اترپردیش بلدیاتی انتخابات : یوگی پاس یا فیل؟ راحت علی صدیقی قاسمی

اترپردیش بلدیاتی انتخابات کے نتائج منظر عام پر آچکے ہیں، میڈیا بی جے پی کی فتح کے ترانے گنگنا رہا ہے، اینکرس اچھل اچھل کر گلا پھاڑ پھاڑ کر بی جے پی کی شاندار کامیابی، یوگی کی متأثرکن رہنمائی کا اعلان کر رہے ہیں، عوام کے قلوب میں یہ راسخ کررہے ہیں کہ اتر پردیش کی عوام نے بی جے پی کو ہی پسند کیا ہے۔ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے درست ہونے پر مہر لگا دی ہے، یوگی پہلے امتحان میں کامیاب ہوگئے، ان کے چہرے کی کشش سے بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں میدان مار لیا ہے، الیکٹرانک میڈیا نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے، خاص طور پر سماجوادی پارٹی کو نشانہ بنایا ہے، اس کی ناکامی کی وجوہات بیان کی ہیں ، عوام اور سماجوادی کے کمزور ہوتے رشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، اس کے ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا، گذشتہ چند ایام میں جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر نظریں جمائیں رکھی ہوں گی، یقینی طور پر وہ بی جے پی کو کامیاب اور سماجوادی پارٹی کو پوری طرح ناکام سمجھ رہے ہوں گے، انہیں یقین ہو گیا ہوگا اترپردیش میں بی جے پی کا مستقبل تابناک ہے، بنیادی سطح پر انہوں اپنی مضبوطی کے ثبوت پیش کردیئے، وزیر اعلیٰ یوگی بھی میڈیا سے مخاطب ہوئے تو کامیابی و کامرانی کا ترانے گنگنا رہے تھے، خوشی کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے، جیت پر پھولے نہیں سما رہے تھے، لیکن حقائق کیا ہیں؟ صورت حال کس سمت اشارہ کررہی ہے؟ میڈیا یہ راگ کیوں الاپ رہا ہے؟ ان تمام چیزوں پر اگرٹھہر کر غور و فکر کریں تو حقائق کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں،الگ ہی تصویر ذہن پر ابھرتی ہے، جو ہماری نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے، ذہن کو متحیر کرتی ہے۔ بی جے پی نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کو بے پناہ اہمیت دی، میرے خیال کے مطابق بہت ہی کم ایسے مواقع سیاسی تاریخ میں نظر آئیں گے، جہاں بلدیاتی انتخابات کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہو۔ بی جے پی گھر گھر تک پہنچنا چاہتی تھی، کارکنان کی ایک فوج گاؤں در گاؤں تیار کرنا چاہتی تھی، مستقبل قریب کے ریاستی انتخابات اس کے حوصلے کو مہمیز کر رہے تھے ، اس لئے وہ ریاست میں ہر سطح پر کمل کھلانا چاہتی تھی، وزیر اعلیٰ یوگی نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کمر کسی اور انتخابی دنگل میں کود پڑے، ریلیاں کی عوام کو بی جے پی کے منشاء و مقصد سے آگاہ کرایا، وعدہ اور ارادے ظاہر کئے، چھ مہینے کی کارکردگی پیش کی، اترپردیش کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے سابقہ روش کو برقرار رکھا، انتخاب میں اپنے افراد کھڑے تو کئے، اپنا نشان تو عطا کیا، لیکن سابقہ روایت کی طرح سڑکوں کی زینت نہیں بنے، اسمبلی انتخابات کے طرز پر کوششیں کرتے نظر نہیں آئے، علاقائی لیڈروں کو ان کی لیاقت و قابلیت ثابت کرنے کا کھلا موقع دیا، ان کے طرز و طریقہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، کوئی روڑا نہیں اٹکایا گیا،نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، مئیر کے انتخابیہ راسخ کررہے ہیں کہ اتر پردیش کی عوام نے بی جے پی کو ہی پسند کیا ہے۔ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے درست ہونے پر مہر لگا دی ہے، یوگی پہلے امتحان میں کامیاب ہوگئے، ان کے چہرے کی کشش سے بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں میدان مار لیا ہے، الیکٹرانک میڈیا نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے، خاص طور پر سماجوادی پارٹی کو نشانہ بنایا ہے، اس کی ناکامی کی وجوہات بیان کی ہیں ، عوام اور سماجوادی کے کمزور ہوتے رشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، اس کے ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا، گذشتہ چند ایام میں جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر نظریں جمائیں رکھی ہوں گی، یقینی طور پر وہ بی جے پی کو کامیاب اور سماجوادی پارٹی کو پوری طرح ناکام سمجھ رہے ہوں گے، انہیں یقین ہو گیا ہوگا اترپردیش میں بی جے پی کا مستقبل تابناک ہے، بنیادی سطح پر انہوں اپنی مضبوطی کے ثبوت پیش کردیئے، وزیر اعلیٰ یوگی بھی میڈیا سے مخاطب ہوئے تو کامیابی و کامرانی کا ترانے گنگنا رہے تھے، خوشی کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے، جیت پر پھولے نہیں سما رہے تھے، لیکن حقائق کیا ہیں؟ صورت حال کس سمت اشارہ کررہی ہے؟ میڈیا یہ راگ کیوں الاپ رہا ہے؟ ان تمام چیزوں پر اگرٹھہر کر غور و فکر کریں تو حقائق کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں،الگ ہی تصویر ذہن پر ابھرتی ہے، جو ہماری نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے، ذہن کو متحیر کرتی ہے۔ بی جے پی نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کو بے پناہ اہمیت دی، میرے خیال کے مطابق بہت ہی کم ایسے مواقع سیاسی تاریخ میں نظر آئیں گے، جہاں بلدیاتی انتخابات کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہو۔ بی جے پی گھر گھر تک پہنچنا چاہتی تھی، کارکنان کی ایک فوج گاؤں در گاؤں تیار کرنا چاہتی تھی، مستقبل قریب کے ریاستی انتخابات اس کے حوصلے کو مہمیز کر رہے تھے ، اس لئے وہ ریاست میں ہر سطح پر کمل کھلانا چاہتی تھی، وزیر اعلیٰ یوگی نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کمر کسی اور انتخابی دنگل میں کود پڑے، ریلیاں کی عوام کو بی جے پی کے منشاء و مقصد سے آگاہ کرایا، وعدہ اور ارادے ظاہر کئے، چھ مہینے کی کارکردگی پیش کی، اترپردیش کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے سابقہ روش کو برقرار رکھا، انتخاب میں اپنے افراد کھڑے تو کئے، اپنا نشان تو عطا کیا، لیکن سابقہ روایت کی طرح سڑکوں کی زینت نہیں بنے، اسمبلی انتخابات کے طرز پر کوششیں کرتے نظر نہیں آئے، علاقائی لیڈروں کو ان کی لیاقت و قابلیت ثابت کرنے کا کھلا موقع دیا، ان کے طرز و طریقہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، کوئی روڑا نہیں اٹکایا گیا،نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، مئیر کے انتخابہوتی، چےئرمین کے مکمل انتخاب میں بی جے پی نے 193 سیٹوں میں سے 67 سیٹیں حاصل کیں، پچاس فی صد بھی نتیجہ نہیں ہے، حالانکہ انہیں اترپردیش ریاستی انتخاب میں 75 فی صد کے قریب سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی، اس سے بھی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، بی جے پی نے کتنی ترقی کی ہے، پردھانی کے انتخاب میں 437 میں 100 نشستیں بی جے پی حاصل کرپائی، یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے کیا کھویا کیا پایا، ان حقائق پر میڈیا نے صحیح گفتگو ہی نہیں کی، بدلتے ہوئے منظر نامے سے لوگوں کو رو برو کرانا مناسب نہیں سمجھا، ان کی آنکھوں پر بی جے پی کی کامیابی کے پردے لٹکا دئے، حقائق کو ان سے چھپایا، سماجوادی پارٹی کو اس انتخاب میں کچھ حد تک ابھرنے کا موقع ملا۔ مئیر انتخاب کے علاوہ سماجوادی نے اچھا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ اسے نقصان بھی ہوا، لیکن اس سے بی جے پی کی کیا تعلق؟ بی جے پی نے اس انتخاب میں کیا ترقی کی؟ اس پوری صورت حال کو آپ کے سامنے پیش کردیا گیا آپ سمجھتے ہیں، پھر بی جے پی خوش کیوں ہے؟ فتح کے تازیانے کیوں بجائے جارہے ہیں؟ کیوں بی جے پی کا ہر رہنما خوشی کا ڈھونگ کررہا ہے؟ کیوں میڈیا بی جے پی کی کامیابی کو تھوپ رہا ہے؟ غور کیجئے، گجرات ریاستی انتخاب قریب ہیں، اس لئے بی جے پی لوگوں کے ذہنوں میں یہ تأثر برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ عوام کابھروسہ ابھی بھی ان پر قائم ہے تاکہ گجرات میں ہوا خراب نہ ہو، ریاستی انتخاب میں کامیابی کے لئے ضروری سمجھا گیا، بلدیاتی انتخابات کے نقصان کو نفع بنا کر پیش کیا جائے، ضروری ہے کہ ہر انسان ان نتیجوں پر غور و فکر کریں اور سمجھے بی جے پی کا سورج چمک رہا ہے، یا مائل بہ غروب ہے، یوگی پاس ہوئے یافیل؟ اور بلدیاتی انتخابات کی صحیح تصویر سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ذہنوں سے خوف و ہراس کے بادل چھٹ جائیں ۔