی جہنم کو دیکھ کر کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں۔ اللہ تعالیٰ رب العزت گواہی کے لیے امت محمدیہ کو بلائے گا اور پوچھے گا کہ کیا تم نے اپنا فرض ادا کیا۔ تمہیں جو ذمہ داری دی گئی تھی، کیا اسے تم نے پور ا کیا۔ یعنی ساری دنیا کی گمراہی کا وبال تمہارے سر ہوگا۔دنیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی گمراہیوں کے لیے یہ عذ ر کرسکتی ہے کہ تو نے جن کو شہداء علی الناس بنایا تھا، جن پر رہنمائی کی ذمہ داری ڈالی تھی، انہوں نے ہمارے سامنے تیرے دین کو پیش ہی نہیں کیا۔ ورنہ ہم ضلالتوںمیں نہ پڑتے۔
آج ہماری بہت بڑی کوتاہی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے نہ اپنے دین کو صحیح سے پیش کررہے ہیں اور نہ نبی کریم ﷺ کو۔ دوسری لادینی تحریکات اپنے مذاہب کو پھیلانے اور ان کے غلط عقیدوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پوری جی جان کا زور لگارہے ہیں۔ جبکہ اسلام تعداد کے حساب سے دنیا کا دوسرے نمبر کا دین ہے لیکن عیسائیت کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ لیکن آج وہ مذہب جس کے بارے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوںبھی کئی غلط فہمیاں ہیں۔ ایک سچا دین اس کے اتنے ماننے والے ہونے کے باوجودسب سے بدنام بن چکا ہے۔ اسلام کے تعلق سے کئی غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں اور کیوں نہ ہو جب مسلمانوں نے ہی ان کے پاس جو کچھ ہے ، بتایا ہی نہیں۔ قرآن پر الزام ،رسول ﷺ پر الزام ، اللہ کی ذات پر الزام، اللہ کی کتاب پر الزام اور خود مسلمانوں پر ہزاروں الزام ، کیونکہ ہماری غلط فہمی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دعوتِ دین صرف عالموں اور کچھ گروہوں اور جماعتوں کاکام ہے۔نہیں ، ہم میں سے ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ہم دین اسلام کی دعوت کو دل سے ،زبان سے، عمل سے ، بلاتقسیم و تفریق کے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچائیں ۔
یہی مقصودِ فطر ت ہے یہی رَمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی