نئی نسل کو جدید تعلیم کے حصول کی خاطر ہر مشکل عبور کرناضروری  دستور کے مطابق اپناحق مانگناسہی مگر سرکار پر بھروسہ کرنابڑی غفلت ؟

مولانا عقیل الرحمان

سہارنپور (احمد رضا) ہمارے اسلاف دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تر غیب دیتے تھے اور اس سے وابستہ افراد کی ہمت افزائی بھی کرتے تھے اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عملی میدان میں آگے آئیں اور اپنا مستقبل سنواریں یوپی سرکار کی طرح اردو زبان کو اسکا سہی حق دینے کے معا ملات اور مسلم بچوں کو اردو کوچنگ سے آئی اے ایس بنانے کے لفظی آئی اے ایس کوچنگ وغیرہ کے نعروں سے سیاسی جماعتوں نے اس قوم کی نئی نسل کو گمراہ کرتے ہوئے اس بہادر قوم کو کافی پیچھے کردیاہے ! قومی دھارے میں قومی زبانوں کے وسیلہ سے ہی مسلمان قوم کے طلباء اور طالبات بہ آسانی ملک کی مین اسٹریم میں شامل ہوکر قوم اور ملک کی ترقی کے علمبردار بن سکتے ہیں !ہمارے بچے آئی اے ایس ، آئی پی ایس اور پی سی ایس بننے کے اہلرہے ہیں اور آگے بھی ان امتحانات کو عبور کرنیکے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر قوم اور ملک کا نام روشن کرسکیگیں بس شرط ہے کہ ملک کی قیادت اور ملک کی انتظامیہ ہمارے بچوں کے ساتھ منصفانہ روش اختیار کرے ہمارے راستوں میں رکاوٹیں پیدانہ کی جائیں بلکہ اپنوں کی ماند ہمیں بھی اپناہی تسلیم کیا جائے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ بند کیاجائے ہمارے ملک کے جو حالات ہیں اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ ملک کے آئین کو مسخ کرتے ہوئے آج چند موقع پرست، متعصب اور تنگ نظر سیاست داں ہماری امن پسند ،وطن پرست اور محنت کش قوم کوایک سازش کے تحت سرکاری مراعات، سرکاری نوکریوں اور بنیادی حقوق سے دور رکھ کر بربادی کے راستہ کی طرف لے جا نا چاہتے ہیں اس لئے وقت کی اہمیت کو بھا نپتے ہوئے آج ہم سبھی کو مسئلہ اور مسائل چھوڑکر مسلکی، جماعتی اور قومی اختلافات بھلاکر اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھتے ہوئے علمی حیثیت کو مضبوط کر نے میں تمام جسمانی اور روحانی طاقت لگائیں تبھی ہماری قوم کے تعلیم یافتہ نوجوان کامیابی کے حقدار بن سکتے ہیں؟
امام وخطیب جامع مسجد گھنٹہ گھر مولانا عقیل الرحمان نے اخبار نویسوں سے کل دیر شام مختصر گفتگو کے دوران کہاکہ دین اسلام نے اپنے و جود سے ہی جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا ہے کہ تعلیم حاصل کرو لیکن امت مسلمہ آج تعلیمی میدان میں کافی پیچھے ہے خصوصاََ ہندوستان میں مسلمانوں کی ۳۰ کروڑ کی بھاری بھرکم آبادی اپنے آپ میں کافی بڑی آبادی ہونے کے بعد بھی آبادی کے تناسب سے مسلم قوم تعلیمی اور سماجی سطح پر حد درجہ نیچے ہیں سابقہ حکومت کی جانب سے متعین کی گئی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں مال و زر کی کمی نہیں ہے عقل و شعورکی بھی کمی نہیں لیکن اگرکمی ہے تو مسلما نوں میں شعورخفتہ بیدار کرنے والوں کی اگر کمی ہے توتعلیم کی جانب رغبت دلا نے والوں کی کمی ہے، امام وخطیب نے فرمایاکہ آج کا مسلمان حکومت پر بھر و سہ کررہا ہے اسی حکومت پر کہ جس کا خفیہ ایجنڈ مسلمانوں کو بربادکرنے کا ہی ہاہے جبکہ مسلمان اول سے تا قیامت اپنے وطن کا وفادار رہاہے اور ہمیشہ ہی رہیگا ملک کا مسلمان ملک کی طاقت کا علمبر دار ،جنگ آزادی کا اہم ستون اور ملک کی خدمت میں پیش پیش رہاہے ملک کی آن کی خاطر آج بھی ہر قربانی کے لئے تیار اہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ حکومتیں الیکشن کے ایام میں مسلمانوں کی ہمدردی کی بات کرتی ہیں ان کی تعلیمی پسماندگی پر کھڑیال کے آنسو بہاتی ہیں تا کہ ان کا قیمتی ووٹ انکے پالے میںآجائے لیکن ووٹ مل جانے اور کامیابی کے بعدیہ سیاسی جماعتیں پھر سے اپنے پرانے خفیہ رخ پر گامزن ہو جاتی ہیں مسلم قوم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے بنیادی حقوق سے محروم رکھاجاتا ہے، آذان پر بندش، حج سبسڈی پرقفل، سرکاری نوکریوں سے باہرغرض یہ کہ ہمیں ہر سطح پر قومی دھارے سے دور رکھاجاتاہے! عالم دین عقیل الرحمان نے یہ بھی کہاہے کہ آجہمارے لئے لازم ہے کہ اپنے وقار کی خاطر مسلمان تعلیم کے میدان بغیر کسی بیسا کھی کے آگے آئیں موجودہ عالم میں ا ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ کسی طرح بھارت اور دیگر ممالک میں ہمارے نوجوان صرف اور صرف تعلیم کی بدولت حکومتوں کیاہم نمائندے بنے ہوئے رہے یہ کڑوا سچ ہے کہ ملکی حکومتوں کے تعاون کے بغیر بھی مسلم طبقہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے مگر اس کے لئے سخت ہمت اور محنت درکار ہے حکومت سے حق لینا ضروری تو ہے لیکن اس پر تکیہ کر کے بیٹھ جانا ہماری غفلت ہے! قوم کے بڑے سرمایہ دار، مدارس، بڑے سیاسی نمائندے اور صاحب حیثیت حضرات اگر چاہیں تو مسلمانوں کی بڑی آبادی کو اعلیٰ تعلیم سے وابستہ کر کے ان کا بہتر مستقبل تیار کر سکتے ہیں اور انکو مین اسٹریم میں شامل کراسکتے ہیں مگر ایسا نہی ہے اسی لئے آج غفلت اور جوش کے باعث پیارے نبی ﷺ کی یہ خاص امت بے وزن ہوکر رہ گئی ہے آپ نے فرمایاکہ اب ہمیں ذات، نسل،نصب اور حیثیت سبھی کو بلائے طاق رکھ کر اس ملک میں اپنے وجود کے لئے جنگ لڑنی ہے یہ ملک سیکولر ملک ہے ہم سبھی اس ملک کے باشندے ہیں اور اس ملک پر سبھی کاحق ہے! مسلمانوں کو اپنے وجود کی خاطرزمینی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے مسلمانوں کو ہر علاقے میں تعلیمی کمیٹی تیار کرنی چاہئے اس کمیٹی کے ذریعہ تعلیمی بیداری مہم چلانی چاہئے اور ضرورت مند طلبا ء کی بھر پور امداد کرنی چاہئے تا کہ طلبا میں تعلیم کے تئیں بیداری آئے ہمارے قابل قدر مدارس بچوں کو صرف دینی تعلیم کی طرف رغبت دلا تے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی زور دینا چاہئے ملک میں حصہ داری کے لئے سرکاری ملازمتوں اوراہم سرکاری منصبوں پر ہماری قوم کے بچوں کی تقرری بیحد ضروری ہے ہمارے لئے جہاں دینی تعلیم ضروری ہے آج اگر دیکھاجائے تو ملک میں دینی علوم سے وابستہ افراد کی کچھ کمی بھی نہی ہے ہاں صرف مسلمانوں کی تیس کروڑ آبادی کے تناسب سے اندنوں بڑی لگن اور محنت کے بعد ایک یا دو فیصد طلباء ہی سہی معنوں میں اعلیٰ علوم سے وابستہ رہکر اونچے عہدوں پر فائز ہوکر ملک اور قوم کی خد مت میں شریک ہیں مگراپنا کھویا وقار پانے کے لئے اس قوم کے بچوں کو اب دیگر جدید علوم سیکھنے پر خاص دھیان دینا سخت ضروری ہوگیا ہے !