شکر ہے کانگریس گجرات الیکشن ہار گئی!شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

 

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
گجر ات اسمبلی نتائج کے بعد دو لطیفے سنے
ایک لطیفہ ان مبصرین یا تجزیہ کا روںکاتھا جو خود کو سیاسی پنڈت اور ملکی سیاست کا ماہر سمجھتے ہیں ، وہ یہ کہ’’مودی کا میجک (جادو) چل گیا‘‘ ! اگر پہلا لطیفہ تجزیہ کا روں کی زبان سے وزیر اعظم مو دی کے جادو کا تھا تو دوسرا لطیفہ خود وزیراعظم کے منھ سے تھا ، وہ یہ کہ’’ گجر ات میں وکاس جیت گیا‘‘!دونوں ہی لطیفے خوب مزہ دے گئے۔ مگرایک المیہ سارے مزے کو کرکرا کر گیا۔مگر المیےکا ذکر کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیںکہ کیا واقعی گجرات میں وزیر اعظم نریندرمو دی کامیجک یابا الفاظ دیگرجادو چلا تھا؟اگر اعد ادوشمار پر نظرڈالی جا ئے تو ’مو دی کی لہر‘ یا ’مو دی کا جادو‘کہیں نظرنہیں آتا۔ گجرات پر مودی کے قبضے کی سب سے بڑی وجہ گجرات ۲۰۰۲کے مسلم کش فسادات تھے۔ یہ ممکن تھا کہ اگر فسادات نہ ہوئے ہوتے تو گجرات بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جاتا ۔ لیکن اگر اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو ایک انتہائی دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے ۔ ۲۰۰۲ میں بھگوا پارٹی نے گجر ات اسمبلی میں ۱۲۷ سیٹو ں پر کا میابی حاصل کی تھی لیکن ۲۰۰۷ میں اس کے سیٹو ں کی تعداد گھٹ کر ۱۱۷ پر جاپہنچی تھی اور ۲۰۱۲ میں اس تعداد میں مزید دو سیٹوں کا نقصان ہو اتھا، یعنی تعداد ۱۱۵ پر آگئی تھی۔ اور اب ۲۰۱۷ میں یہ تعداد مزید گھٹی ہے ، بی جے پی اس بار سیٹوں کی تعداد ۱۰۰ تک بھی نہیں پہنچاسکی ، اسے ۹۹ سیٹو ں پر قناعت کرنا پڑی ہے ۔ بات صرف سیٹوں کی تعداد میں تخفیف کی ہی نہیں ہے ، اسے ملنے والے ووٹوں کے فیصد میں بھی کمی آئی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کو 49.1فیصد ووٹ ملے لیكن اگر ۲۰۰۲ كے ووٹ شیر 49.9فیصد كو مد نظر ركھا جائے تو ، جس طرح گزشتہ ایک دہائی میں بی جے پی کی سیٹیں گھٹتی چلی آرہی ہیں اسی طرح ا س کا ووٹ شیئر فیصد بھی گھٹتا چلا آیا ہے۔ ۲۰۰۷ میںیہ 38.1فیصد رها ، ۲۰۱۲ میں یه 38.9 فیصد رها ، اور اب یه 49.1فیصد هے ،مگر ۲۰۰۲ میں اس نے جو ووٹ حاصل كئے تھے ان کے مقابلےووٹ شیئر فیصد گھٹا ہے۔ لہذا مبصرین اور تجزیہ کا روں کا ، جن میں اکثریت ٹی وی اینکر وں اور مبصروں کی ہے، یہ نتیجہ اخذ کر نا کہ، مودی میجک؍ جادو، چل گیا ایک طرح کا لطیفہ ہی ہے۔اگر ۲۰۱۴ کے لوک سبھا الیکشن اور ۲۰۱۷ کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ووٹ شیئر فیصد کا جائزہ لیا جائے، جیسا کہ لیاجاناچاہئے، تو بی جے پی مزید پستیوں میں گرتی نظر آتی ہے۔ ۲۰۱۴ میں ’مودی لہر‘ تھی۔ اسے ’مودی میجک؍جادو‘ بھی کہاجاسکتا ہے۔ اور بی جے پی کا ووٹ شیئر فیصد ۶۰ سے زائد تھا ۔۔۔اور اب 49.1فیصد ہے یعنی مجموعی طور پر ۱۱ فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ گجرات کے سات اضلاع تو ایسےہیں جہاں بی جے پی کو ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی۔ یہ ثبوت ہے کہ نہ ’مودی لہر‘ تھی اور نہ ہی ’مودی میجک؍جادو‘ نے اپنا کام کیا۔
یہ لطیفہ اس لیے بھی ہے کہ مو دی اپنا ہو م ٹائو ن یعنی اپنا مقام پیدائش ’اونجھا ‘ہارگئے ۔ یو ں تو سارا گجرات مودی کےلیے ’کرم بھو می‘ ہے لیکن اونجھا بطور خاص ان کے لیے ’کرم بھو می‘رہاہے۔ یہیں ان کا آبائی مکان ہے اور یہیں سے انہو ں نے سیاست کی الف با کی ابتدا ء کی تھی۔ اور اگر بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے الیکشن نتائج سے قبل کے دعوے پر نظر ڈالی جائے تو ’میجک ‘اور ’جادو‘ کی بات مزید مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ امیت شاہ نے دعوی کیا تھا، گجر ات اب کی بار ۱۵۰ ۔وزیراعظم مودی نے ’۱۵۱‘کی پیشن گو ئی کی تھی۔ اس دعوی سے بالترتیب بی جے پی ۵۱ اور ۵۲ سیٹو ں سے پیچھے ہے۔ یہی نہیں امیت شاہ نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی نے ۱۵۰ سے زائد سیٹیں نہ جیتیں تو بی جے پی کے ورکر اور کارکنا ن جیت کا کوئی جشن نہ منائیں ۔ مگر جشن منایاگیا!
یہ بڑاہی اہم سوال ہے کہ جب امیت شاہ کی پیشن گوئی غلط ثابت ہوئی، یا ان کا دعویٰ کھو ٹا ٹہرا، اور جب ’مو دی لہر‘یا ’میجک ؍جادو‘کا نگریس کے جو اں سال قائد راہل گاندھی کے سامنے تقربباً مانند پڑگیا، تب بھی بی جے پی نے جیت کا جشن کیو ں منایا؟ اس سوال کے جو اب کے لیے بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جیت ،جسے حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کو ایڑی چوٹی کا سارا زور لگا دینا پڑا اس لیے اہم ہے کہ یہاں کی ہار اس کی کمر کچھ اس طرح سے توڑ دیتی کہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن میں راہل گاندھی اور کانگریس کا سامنا کرنے کے لیے ا سکی جھولی میں کوئی کار گر ہتھیار نہیں بچتا۔۔۔سوائے فرقہ پرستی، اشتعال انگیزی اور فسادات کی سیاست کے۔۔۔۔بی جے پی کے کارکنان ، ورکرپژمردہ ہوجاتے، حوصلے پست ہوجاتے اور مودی پر ایک جو اندھا اعتماد اور یقین ہے اس میں دراڑ پڑجاتی۔۔گجرات چونکہ وزیر اعظم ا ور صدر بی جے پی دونوں ہی کی ’کرم بھومی‘ اور ’جنم استھان‘ ہے، اور چونکہ گجرات کو ان دونوں نے ’ہندو توا‘ کی بھگوا سیاست کو پروان دینے کے لیے ایک فیکٹری میں تبدیل کردیا ہے، اس لیے اگر یہاں بی جے پی ہار جاتی تو ان کے سیاسی کیرئیر پر اس کے منفی اثرات بھی پڑتے، ان کے مخالفین۔۔۔بالخصوص اڈوانی اینڈ کمپنی۔۔۔قدر ے نڈر ہوکر سامنے آتے۔۔۔اور ’ہندوتوا‘ کی سیاست کو بھی ایک بڑا جھٹکا لگتا، مگر چونکہ گجرات ہارتے ہارتے بھی بی جے پی جیت گئی ہے اس لیے ’بھاگتے بھوت کی لنگوٹی بھلی‘ کے مصداق اس جیت کو اہم بلکہ اہم ترین جیت بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ بی جے پی اسے ’وکاس‘ کی جیت قرار دے رہی ہے، خود وزیر اعظم مودی نے اسے ’وکاس‘ کی جیت قرار دیا ہے۔
یہ دوسرا لطیفہ ہے۔
’وکاس‘ کا توساری الیکشن مہم میں دور دور تک کسی بھی بھاجپائی لیڈر کی زبان پر تذکرہ تک نہیں تھا! مودی کی زبان سے و’کاس‘ کو چھوڑ کر بہت کچھ نکل رہا تھا۔ الیکشن مہم میں بی جے پی نے ساری طاقت جھونک دی تھی۔ وزیر اعظم راجدھانی چھوڑ کر گجرات ہی میں مقیم تھے، ساری مرکزی کابینہ ان کے ساتھ تھی۔ بی جے پی کے سارے ملک کے ورکر، سوشل سائٹوں پر پروپیگنڈے کرنے والے، ریاست کے سارے بھاجپائی بشمول ریاستی وزراء، وزیر اعلیٰ روپانی اور سارا بھگوا بریگیڈ گجرات میں پڑائو ڈالے ہوئے تھا۔ یوپی او ربہار میں مودی کی مجموعی ریلیوں سے کہیں زیادہ ریلیاں گجرات میں ہوئیں۔ صرف دوسرے مرحلے کے الیکشن کے لیے مودی نے ۳۴ ریلیوں میں حصہ لیا۔ ان ریلیوں میں کیا ہوا؟ ’وکاس‘ کا ذکر نہیں ہوا کیو ںکہ کوئی ایک بھی وعدہ مودی پورا کرنے میں کامیاب نہیں تھے۔ انہوں نے سوا دو کروڑ نوجوانوں کو روزی روٹی سے جوڑنے کا وعدہ کیاتھا، وہ بس وعدہ ہی رہا۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں خوشحالی لانے کا وعدہ کیاتھا، وہ بھی بس وعدہ ہی رہا،انہوں نے کسانوں کی حالت زار پر توجہ دی اور نہ ہی دلتوں، پچھڑی جاتیوں اور غریبوں کی زندگیوں کو خوش حال بنانے پر۔ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی لائی ہوئی مصیبتیں الگ تھیں۔ بڑھتی مہنگائی مسلسل بڑھتی ہی رہی۔ لہذا مودی کے پاس ’وکاس‘ کا گن گانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ’وکاس‘ پاگل ہی رہا۔ ان کے پاس ’گجرات ماڈل ‘کے نام سے بھی گجراتیوں میں ’بیچنے‘ کے لیے کچھ نہیں تھا اس لیے الیکشن مہم میں’گجرات ماڈل‘ کا ذکر بھی نہیں کیاگیا۔ مگر مودی بولے کیو ںکہ انہیں عوام کے سامنے بولنا پسند ہے۔ وہ سچ، جھوٹ ، صحیح اور غلط بلالحاظ بولتے رہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ تمام ہندو، بلا لحاظ ذات وپات، دلت وقبائلی اور اعلیٰ و ادنیٰ ’علاء الدین خلجی‘ کے خلاف متحد ہوجائیں۔ علاء الدین خلجی کہہ کر انہوں نے مسلمانوں کو ’نفرت کی علامت‘ بنادیا۔ انہوں نے اورنگ زیب کا ذکرکیا، پاکستان کی بات کی، منی شنکر ایئر کے ذریعے پاکستان کو قتل کی سپاری دینے کا دعویٰ کیا، بابری مسجد کا شوشہ چھوڑا، انہوں نے کہاکہ اگر کانگریس جیت گئی تو ’میاں احمد پٹیل‘ گجرات کے وزیراعلیٰ بنیں گے۔ بڑے بڑے پوسٹر اس سلسلے میں لگوائے گئے۔ انہوں نے ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے انتقام کی بات کہی۔ مودی نے تعلیمی مسائل پر بات نہیں کی۔ گجرات میں گندی بستیوں کا تذکرہ نہیں کیا، کپاس کے کسانوں کے مسائل کو نہیں چھیڑا، اور نہ ہی میڈیکل کے شعبے میں بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں ، ڈاکٹروں کی طمع اور تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تساہلیوں اور نہ ہی ان کی ٹیوشن کی ہوس کا ذکر کیا۔ چونکہ سارے گجرات میں نہ کوئی ’وکاس‘ تھا اور نہ ہی ’وکاس‘ کی اصطلاح ’گجرات ماڈل‘ کے لیےکبھی استعمال کی گئی اس لیے مودی کی تقریروں میں سب کچھ تو تھا ان دو کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ یہ تو نتائج کے بعد مودی اور بی جے پی کو ’وکاس‘ کی یاد آئی۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی نے اپنی تقریروں میں جو باتیں کہیں، گئو رکشا کی، علاء الدین خلجی کی، پاکستان اور لوجہاد کی، وہی سب ’گجرات ماڈل‘ ہے، اس سے ہٹ کر کوئی ’گجرات ماڈل‘ نہیں ہے۔ اس لیے نتائج آنے کے بعد مودی کا بی جے پی کی فتح کو ’وکاس‘ کی جیت قرار دینا ایک لطیفہ ہی لگا، ایسا لطیفہ جو خوب مزا دے گیا۔
مگر اس لطیفے کے مزے کو ایک المیے نے زائل کردیا۔
المیہ کے ذمے دار کانگریس اور راہل گاندھی ہیں۔ کچھ ذمے دار سیکولر کہلانے والی پارٹیاں بھی ہیں۔ اور کچھ ذمے دار مسلمان بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس نے مودی ، امیت شاہ اوربھگوا بریگیڈ کے گڑھ میں ایسی لڑائی لڑی کہ سب کے دانت کھٹے کردئیے۔ ماضی میں جب بھی راہل مودی کے مقابل آئے ’پپو‘ کہہ کر ان کی تحقیر کی کوشش ہوئی تھی، مگر اس بار ’پپو پاس ہوگیا‘ نہ صرف پاس ہوگیا بلکہ گجرات میں بی جے پی کی ۲۲ سالہ حکومت کو لرزا بھی دیا۔ اگر اعدادوشمار کے آئینے میں کانگریس کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کا گراف اوپر کی سمت بڑھتا نظر آتا ہے۔ 2002کے سال میں اس کا ووٹ شیئر فیصد 39.3تھا 2007میں اس میں کچھ گراوٹ آئی اور یہ 38.1فیصد پر جا پہنچا۔ مگر 2012 میں اس میں پھر تیزی آئی اور یہ 38.9فیصد جاپہنچا اور اس بار یہ 41.4فیصد رہا۔ لہذا یہ تو آنکھیں بند کرکے کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس کا ووٹ شیئر فیصد بڑھا ہے، بی جے پی کی طرح گھٹا نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں اس کی کامیابی مثالی رہی ہے۔ سات اضلاع میں اس نے بی جے پی کو ایک سیٹ بھی جیتنے نہیں دی ہے۔ وہ دلتوں، پچھڑوں، کسانوں اور غریبوں کو ساتھ لے کر چلی ہے۔ شہری علاقوں میں اسے نقصان ہوا ہے۔ اسے احمد آباد میں ۲۰ سے ۱۵ پر ، وڈودرا میں ۱۰ میں سے ۹ اور سورت میں ۱۶ میں سے ۱۵ سیٹوں پر کامیابی ملی ہے؛ یعنی اگر شہری ووٹ اس کے کھاتے میں نہ آتے تو بی جے پی کا منہ مزید کالا ہوجاتا۔۔۔سوال یہ ہے کہ ان شہروں میں بی جے پی کی معاشی پالیسیوں ۔۔۔جی ایس ٹی، نوٹ بندی۔۔۔کے خلاف جو ماحول تھا وہ کانگریس کے لیے ووٹ میں کیوں تبدیل نہیں ہوا۔؟ اس سوال کے جواب تین طریقے سے دئیے جاسکتے ہیں، اول تو یہ کہ شہروں میں رہنے والی پٹیل برادری نے ہاردک پٹیل کی اپیل کو درکنار کرکے ’کسی امید‘ میں بی جے پی کے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دی، دوسری یہ کہ شہری ووٹروں نے کانگریس کو متبادل کے طور پر قبول نہیں کیا، شاید اسے یہ لگا ہو کہ اگر گجرات میں تبدیلی آئی تو مرکزکی مودی سرکار ان پر معاشی گرفت مزید سخت کردے گی اس لیے وہ مودی اور بی جے پی ہی سے چپکے رہے۔ اور تیسری بلکہ سب سے اہم وجہ ای وی ایم۔۔۔پٹیل برادری کے قائد ہاردک پٹیل کا دعویٰ ہے کہ شہروں میں ای وی ایم میں گڑبڑیاں کی گئیں۔۔۔یہ بات ممکن ہے درست ہو اور ممکن ہے درست نہ بھی ہو، مگر یہ کہ ای وی ایم کا استعمال اب قطعی مشکوک ہوچکا ہے۔ وی وی پیٹ ہزاروں کروڑ روپئے سے خریدا گیا مگر اس کا استعمال شفافیت کے لیے کیا ہی نہیں گیا، سوال اُٹھ رہا ہے کہ پھر کیوں وی وی پیٹ پر کثیر رقم صرف کی گئی؟ اس طرح یہ سوال بھی ہے کہ گڑبڑیوں کے تعلق سے جو لوگوں کے بقول ’ثبوت‘ سامنے آرہے ہیں وہ کیوں نظر انداز کیے جارہے ہیں بالخصوص کانگریس اور سیکولر پارٹیوں کی طرف سے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ضروری ہیں ۔ اور اب یہ بھی ضروری ہے کہ ای وی ایم کا معاملہ حتمی طور پر طے کردیاجائے۔
بات کانگریس کی ہورہی تھی؛ اس نے گجرات میں مثبت پیش قدمی کی ہے، راہل مضبوط قائد کے طو رپر ابھرے ہیں،ان کے لیے ۲۰۱۹ میں کھونے سے زیادہ پانے کے امکانات ہیں۔۔۔مگر کانگریس نےگجرات میں جو رویہ اپنایا۔۔۔مسلمانوں کے ساتھ۔۔۔۔وہ تشویش کا باعث ہے۔ راہل گاندھی نے سارے گجرات میںبڑے پیمانے پر الیکشن ریلیوں سے خطاب کیا مگر کہیں بھی ان کی زبان سے ’مسلم‘ یا ’مسلمان‘ کا لفظ نہیںنکلا؛ انہوں نے نہ ہی تو ۲۰۰۲ کے مسلم کش فسادات کا ایک مرتبہ بھی ذکر کیا او رنہ ہی ان مسلم مظلومین ومتاثرین فسادات کی ہمدردی میں ایک بھی بول کہا جنہیں دوسرے درجے سے بھی کمتر شہری بنادیاگیا ہے، جنہیں اب اچھے علاقوں میں رہنے کے لیے مکانات تک کی فراہمی نہیں کی جاتی، جن کی شناخت اب آٹو رکشہ ڈرائیوروں اور خوانچہ فروشوں کے طور پر ہی ہوتی ہے۔۔۔راہل کی ز بان سے کبھی یہ سوال نہیںنکلا کہ بھلا ان مسلمانوں کو جو ۲۰۰۲ میں گھروں سے بھگا دئیے گئے تھے کیوں ان کےگھروں میں واپس لوٹنے نہیں دیاجارہا ہے، کیوں انہیں سرکاری روزگار سے جوڑا نہیں جارہا ہے۔۔۔الیکشن مہم کے دوران راجستھان میں افرازالاسلام نامی مسلمان کو زندہ جلا کر ہلاک کردینے کی خبر پر بھی راہل نے کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے ہادیہ معاملہ میں بھی کچھ نہیں کہا۔۔۔گجرات کی مسلم عبادت گاہوں میں انہوں نے قدم رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر ۲۰ کے قریب مندروں میں ماتھا ٹیکنا ضروری سمجھا۔ ۔۔۔جواز دیاجاتا ہے کہ اگر راہل یہ سب کرتے تو ہندو ووٹ متحد ہوجاتے۔۔۔یعنی راہل کو ہندو ووٹوں کی فکر ہے مگر مسلم ووٹوں کی نہیں! کیا کسی سیکولر سیاسی پارٹی اور اس کے قائد سے ایسے رویے کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ کیا پنڈت نہرو یہ کرتے؟ جواز قابل قبول نہیں ہے۔ اگر یہ جواز قبول کرلیاگیا تو کل کو کانگریس یہ کہہ کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو درست قرار دے سکتی ہے کہ اس سے ہندو ووٹ منتشر نہیں ہوں گے۔ اور ایک جمہوری ملک کےشہریوں کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے۔ شکر ہے کہ کانگریس ہار گئی، اگر نہ ہارتی تو ’سافٹ ہندو توا‘ کےبل پر حاصل کی گئی جیت کو ہر الیکشن میں دہرانے کی کوشش کرتی۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسی کانگریس جو ’سافٹ ہندو توا‘ کو درست سمجھتی ہو ملک کی اقلیتوں کے لیے نقصاندہ ہی ہوگی۔ اب ہار کے بعد یقیناً راہل گاندھی کو احتساب کا موقع ملے گا۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ’سافٹ ہندوتوا‘ سے ’سخت گیر ہندو توا‘ کا مقابلہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کانگریس چاہے تو ’سخت گیر ہندو توا‘ کی پالیسی اپنا سکتی ہے مگر اس کے بعد اسے بی جے پی میں ہی ضم ہونا ہوگا۔ اس کی شناخت ایک سیکولر سیاسی جماعت کی ہے لہذا اسے سیکولر اقدار کو ہی مدنظر رکھنا ہوگا۔ المیہ یہ بھی رہا ہے کہ بی ایس پی اور ایس پی نےبڑی تعداد میں ووٹ تقسیم کردئیے۔ مگر اس کی ذمے دار بھی کانگریس ہی ہے۔ اسے ایک مہا گٹھ جوڑ بنانا ہی چاہیے تھا۔ ۔۔رہا مسلمانوں کا ووٹنگ پیٹرن تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ گجرات اسمبلی کے الیکشن میں ایک ہی حلقے سے کئی کئی مسلم امیدوار میدان میں تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’خریدے‘ ہوئے امیدوار تھے۔ یہ بکنے اور منتشر ہونے کا عمل جب تک برقرار رہے گا مسلمان بےوقعت رہے گا۔