??? اجتماعیت کی پکار: ایکشن_پلان راجستھان میں سنگھی دہشتگرد کی سفاکیت ,قانونی بالادستی پر سوالیہ نشان
سمیع الله خان
آج ابھی ایک ویڈیو ایسی موصول ہوئی کہ جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے
ویڈیو میں ایک جنونی بھیڑیا، ایک مزدور شخص کو انتہائی بربریت کے ساتھ پہلے تو قتل کرتا ہے، پھر اس کے تڑپتے جسم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادیتا ہے، یہ واقعہ راجستھان کے اودے پور سے متصل ایک گاؤں "راجسمند ” کا ہے، اور اس دہشتگرد کا نام ” شنبھو لال تیگر "ہے، اس سفاک سانحے کی سفاکیت اس معنٰی کر دوچند ہیکہ اس شخص نے، اس مزدور کو صرف اسلیے قتل کرڈالا کہ وہ مسلمان ہے، اور مسلمان لو جہاد کے ذریعے ہندو دھرم کو ختم کررہے ہیں، اتنا ہی نہیں اس شخص نے یہ واردات لائیو ٹیلی کاسٹ کی اور خود ہی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی ہے! اور کھلے لفظوں میں قانون و آئین اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غیر مسلم نوجوانوں کو، مسلمانوں کے خلاف اسی طرح اٹھنے پر اُکسایا ہے،
سوال یہ ہیکہ:
آخر اس شخص کو یہ ہمت کیوں ہوئی؟
اس کی ذہنیت ایسی مکروہ ترین کیسے ہوگئی؟
آج سے پہلے بھی اس طرح کی واردات ہوئیں ہیں، لیکن اسقدر سفاک اور بربریت کو شرمندہ کرنے والا سانحہ آج سے پہلے ہندوستان میں نہیں ہوا ہے، یہاں کھل کر اس شخص نے قانونی بالادستی کو ہی روند ڈالا ہے، اس نے اتنی ہمت کیسے جٹالی؟ صرف اسلئے کہ اس طرح سنگھی جنونیت کے دہشتگردوں کو اس نے اسی معاشرے میں آزاد اور ترقی پذیر پایا ہے، میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ ان واقعات کے پھلنے پھولنے میں ہماری سرکاروں کا ہاتھ ہے، آر ایس ایس کی ذہنیت پوری طرح سے ان منصوبوں کو پایۂ تکمیل کو پہنچا رہی ہے، ہماری حکومت اگر اس جنون پر ابتداءً ہی سخت ایکشن لیتی تو آج صورتحال ایسی نہیں ہوتی، اسلیے حکومت اس کی ذمہ دار تو ہے ہی ساتھ میں شریک جرم بھی ہے!
دوسری سب سے بڑی غلطی اس شخص کی ہے جو قتل کیا جاتا ہے، اس کی اور اس کے سماج کی غلطی ہوتی ہے!
اس سماج کے لوگ ایسی کھلی دہشت گردیوں پر ایکشن پلان کیوں نہیں بناتے؟ کیوں یہ لوگ مسلسل ان واردات پر چپی دھارے ہوئے ہیں؟ کب تک قانونی داؤ پیچ میں الجھتے رہیں گے؟ اور متاثرین کی نسلیں انصاف کی آس میں سسکتی رہیں گی؟ جمہوری طریقہ استعمال کیجیے، آئین میں Self Defense کے اختیارات موجود ہیں، اس کے تحت ورکشاپ اور تربیتی مراکز شروع کیے جائیں، اس کے علاوہ چارہ کار نہیں، ملک کی پولیس اور ملک کا قانون جب تک انصاف دے گا، تب تک اور ہزاروں آشیانے اجڑ چکے ہوں گے، ہم بھی جانتے ہیں کہ کہيں نا کہیں ایشوز کو دبانے کے لیے اور نان ایشوز میں الجھانے کے لیے ایسی سازشیں کی جاتی ہیں، اور کہیں نا کہیں ایک مخصوص طبقے کو بھڑکانا اور اس کی قوت برداشت کو آزمانا اس کے پس پردہ محرکات میں شامل ہوتاہے، لیکن اس طرح، کھلے عام قتل و غارت اور آتش زنی کر کے للکارنا ان تمام خدشات اور امکانات کو از خود ختم کررہاہے، اور ہماری اجتماعیت پر سوالیہ نشان ہے ۔
اب بغیر کسی منافقت اور مداہنت کے اسی کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب مسلم سماج، جرائم پیشہ اور رفتہ رفتہ تشدد پسند بن جائے گا، آپ یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ اس طرح کے کھلے چیلنجز اور کھلے حملے برداشت کیے جائیں گے؟ ان پر کمیونٹی کے نوجوان خاموش رہیں گے؟ بزدلی کی لوریاں سنا سنا کر آپ کا بھلے ہی کچھ بھی مقصد ہو، لیکن نتائج دو ہی صورتوں میں حاصل ہوں گے، یا تو پوری قوم "وہن ” کی شکار ہوجائے گی، یعنی بزدلی اور ہمیشہ موت کا خوف، زندگی بچانے کی آرزو میں جبر مسلسل پر رضامندی، اور یہ بعینہ برما کے جیسی صورتحال ہوگی،! اور پھر بھیانک تصویر یہ بنے گی کہ مظالم سہنے کی عادت ہوجائے گی اور مظلومیت اور اجتماعی حمیت کا احساس تک مردہ ہوجائے گا ۔
دوسری، صورت یہ ہوگی کہ، ارتداد بڑی تیزی سے پھیلے گا، اور یہ ارتداد متنفرانہ ہوگا جس میں صرف مرتد ہی نہیں بلکہ اس کو ارتداد کی طرف ڈھکیلنے والے بزدل اور بے غیرت، جو اپنے آشیانوں میں بیٹھ کر اور مسلم ووٹوں سے سیٹیں جیت کر دلالی کرتے پھرتے ہیں وہ سب ماخوذ ہوں گے ۔
ہم کھلے لفظوں میں اعلان کرتےہیں کہ، اس طرح کی کھلی دہشتگردی کسی طور قابل قبول نہیں، اس کی واحد سزا بیچ چوراہے پر پھانسی ہے، البتہ یہ کام آئینی و دستوری روشنی میں ملکی عدلیہ کے تحت ہماری قیادتوں کو کروانا چاہیے، اس کے لیے خواہ کیسے ہی صبرآزما مراحل طے کرنے پڑیں، جیل بھرنا پڑے، سول نافرمانی چلانا پڑے، آئین ہند کے تحت سب چلائی جائیں، لیکن تب تک میدان سے نا ہٹیں جب تک کہ ایسے اجتماعیت کو للکارنے والوں کو ان کے آقاؤں سمیت کیفرکردار تک پہنچا نا دیا جائے، اسے ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ تو مہرے ہوتے ہیں جو سامنے آتے ہیں، اصل ہمیں اس جڑ کو اکھاڑنے پر توجہ دینی ہوگی، جن کے نظریات و رجحانات اس طرح کے متشدد اور امن دشمن عناصر کو جنم دے رہے ہیں، ملکی سالمیت کو داؤ پر لگارہے ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں؟ ان کا شجرۂ نسب موہن داس کرم چند گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے تربیت کاروں سے جڑا ہوا ہے، اب ان سے ملک کو خلاصی دلانے کی اشد ضرورت ہے،
کاش، کہ وقت رہتے ہمارے لوگ اس پر اس حکمت کو اپنائیں جس سے کہ، مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں کے جذبات کا بھی پاس رہے اور اجتماعی غیرت بھی بحال ہو۔
اسوقت اولاً تو، ہم اپنی قیادتوں کی طرف سے منتظر ہیں کہ وہی آگے بڑھ کر اب ملکی سلامتی کے خاطر ان سنگھی دہشتگردوں کو لگام کسنے والے اقدامات کریں، قوم ٹکٹکی باندھے بے تاب ہے ۔