نیوز چینل کے مباحثوں میں دکھائی دینے والے مولانا حضرات ۔ جائزہ اور سجھاؤ
عبید باحسین ، ناندیڑ،مہاراشٹر (9420014590)
مولانا اسعد خان فلاحی ، ٹی وی چینل مباحثہ میں ایک نئے چہرے کے طور پر نطر آئے ۔ اس نئے چہرے کو دیکھ کر سونچا کے اب اس معاملے کے کچھ پہلوؤں پر لکھا جائے ۔ تو دو سوال فوری زہن میں آئے ۔ ۱۔ یہ مولانا حضرات نیوز چینل مباحثوں میں کیوں آتے ہیں؟ ۲۔ یہ ٹی وی چینل پر کیوں اتنا برا مظاہرہ( پرفارم) کرتے ہیں ؟ تو سب سے پہلے دوسرے سوال کے جواب سے شروع کرتے ہیں ۔ ٹی وی چینل پر مباحثے کو جان بوجھکر مولانا مخالف سنگھ وچارک کر دی جاتی ہے ۔ تب پانچ وقت کی نماز پڑھنے والے ہمارے معصوم امام جن کے جمعہ خطبات کے قبل مسجد کمیٹی کے زریعہ یہ ان کو حکم ملتا ہے کے کوئی سیاسی بات کا زکر اپنے بیان میں نہ کریں ۔ ٓآج ایسے کچھ مولاناحضرات ٹی وی اسٹوڈیو میں سنگھ کے خلاف لڑنے چلے آتے ہیں ۔ وجہہ چاہے جو بھی ہو لیکن ہمارے مولانا لوگوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھاکر سنگھ کے پرچارک اور خود ٹی وی اینکر ان کے مزے لینے لگتے ہیں ۔ سنگھ کے جو پرچارک ہوتے ہیں انھین مذہبی تعلیم کا اتنا مطالعہ نہیں ہوتا نہ ہی یہ لوگ کوئی مندر میں پوجا پاٹھ کو جاتے ہیں ۔ وہ ہندو مسلم معاملوں کی دلیلوں میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنا ایجنڈہ رکھنا جانتے ہیں ۔ وہ سوال پر سوال داغتے رہتے ہیں اور ہمارے مولانا حضرات مشکوک ملزموں کی طرح دفاعی موڈ میں ان سوالوں پر صفائی دیتے دیتے تھک جاتے ہیں اور پروگرام کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔ ہر شام پانچ بجے سے جیسے جیسے آپ نیوز چینل بدلتے جاؤگے آپ کو ہر چینل پر کالی سفید ٹوپی پہنے مولانا حضرات سماج کے مسائل پر کیمرہ ، اسٹوڈیو اور بغل گیر گلیمرس اینکر کے ساتھ اسٹوڈیو میں نظر آجائنگیں ۔ میں نے اس معاملے میں نیوز چینل کے پرانے ویڈیو دیکھے تو مجھے پتہ چلا کے کچھ مولانا حضرات نیوز چینل مباحثوں میں کسی نہ کسی مسلم تنظیم کے ترجمان کی حیثیت سے بلوائے جاتے ہیں ۔ جیسے کے ۱۔ مولانا رحمان برکاتی : کولکتہ کی شہید ٹیپو سلطان مسجد کے شاہی امام ہے۔ انھوں نے ایک براہ راست مباحثہ میں جس کے اینکر دیپک چورسیہ تھے ۔ اس میں یہ کہہ دیا کے یہ چینل’کتے‘ کا ہے ،تو اس پر مولانا انصار رضا نے وہی براہ راست مباحثہ میں مولانا برکاتی کو کہہ دیا کے ’سالے ‘تو مسلمانوں کے نام پر کلنک ہے ۔۔۔یہ ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں کا ایک منظر ہے ۔ ۲۔ مولانا انصار رضا : غریب نواز فاؤنڈیشن کے صدر ہے ۔ یہ غریب نواز فاؤنڈیشن کیا ہے ؟ کسے بھی نہیں پتا ہے ہم نے اس کے دیے ہوئے نمبر پر کال کرنے کی کوشش کی ، ایک نمبر بند آیا اور ایک نمبر پر غلط نمبر کا میسیج ملا۔ مولانا انصار رضا سب سے زیادہ ٹی وی مباحثوں میں نظر آتے ہے ۔ حال ہی میں انھوں نے فاروق عبداللہ پر ممبئی ہائی کورٹ میں کیس کر قومی نیوز چینل کی سرخیوں میں جگہہ بنالی تھی۔ ۳۔ مفتی منظور ضیائی : یہ حضرت حاجی علی ؒ درگاہ ٹرسٹ کے مشیر ہے ۔ بابری مسجد معاملے میں بھی یہ قوم کی نمائندگی کرتے نظر آئیں۔ مولانا ممبئی میں رہتے ہے۔ اس لئے ٹی وی مباحثہ کے لئے باآسانی اسٹوڈیو پہنچ گئے ہونگے ۔ لیکن اب تک ان کا بابری مسجد معاملے میں کو ئی اقدام عام معلومات میں نہیں آیا ہے ۔ ۴۔ مولانا اعجاز احمد قاسمی : یہ کوئی ریاست بہار کے مولانا ہے ۔ بہار کے کسی مسلم وزیر کے حلف لینے کے بعد جئے شری رام کہنے پر دےئے گئے فتویٰ پر بحث میں زی نیوز چینل پر آئے تھے ۔ اس پروگرام کی اینکر روبیکا لیاقت تھی ، پھر دیکھنا کیا تھا اینکر نے مولانا کی کوئی غلطی پکڑ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ ۵۔ مولانا اشرف علی جیلانی : ایک اور مولانا ہے ، جو کے سدرشن جسے فرقہ پرست چینل پر ایک بحث میں آگئے ۔ بحث کا موزوع تھا کے کیا سرکاری زمین پر نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟ بس کیا تھا بحث ایسی ہوئی کے مولانا نیوز اینکر کو سیدھے کہہ دیا کے آپ کو ہم کھلا چیلینج دیتے ہے ہم آپ کے گھر میں گھس کر نماز پڑھ کر دکھائینگے ۔ یہ ایک نیا تماشہ تھا۔ ان سب کے علاوہ بھی بہت سے مولانا حضرات نیوز چینل مباحثوں میں آتے ہیں ۔ شروعات میں جب نیوز چینل پر مباحثے ہوتے تھے۔ تب اس کا ایک معیار ہوا کرتا تھا ۔ آج کل ایسا نہیں ہوتاہے ۔ مباحثوں کو سنسناتی اور متنازعہ خیز بنانے کے لئے مباحثوں میں مولانا حضرات کو اسٹوڈیو سے باہرنکالنے اور ان کو ڈانٹ پھٹکار لگانے جیسی بدترین حرکات کی جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے چینل مشہور ہوتا ہے اور اس کی شہرت پیمائش کی اکائی ٹی آرپی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جب میں نے اس بارے میں ایک مولانا سے دریافت کیا کے آپ لوگ ٹی وی مباحثوں میں اتنا خراب مظاہرہ (پرفارم)کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کے ملک کے بہت سارے مفتی حضرات کچھ ایسے فتوحات دیتے ہیں جن کا فتویٰ دریافت کرنے والے سائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ جیسا کے کوئی کسی گانے گانے والی لڑکی کے متعلق دریافت کر لیتا ہے اور کوئی مفتی اس پر فتویٰ دے دیتے ہے ۔ پھر اس کے متعلق ٹی ۔وی پر بحث کرا دی جاتی ہے ۔ اور پھر ہم لوگوں کے پاس ایسی باتوں کا جواب دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے سپریم کورٹ میں دائر حلف ناموں کا بار بار بدلا گیا۔ اب ان باتوں پر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اس لئے ان حضرات کو جواب دینے میں مشکل ہوتی ہے ۔ اس مسئلے کے پہلے سوال کے جواب کو جاننے کے لئے ہم نے زی نیوز میں کام کر چکے اور اب آزاد صحافت کر رہے محمد انس سے بات کی انھوں نے ہمیں بتایا کے بہت سے مولانا ٹی وی بحث میں صرف پیسوں کے لئے جاتے ہیں ۔ جنھیں ایک بحث کے ۳ سے ۸ ہزار دئیے جاتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس کوئی بھی سند یا ڈگر ی اسلامی تعلیمات کی نہیں ہوتی ۔اس بات پر جب ہم نے ان سے مزید دریافت کیا تو پتہ چلاکے پیسوں سے بھی زیادہ یہاں نیوز چینل بحت میں آنے والے خود ساختہ مولانا شہرت اور اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے آتے ہیں تاکے سیاسی گلیاروں میں ان کی شخصی شناخت ہو سکے ۔ جب اس بارے میں دہلی وقف بورڈ مولانا ساجد راشدی سے بات کرنے کی کوشش کی تو شروعات میں وہ میرے سوال پر بھڑک گئے کے یہ کوئی سوال ہی نہیں کے مولانا حضرات نیوز چینل مباحثوں میں کیوں جاتے ہیں ۔ جب ہم نے اسرار کر ان کو ہمارے اس مضمون لکھنے کے مقصد کے بارے میں بتایا تب وہ ہم سے کہنے لگے کے ٹی وی بحث میں کچھ ایسے لوگوں کو بلوالیا جاتا جو اسلام مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ ان کے سامنے جب اسلام کے خلاف میں بولا جائے ، اسلام کی توہین کی جائے وہ صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور نیچے منڈی ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اس لئے میں ٹی وی بحث میں جاکر میری حیثیت کے حساب سے صحیح اسلام کی تعلیمات اور نظریہ کو رکھنے کی کوشش کرتاہوں ۔