یاسر ندیم الواجدی صاحب سے مذاکرہ کے دوران عارف محمد خان صاحب نے بنیادی طور پر تین باتیں کہی ہیں :عبدالرحمٰن عابد دہلی
عبدالرحمٰن عابد دہلی
یاسر ندیم الواجدی صاحب سے مذاکرہ کے دوران عارف محمد خان صاحب نے بنیادی طور پر تین باتیں کہی ہیں نمبر ایک ۔ جو حدیث انکی عقل میں آئے وہ اس کو صحیح حدیث مانتے ہیں خواہ وہ ضعیف یا موضوع حدیث ہی کیوں نہ ہو ۔
دوسرے وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ حدیث کو پرکھنے جانچنے کا ان کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔ جن علماء کے پاس اس کا پیمانہ ھے جنہوں نے اس کےلئے زند گیاں خرچ کرکے تحقیق و تدقیق کی ہے اسماء الرجال کے فن پر بے مثال کتابیں لکھ کر دنیا کو ایک عظیم الشان فن سے واقف کرایا ھے اور حدیث کا درجہ و مقام بتایا ھےکہ کون سی حدیث صحیح ھے کون مرسل کون ضعیف اور کون موضوع حدیث ھے ۔؟ ان پر عارف خان صاحب کو اعتبار نہیں ہے ۔ تیسری
بات یہ کہ عارف خان صاحب کے نزدیک انکی اپنی عقل میں جو آئے وہ صحیح ھے اور جو نہ آئے وہ غلط ھے ۔ یعنی انکی اپنی عقل ہی پیمانہ ھوا ۔ جبکہ ہر عاقل شخص یہ بات جانتاہے کہ ہر فرد کے عقل و شعور کا معیار یکساں نہیں ہے اس لئے ۔۔
ہربات ہر فردکےفہم وعقل میں درست ہی ٹھہرے یہ ضروری تو کیاممکن بھی نہیں ۔
عارف صاحب نے کہا سرسید پر کفر کے فتوے دیوبند کے علماء نے لگائے خاص طور پر انہوں نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے متعلق حیات جاوید کے حوالے سے کافی ایگریسیو بحث کی ۔ جبکہ حیات جاوید کے متعلق یہ بات تسلیم شدہ ہیکہ مولانا حالی نے سر سید کی عقیدت مندی میں بہت سے مقامات پر خاصے غلو سے کام لیا ہے مگر انہوں نے مولانا نانوتوی پر فتویٰ ء کفر کاالزام عائد نہیں کیا ۔۔ اسی بحث میں تصفیة العقائد کو مولانا نانوتوی کی تصنیف کہا گیا ہے ۔ جبکہ ایسانہیں ھے بلکہ تصفیةالعقائد سرسید اور مولانا نانوتوی کے درمیان ھوئی مراسلت کا مجموعہ ہے ۔
اسکی تفصیل یہ ہیکہ جس زمانے میں سر سید دین میں اصلاح کا جھنڈا بلند کئے ہوئے تھے اور اس جدوجہد میں وہ جمہور علماء کی راہ سے جدا ایک ایسی نئی راہ نکالنے کیلئے کوشاں تھے جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے دینی شعور اور صحابہؓ کی راہ سے اور جمہور امت سے منحرف تھی ۔ اسی فکر کو طلباء علی گڑھ میں منتقل کرنے کے اندیشوں کے پیش نظر سرسید کے خلاف مسلمانوں میں ہنگامہ برپا ہوا انکے ہم منصب دو ڈپٹی مجسٹریٹ صاحبان نے استفتاء مرتب کرکے علمائے عرب خاص طور سے مکہّ مکرمہ مدینہ منورہ کے علماء سے فتاویٰ حاصل کئے جو سرسید کی اس دینی فکر کے خلاف تھے ۔
اسی زمانے میں سر سید نے دیوبند میں اپنے ایک بزرگ دوست پیرجی عارف صاحب کے توسط سے مولانا نانوتوی سے اپنے مخصوص بےباک لب و لہجہ میں کچھ خطوط لکھے تھے جنکے جوابات مولانا نانوتوی نے پیرجی عارف صاحب ؒ کے توسط سے ہی لکھے لیکن پورے احترام کے ساتھ ان خطوط میں مولانا نے سنی سنائی ہمدردئ مسلم کی توصیف کرتے ہوئے سرسید کے دینی عقائد کے فساد کا شکوہ بھی کیا ہے لیکن کہیں بھی کفر کا فتویٰ تو کجا الزام بھی نہیں دیا ۔
بہرحال ! عارف محمد خان صاحب مذاکرے کے دوران حیات جاوید کے حوالے سے دیوبند کے علماء پر کفر کے فتویٰ کے الزام پر مصر رہے لیکن وہاں سے بھی ثابت نہیں کر پائیں گے اسکے باوجود کہ مولانا حالی نے سرسید کی عقیدت میں بہت سی سنی سنائی بھی رنج و الم کے ساتھ اس میں درج کردی ہیں اگر وہ تحقیق کرلیتے تو کبھی انکو درج نہیں کرتے ۔
پھر عرض کرتا ہوں کہ سرسید اور مولانا نانوتوی ،، جوبانئ دارالعلوم دیوبند تسلیم کئے جاتے ہیں،، کے درمیان آپسی احترام کے رشتے تھے جنہیں شک ہو وہ سرسید کی دو تحریروں کو ضرور دیکھ لیں ایک علی گڑھ کالج کے پہلے ناظم اسلامیات مولانا عبداللہ انصاری کے تقرر کے لئے منتظمہ کمیٹی کے نام لکھی سفارشی تحریر ۔ دوسری مولانا نانوتوی کے انتقال کے بعد سرسیّد کی تعزیتی تحریر ۔ یہ دونوں تحریریں ان نام نہاد دانشوروں کی قلعی کھولنے کے لئے ایسے پختہ ثبوت ہیں جنکے سامنے ضخیم کتابیں بھی ماند پڑجائیں ۔
معافی کے ساتھ عرض کردوں کہ یہ نام نہاد اصلاح پسند دانشور حضرات بھی جانتے سارا سچ ہیں لیکن مانتے اس لئے نہیں کہ دانشوری کا دھندا چوپٹ ہونے کا خطرہ ہے ۔
بہرحال بات طویل ہوگئی لیکن وضاحت ضروری محسوس ہوئ سو کردی ۔
عارف صاحب کے متعلق ایک تائثر یہ ہیکہ وہ 1984 – 85 ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ سے ٹکراؤ کے نتیجے میں ملی ہزیمت و خفت کا حساب کتاب چکتا کرکے اپنی سرخروئی کا ڈنکا بجانے کی جنگ لڑ رہے ہیں اس کےلئے وہ بڑی محنت سے قرآن حدیث اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ بھی کرتے ہیں بلکہ میری اطلاع کے مطابق ایک زمانے تک کسی مولوی صاحب کو با معاوضہ متعین کر کے ان سے عربی زبان اور ترجمہ ء قرآن کریم بھی پڑھا ہے واللہ اعلم ۔
لیکن میں آج بھی انکی طرف سے مایوس نہیں ہوں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کب کسے کیسے ھدایت دیدے ۔ اس سلسلہ میں ایک عجیب واقعہ مولانا عبدالماجد دریابادی نےخود اپنا لکھا ہے کہ ۔ ،، وہ ایک دور میں اعلیٰ درجے کے کمیونسٹ تھے اسلام سے بیزار تھے لیکن عربی ادب کے دلدادہ تھے ۔ مرحوم اکبر الہٰ آبادی نے قرآن کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا کمیونسٹ عبدالماجد نے رد کردیا لیکن اکبرؔ صاحب نے کہا کہ تم مقدس قرآن سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہتے مت پڑھو عربی ادب کے لئے پڑھو کسی طرح کمیونسٹ نوجوان عبدالماجد نے قبول کیا اور سوٹ بوٹ پہن کر بے وضو عربی ادب کی کتاب کے طور پر قرآن مجید کا مطالعہ شروع کر دیا کچھ دنوں کے بعد قرآن کریم نے اپنا رنگ دکھایا اور کمیونسٹ نوجوان عبدالماجد ، مولانا عبدالماجد دریابادی مفسر قرآن کریم ہوگئے ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں اسلئے مایوس کسی کی طرف سے نہیں ہوناچاہئے کیا معلوم اللّٰہ تعالیٰ کب کسے ہدایت دیدے سخی لوگوں کو ایسے بھی ھدایت ملنا آسان معلوم ہوتی ہے کیاخبر کس کی دعا سخی کے حق میں شرف قبولیت حاصل کر لے ۔اس لئے عرض کریں گے کہ جن حضرات کے بھی عارف صاحب یا دوسرے ایسے حضرات سے علمی رابطے ہیں انکو ضرور مثبت فکر کے ساتھ صلاح کی سعی جاری رکھنی چاہئے ہدایت دینا نہ دینا اللہ کے اختیار ہے بندے صرف جدوجہد کے مکلف ہیں ۔ والسلام ۔