ملک کا جمہوری نظام خطرے میں : اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی۔۔۔۔۔ انڈین سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین جج صاحبان کی سسٹم سے بغاوت
آمنا سامنا میڈیا
( تازہ خبر )
انڈیا کی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے ایک خط اور پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہے۔
ایک خط اور پریس کانفرنس کے ذریعے چار جج صاحبان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس عدالتی اصولوں کے خلاف اپنی پسند کے مطابق مختلف بینچوں کو مقدمات متعین کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک عدالتی ضابطہ کار کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی۔
یہ پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے پریس کانفرنس کر عوام کو حالات کی سنجیدگی سے آگاہ کیا ہے
جن چار سینیئر ترین جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی ہے ان میں جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف۔
یہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کی ریذیڈنس پر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس جے چلاسپیشمر نے کہا 146ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارہ نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اور منضف عدلیہ اچھی جمہوریت کے لیے کی جانب اشارہ ہے۔145
انھوں نے مزید کہا 146چونکہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ آج صبح بھی ہم چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے پوائنٹ پر متفق نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ عدلیہ کا خیال کرو۔145
جسٹس جے چلاسپیشمر نے مزید کہا 146میں نہیں چاہتا کہ 20 سال بعد اس ملک میں ایک سوج بوجھ رکھنے والا شخص کہے کہ جے چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا۔145
عدالتی ضوابط کے مطابق جج صاحبان میڈیا سے براہ راست بات نہیں کرتے تاکہ کیسز میں غیر جانبدار رہیں۔
سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی۔
ان چار جج صاحبان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں سپریم کورٹ کے 146چند عدالتی احکامات145 پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ان احکامات کی وجہ سے عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ ان کے پاس میڈیا سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان کے تحفظات سننے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس صاحبان کون ہیں
جسٹس جے چلامیسور:
23 جولائی 1953 میں آندھرا پردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے طبعیات پڑھی اور 1976 میں لا کیا۔ 1995 میں وہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بنے۔ گواہاتی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے بعد وہ 2011 میں سپریم کورٹ کے جسٹس بنے۔
جسٹس رانجن گوگوئی:
جسٹس گوگوئی 18 نومبر 1954 میں پیدا ہوئے اور 1978 میں وکیل بنے۔ گواہاتی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد 2001 میں وہ گواہاتی ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔ 2010 میں وہ پنجاب ہریانا ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوئے۔ اور 2012 میں وہ سپریم کوٹ کے جسٹس تعینات ہوئے۔
جسٹس مدن لوکر:
جسٹس مدن 31 دسمبر 1953 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1977 میں دہلی یونورسٹی سے لا کیا۔ انھوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کی۔ وہ 1990 سے 1996 تک سینٹرل گورنٹمنٹ ایڈووکیٹ رہے۔ 2012 میں ان کو سپریم کورٹ کے جسٹس تعینات ہوئے۔
جسٹس کرین جوزف:
جسٹس کریئن 30 نومبر 1953 میں کیرالا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1979 میں کیرالا ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ وہ 2000 میں کیرالا ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے۔ وہ 2010 سے 2013 تک ہماچل پردیش کے چیف جسٹس رہے او مارچ آٹھ 2013 کو سپریم کورٹ کے جسٹس تعینات ہوئے۔ وہ 29 نومبر 2018 میں رٹائر ہوں گے۔