ایک غیر ضروری مکالمہ —سال رخصت ہونے کو ہے ..بس کچھ دن رہ گئے ہیں

سال رخصت ہونے کو ہے ..بس کچھ دن رہ گئے ہیں .کچھ دنوں بعد نیا سال اپنی وحشت اور دہشت کو لے کر ہمارے سامنے ہوگا .ایک ایسی دہشت جسکے شکار ہم ہندوستانی پچھلے چار برسوں سے ہیں .کیی ایسے زخم ہیں جو ابھی بھیتازہ ہیں .یہ زخم کبھی نہیں بھرینگے .تاریخ نے ان زخمو ں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ہے .یہ زخم ایک تانا شاہ کی نفرت کا نتیجہ ہیں .اس تاریخ سے گزرتے ہوئے ہم نے یہ بھی سیکھا کہ جیسے انسانیت نہیں مرتی ، ٹھیک ویسے ہیفسطائیت بھی کچھ دلوں کا ابال بن جاتی ہے اور زندہ رہتی ہے ..یہ خوفناک تجربے ہیں ،جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ آگے بھی سیکھیںگے .ہم نے سیکھا کہ درندوں سے انسانیت کی امید نہیں کی جا سکتی .کچھ باتیںہم نے تقسیم کے وقت سیکھی تھیں .کچھ انیس سو چوراسی کے دنگوں میں .کچھ سبق بابری مسجد شہادت سے لیا .کچھ زخم گجرات کے فسادات نے دیے .چار برسوں میں ہر دن ہمارے زخم آلودہ جسم کو بھی چھلنی چھلنی کیا جاتا رہا .میڈیا اور حکومت نے مسلمانوں کو کھلے عام دہشت گرد ٹھہرانے میں بے شرمی کی ساری حدیں توڑ دیں ..یہ تجربہ بھی ھوا کہ ہمارا کویی نہیں .کانگریس مسلمانوں کا نام لئے جانے سے بھی خوف کھاتیہے .دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی مسلمانوں کی حمایت منظور نہیں .مسلمانوں کا ووٹ سب کو چاہئے لیکن مسلمانوں کا نام لے کر کویی بھی اپنے ووٹ بینک کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاھتا .ہم نے سیکھا کہ ابھی بھی کچھ لوگ ہمارے ہیں .لیکن یہلوگ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ ان بیحد کم لوگوں کی حمایت سے  ہمارا کویی مسلہ  حل  نہیں ہوگا .یہ لوگ بھی ان   طاقتوں سے کہیں نہ کہیں خوفزدہ ہیں .پھر ہمارا کون ہے ؟

یہی سوال اہم ہے .ایک سو تیس کروڑ کی آبادی میں ہمارا کون ہے ؟

تو اس کا جواب یہی ہونا چاہیے کہ ہمارے لئے ہم ہیں .ہمیں متحد ہونا ہوگا .ہمیں کسی سیاسی پارٹی پر انحصار نہیں کرنا ہوگا .ہمیں طاقتور بننا ہوگا .ہمیں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا .ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم کی طرف لوٹنا ہوگا.

ہمارے دوست ہمارے ادیب ابھی بھی ذہنی عیاشی سے باہر نہیں نکلے .مجھے خوف محسوس ہوتا ہے .ایک گھر جل رہا ہے .کھلے عام سڑکوں چوراہوں پر آپکو مارا جا رہا ہے .ہمیں ہلاک کرنے والا شرمندہ نہیں ہے .اسکی حمایت میں میڈیا کھڑا ہے .سوشل ویب سائٹس پر اسکی جوانمردی کے قصیدے پڑھنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں ..ہمارا ادیب ،معاف کیجئے گا ، گلچھڑے اڑا رہا ہے .مجھے ایک بار پھر معاف کیجئے،مجھے راحت اندوری پہلی بار پسند آیا کہ وہ اپنے دل کی بات کہ رہا ہے .ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں — اس کا احتجاج لوگوں تک پہنچ تو رہا ہے .ایسے شاعر جسے ہمارے سنجیدہ قاری اور ادیب کسی شمار میں نہیں لاتے ، لیکنایک بہت بڑی  آبادی تک انکا پیغام جا تو رہا ہے ..ہم کیا کر رہے ہیں ؟ہمیں کیا لکھنا چاہیے ..؟سال کے خاتمے پر یہ سوال خود سے کرتا ہوں کہ لکھنا کیا ہے تو اردو ادیبوں کے ہاتھوں سے بجتی ، کھنکتی ہوئی چوڑیوں کی آواز سنایی دیتی ہے .ایک سناٹا پسرا ہے .ایک نہ ختم ہونے والی بوجھل خاموشی ہے جو شہر خموشاں کا احساس دلاتیہے .سرد لفظوں سےبھی کہیں زیادہ بے حس اور مردہ ہونے کا احساس مجھ سے کہتا ہے کہ بہت ہوا ادب ..اب ادب کی ان وادیوں سے دور چلو .یہاں گھروں میں آگ بھی لگی ہوگی تو تیزی سے پھیلتے ہوئے دھویں کے احساس کے باوجود ہمارا ادیبلفظوں کی عیاش دنیا میں مردہ ہی ملے گا .

ایسا ادب نہیں چاہئے .ایسے ادیب بھی نہیں چاہییں جو اپنے دل کی گھٹن کہنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں .یہ اپنے اندر پھیلی بے حسی سے لڑنے کا وقت ہے .ہم نہیں لڑے تو بہت دیر ہو جائے گی .

ذوقی عالم