حقوق انسانی کے تئیں بیداری کیلئے اے پی سی آر کا سیمینار 146محروم طبقات کے حقوق انسانی کی پامالی وجوہات اور علاج 145
حقوق انسانی کے تئیں بیداری کیلئے اے پی سی آر کا سیمینار 146محروم طبقات کے حقوق انسانی کی پامالی وجوہات اور علاج 145
ممبئی :(نہال صغیر )حقوق انسانی کیلئے بیداری پیدا کرنے اور اس کے تحفظ کیلئے وجود میں آنے والی تنظیم اے پی سی آر (ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس )نے مراٹھی پتر کار سنگھ ہال میں 146محروم طبقات کے حقوق انسانی کی پامالی وجوہات اور علاج 145 عنوان سے سمینار کا انعقاد کیا ۔اس میں ملک کے معروف حقوق انسنای کے کارکنان نے اپنی گرانقدررائے شرکاء کے سامنے رکھی۔سیمینارمیں اے پی سی آر کے کل ہند چیئر مینیوسف حاطم مچھالا، پروفیسر رام پنیانی ڈاکٹر اپوروا آنند جھا ، مولانا محمود دریا بادی اور ڈولفی ڈیسوزا شامل ہیں ۔اے پی سی آر مہاراشٹر کے صدر اسلم غاذی نے اپنے ابتدائی خطاب میں تنظیم کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی آر پورے ملک میں حقوق انسانی کے تحفظ اور عوام میں اس کے تعلق سے بیداری کیلئے متحرک ہے یہ سیمینار بھی اسی بیداری مہم کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے کہا حقوق انسانی کی پامالی صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے ۔کہیں اس کا صدور حکومت کی جانب سے اور کہیں تنظیموں کی جانب سے ہوتا ہے ۔کل ملا کر پوری دنیا میں حقوق انسانی کی بدترین پامالی جاری ہے ۔ یہاں اس سیمینار میں تعداد کی کمی یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم اس تعلق سے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ظلم کی انتہا ہے لیکن ہم خاموش ہیں ۔اس طرح کے پروگرام میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اگر حقوق انسانی کے تئیں ہمارا یہی رویہ رہا تو پھر اس کا تحفظ کس طرح ہو پائے گا ۔
یوسف مچھالا جو کہ اے پی سی آر کے کل ہند چیئر مین ہیں نے اپنے صدارتی خطاب میں حقوق انسانی کی بدتر حالت پر کہا کہ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ عدلیہ میں بھی تعصب در آیا ہے اور وہاں سے غلط فیصلے آرہے ہیں مثال کے طور پر ہادیہ اکھیلاکا مقدمہ جس میں اس کے بالغ اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پہلے والدین کی تحویل میں دیا اور بعد میں اس کے کالج کے سربراہ کو اس کا سرپرست قرار دیا جبکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ،دوسری مثال گجرات فسادات میں عبادت گاہوں کے نقصان کی بھرپائی کے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کو رٹ کے ذریعہ رد کیا جاناجیسے بہت سے مقدمات شامل ہیں ۔
ڈولفی ڈیسوزانے حقوق انسانی کی خلاف ورزی پر بولتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں کہیں نہ کہیں ہم بھی شامل ہیں ۔ہماری خاموشی ہی ظلم کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتی ہے ۔قانون و انتظامات پوری طرح ٹھپ ہے ۔ایسے قانون بن رہے ہیں کہ اب آپ اپنے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتی پر ایف آئی آر بھی درج نہیں کراسکتے ۔اس کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ ہم بیدار رہیں اور آواز بلند کریں اس کے علی الرغم کے ہمارے ساتھ کون ہے کون نہیں ۔ہمیں اکیلے ہی آواز اٹھانی ہوگی پھر اس کارواں میں اور لوگ بھی شامل ہوں گے ۔لیکن قدم بہر حال ہمیں ہی اٹھانا ہوگا ۔گروہی قتل پر خاموشی خطرناک ہے ۔اگر ہم آج اس کے خلاف نہیں اٹھے تو پھر کل جب ہم اس ظلم کا شکار ہورہے ہوں گے تب کوئی ہماری مدد کو کوئی نہیں آئے گا ۔حقوق انسانی کے پروگرام کا انعقاد ہمیشہ یہ خوف دلاتا ہے کہ پتہ نہیں کوئی آئے گا کہ نہیں ۔ آج اس سیمینار میں کم موجودگی اس کو ثابت کرتا ہے کہ ہمارے یہاں حقوق انسانی پر بیداری بالکل بھی نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رام پنیانی نے کہا کہ مذہب کے نام پر قتل کیا جارہا ہے جبکہ مذہب محبت کا درس دیتا ہے ۔تبدیلی مذہب کے نام پر واویلا مچانے والوں کا اپنا مسئلہ ہے جس سے وہ سب کو ڈراتے ہیں ۔انہوں نے راجستھان میں افروزل کے قاتل شمبھو کی ہندو شدت پسندوں کی جانب پذیرائی پر کہا کہ کیسا سماج بن رہا ہے جس میں قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔کلبرگی وغیرہ کے قتل کے خلاف احتجاج کے طور پر ادیبوں اور اسکالروں نے اپنے ایوارڈ واپس کیا تھا۔لیکن آج خوف اتنا ہے کہ کوئی آواز نہیں آتی ۔رام پنیانی نے اسلم غاذی کے اس سوال کہ آخر کوئی شخص اتنا درندہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہم جنس کو اس بری طرح قتل کرے کہ انسانیت شرمسار ہوجائے پر کہا کہ آج کسی شخص کو کوئی اس لئے قتل کررہا ہے کہ لوگوں میں دوسرے مذہب کے خلاف نفرت پھیلادی گئی ہے ذہنوں میں زہر بھردیا گیا ہے۔یہ کونسا نظریہ ہے جس میں ذات اور ملک کے لوگ دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے ۔ملک محمد جائسی کے محبت پر مبنی ناول کو فساد کا ذریعہ بنا کر اسے حقیقت بنادیا گیا۔جیمس ڈاٹ نے افسانہ کو تاریخی حقائق بنادیااور اسے ہمارے یہاں کا ایک طبقہ تاریخی سچائی سمجھ کر دوسروں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔انہوں نے اس کا علاج بتاتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے سے فساد کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔اچھے سماج کی پہچان یہ ہے کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کے جذبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔ہندو اور مسلمان راجاؤں کی آپسی لڑائی مذہب کے نام پر نہیں تھی بلکہ یہ محض قوت کے ارتکاز کی لڑائی تھی ۔سماج میں دو طرح کے مدعے ہوتے ہیں ایک جذباتی اور دوسرا ضروریات زندگی سے جڑا ہوتا ہے ۔آج ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جذباتی مدعوں میں الجھایا جارہا ہے۔نفرت اور فساد کی جڑ ناسمجھی اور غلط فہمی ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے ۔مثبت انداز فکر کو سماج میں پروان چڑھانے کیلئے تحریک چھیڑنے کی ضرورت ہے ۔جو لوگ نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں اس کا مقابلہ کئے بغیر ملک میں ترقی ممکن نہیں ۔
مولانا محمدود دریا بادین نے کہا ہجومی قتل پر ہمیں بھی شدت کے ساتھ اقدام کرنا ہوگا ۔ہمیں ہجومی تشدد کے ذمہ داروں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرنا چاہئے۔اس کے بغیر اس کا سد باب نہیں ہو سکتا ۔ہم اے پی سی آر کی اس کوشش کے ساتھ ہیں ۔دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا نند جھانے کہا انسانی حقوق کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔وزیر قانون تین طلاق بل پر کہتے ہیں کہ یہ سیاست کا نہیں حقوق کا ہے ۔ انہوں نے اشاروں میں کہا کہ گجرات اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں موجودہ حکومتوں کے ذمہ داروں نے کیا کیا تھا ۔فساد سے متاثرین کے کیمپوں کے خلاف بولتے ہوئے اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ ان کیمپوں کو توڑ دینا چاہئے کیوں کہ ان کیمپوں میں دہشت گرد پیدا کرنے کی فیکٹری نہیں چلنے دیں گے ۔انسانی لفظ کا استعمال غیر انسانی لہجے میں کیا گیا کس نے کیا اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔انسانی حقوق کا تصور جمہوریت سے جڑا ہوا ہے اور یہ جدید تصور ہے ۔ہمیں آج جمہوریت سب سے اچھا نظام لگتا ہے کیوں کہ اس میں سب یکساں ہیں ۔سب کی اہمیت یکساں ہے۔طلاق بل پاس کرنے والا دن شرمناک ہے ۔کیوں کہ ہم اویسی کے ساتھ نہیں ہو سکتے ہیں لیکن ان کی باتوں پر غور کئے بغیر بل کو پاس کرنا ٹھیک نہیں ہے۔اب ملک میں فرقہ واریت نے اکثریت کی دھونس اور رعب کی سیاست نے لے لی ہے۔