حساس مسجد عسکری تنازعہ پر گروسنگھ سبھا اور مسجد پیروکار سمجھوتہ کیلئے راضی ! قومی اکالی دل کابیان صوبائی سرکار کی سیاسی مفاد پرستی ا ور لاپرواہی مسجد تنازعہ کیلئے ذمہ دار

سہارنپور ( خاص ر پورٹ احمد رضا) کل دیر شام لدھیانہ سے سکھ فرقہ کا ایک مہذب اور قابل احترام وفد مقامی گردوارے میں بابا گرونانک کے یوم ولادت کے ایک مذہبی پروگرام میں شرکت کیلئے پہنچا اس وفد کیرہنمائی اکالی دل کے قومی جنرل سیکریٹری پرفیسرپریم سنگھ چندو ماجرا (ممبر لوک سبھا ) نے کی پروفیسر کے ہمراہ پنجاب کے شاہی امام اور مجلس احرار کے سربراہ مولانا عثمان رحمانی بھی تشریف لائے باباگرو نانک کے روایتی پروگرام میں شرکت کے بعد وفد نے پروفیسر چندو ماجرہ کی قیادت میں ایک پریس کانفرنس کو بھی خطاب کیا اس موقع پر گزشتہ سال ۲۰۱۴ کے سکھ مسلم فساد اور مسجد حسن عسکری پر سکھوں کے قبضہ پر بھی سوال اچھالاگیا تو کانفرنس میں شامل سکھ مذہبی قائدین نے اکالی دل قائد پروفیسر ماجرہ اور پنجاب کے شاہی امام مولانا عثمان رحمانی سے کہاکہ ہم اس تنازعہ کے منصفانہ تصفیہ کے لئے پہلے بھی تیار تھے اور آج بھی تیار ہیں مقامی مسلم قائدیں اور گردوارہ کے جتھہ دار ایک میز پر آکر آپ بزگوں کی ثالثی سے یہ مسئلہ جس قدر جلد ہوسکے نپٹالیں ہم گردوارے کے ذمہ دار اس ازالہ کیلئے ہر وقت ایمانداری کیساتھ تیار ہیں؟ مقامی سکھ اور مسلم دانشمند طبقہ کے افراد کا صاف کہناہے کہ یہ مسئلہ اور فساد سیاسی رسہ کشی اور مفاد پرستی کی دین ہے یہاں کا سکھ اور مسلمان میل ملاپ کا حامی ہے دونوں فرقوں کے باشعور افراد نے آج بھی اس تنازعہ پر سکھ مسلم فساد کیلئے ریاستی سرکار کی لاپرواہی اور مقامی سیاست دانوں کی مفاد پرستی کو ذمہ دار ٹھرایا اور کہاکہ مٹھی بھر افراد سیاسی دکانداری چمکانے کی غرض سے عسکری مسجد پر آپسی صلح صفائی میں رکاوٹیں پیدا کرتے آرہے ہیں ریاستی سرکار اور مقامی انتظامیہ ان مفاد پرست اور خد پرست سیاست دانوں پر کنٹرول کرنے میں فساد کے تین سال بعد بھی ناکام بنی ہے! سہارنپو ر کی دوسو سال پرانی روایت و تواریخ آج بھی موجود ہے سہارنپور کا ہندو مسلم عوام صدیوں سے اس خطہ میں سکون اور آپسی میل ملاپ سے رہتا آیاہے مگر وقت وقت پر سیاسی مفاد پرستی پھر ۱۹۴۷ کی نفسا نفسی پر مبنی مذہبی نفرت نے آپسی پیار محبت کے ضامن اس اہم ضلع کوبھی شرمسار کرکے رکھ دیا مگر زیادہ دیر تک یہ سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں اور یہاں کے عوام پھر سے مل جل کر رہنے لگے۔ وقت گزرتاگیا مگر سیاسی سازشوں نے عوام کو بار بار بانٹنے کی ناکام کوششیں کی مگر کامیاب نہی ہو پائے آج بھی اس طرح کی بیہودہ حرکتیں جاری ہیں مگر عوام ان سبکے بعد بھی آپس میں ملکر جلکر ہی رہنا پسند کرتاہے جو بہتر ی کی علامت ہے۔ مگر کچھ عرصہ بعدہی خطرناک سیاسی سازش کا شکار ایک معمولی سے تنازعہ کے سبب آج بھی ایک خلش عوام کے درمیان ہے جو ضلع کے امن پسند عوام کو پریشان کرتی آرہی ہے ! مسجد حسن عسکری ۲۶ جولائی ۲۰۱۴ فساد کامعاملہ اس معاملہ کو لیکر لگاتار۲۰ماہ کی لمبی چوڑی بھاگ دوڑ کے بعد بھی مسلمانوں کو مسجد حسن عسکری واقع گردوارہ روڈ ، سہارنپور کے معاملہ میں انصاف کسی بھی صورت نہی مل پایا ہے جو قابل تشویش صورت حال کی نشاندہی کر تا ہے کل تک بر سر اقتدار جماعت کے جو ذمہ دار قائد مسلم ووٹ کے لئے لمبے لمبے بیان جاری کر تے تھے وہ بھی آج حق بات کرنے سے خد کو بچارہے ہیں اتناہی نہی بلکہ مالکانہ حقوق ہونے کے بعد بھی انصاف نہی کیا جارہا ہے !
حسن عسکری تنازعہ کے پیچھے کا سچ بتانے اور اصل ملزمان کو فساد بھڑکانیکی سخت سزا دلانے میں جہاں پچھلی سرکار ناکام رہی آج وہیں موجودہ سرکار بھی صرف مسلم فرقہ کوہی ذمہ دار مان رہی ہے فساد بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرنیوالی پولیس ، فرقہ پرست عناصر اور مشتبہ علاقائی سیاسی کارکن آزاد گھوم رہے ہیں؟ یہاں آج بھی سب سے اہم بات یہ ہیکہ جب فساد سکھ اور مسلم کے درمیان ہو ہے ا تب سکھ فرقہ کے نامزد ملزمان کو گرفتار کیوں نہی کیاگیا تنازعہ مسلم اور سکھوں کا تھا سکھ پیچھے ہوگئے فساد ہندو مسلم کا ہوکر رہگیا اسکا جواب سرکار کے پاس آج بھی نہی ہے! فساد کے بعد مسلم افراد پر سنگین دفعات اور ہندو فرقہ کے افراد پر معمولی دفعات کس بنیاد پر لگائی گئیں اتناہی نہی بلکہ کس ہمدردی ا ور دباؤ کے چلتے سکھ ملزمان گرفتار نہی کئے گئے اور کس کی شہ پر اور کس پری پلان کے تحت مسلمانوں سے حسد کرنے والے پولیس افسران کو شہری علاقوں میں فساد کے دوران تعیناتی دیگئی اور کس کی شہ پر ان پولیس ملازمینکو صرف مسلم علاقوں، مسلم دکانوں اور مسلم افراد کو فسادکے جبر اور فوجداری مقدمات کا نشانہ بنائے جانے کا ذمہ دیاگیا اور ان تمام کے بعد جب بھاجپاکے ایم پی راگھو لکھن پال کو فساد کے مسلم متاثرین نے نامزد ملزم بنایا تب کاروائی کیوں نہی کی گئی ؟ قابل ذکر ہے کہ چالیس سال کی مدت سے بھی قبل سے گردوارہ روڑ واقع حسن عسکری مسجد والی جائیداد جو گردوارہ روڑ پرہی واقع ہے یہ ایک مسلم گھرانہ کے سرپرست شخص جناب حسن عسکر کی جائیداد کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے اسی خاندان کے وارثان سے ایک دیگرخاندان نے یہ حسن عسکری مسجد والی جائیداد خریدی تھی چند سال قبل ان لوگوں نے مسجد حسن عسکری کے ارد گرد واقع جگہ (مسجد صحن وحجرہ چھوڑکر) یہ جگہ سکھوں کو فروخت کر دی گئی اور سکھوں نے نئی تعمیر کی غرض سے اس جگہ کو جسمیں صحن ومسجدحجرہ کوچھوڑکر قبضہ میں لکھائی گئی تھی اس تحریر کے بعدبھی اس حجرہ کو جانبوجھ کر اور حالات سے باخبر ہوتے ہوئے اس مسجد و حجرہ والی جگہ کو مسمار کردیا اسی وجہ سے گزشتہ ۲۶جولائی ۲۰۱۴ کی صبح پانچ سے سات کے درمیان سہارنپور میں فساد پھوٹ پڑا جسمیں پانچ جانیں سلف ہونے کے علاوہ کم از کم دوعرب کی املاک بھی تباہ ہوئی اور سہارنپور کے عوام نے ایک ماہ تک پولیس زیادتیوں کے ساتھ ساتھ کرفیوکی آفتیں بھی برداشت کیں اس فساد میں سب سے زیادہ خسارہ اقلیتی فرقہ کو فرقہ پرستوں سے نہی بلکہ پری پلان کے تحت پولیس کے فرقہ پرست عناصر سی پہنچاہے جو سیاسی دباؤ کے باعث مسلم فرقہ کوہی برداشت کرنا پڑا سماجوادی سرکار نے محض لیپا پوتی کرتے ہوئے اقلیتی فرقہ کا بیوقوف ہی بنایاہے فساد سکھوں کی غلطی سے بھڑکاتھا مگر سرکارکی جانب سے اور مقامی پولیس انتظامیہ کی جانب سے رپورٹ میں نامزد ہونے کے بعد بھی سکھوں کو ملزم نہی بنایا اور اس تمام دنگہ فساد کا قصور وار ا قلیتی فرقہ کوہی بنادیاگیا تماشہ دیکھئے کہ ہماری مسجد پرہی ناجائز تعمیر اور ہماری پاک جگہ پرہی قبضہ اور اگر ہم نے احتجاج کیاتو ہمیں کو ملزم بنادیاگیا آخر یہ کہاں کا انصاف اور کیسا انصاف؟ یہ سارا معا ملہ ذمہ دار مسلمانوں کی نظر میں سہارنپور کے ۱۹۶۷ کے فساد کے بعد سے لگاتار تازہ رہا ہے جائیداد بک جانے کابھی ذمہ داران کو علم تھا سہارنپور کا پہلا فساد بھی اسی بابا قطب شیر روڑ پر گوالہ برادری کے ذریعہ بابا قطب شیر صاحبؒ کی وقف زمین پر ناجائز قبضہ کئے جانے کو لیکر ہواتھا جسمیں مسلمانوں کا ہی زبردست جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اور جس وقف جگہ کے لئے یہ فساد ہواتھا وہ جگہ آج بھی ہندو گوالوں کے پاس ہی ہے اور وقف بورڈ مالک ہونے کے بعد بھی آج تک اس جگہ کو حاصل کر نے میں ناکام ہے؟ وجہ یہ کہ وقف بورڈ از خد وقف جائیدادوں کی مالائی چاٹنے کا عادی ہوچکاہے اسے قوم کی وراثت سے کوئی سروکارہی نہی ؟ ٹھیک اسی طرح گردوارہ روڑ واقع حسن عسکری مسجد والی جائیداد کا تنازعہ بھی تمام ہندو مسلم قائدین اور مذہبی رہنماؤں کی جانکاری تھا اور سبھی لوگ اس خرید وفروخت سے واقف رہے ہیں مگر اس وقت اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہی لیاگیا اور اب سیاسی افراد نے اسے اپنے مفاد کی خاطر استعمال کر نا شراع کر دیاہے نتیجہ آپکے سامنے ہے کل ملاکر دس مرتبہ یہاں کے مسلم قائدین کا لمبا چوڑا کارواں بڑی شان کے ساتھ صوبہ کے وزیر اعلٰی اکھلیش یادو سے ملنے لکھنؤ گیادس بار کی ملاقات میں چیف منسٹر سے ذمہ داران کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ بہلادیا یہ بار بار لکھنؤ گئے اور بار بار ہی یہ سبھی لوگ خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے ؟ جس طرح ۱۹۶۷ کے فساد کے بعد سے لگاتار وقف جائیداد گوالوں کے قبضہ میں ہے اسی طرح یہ جائیداد بھی اب انہی کے قبضہ میں جاچکی ہے جو سرکار ۱۹۶۷ سے انصاف نہی کر سکی وہ اب حسن عسکری مسجد کا تنازعہ کس طرح ایمانداری کے ساتھ حل کرا سکتی ہے جب جب مسلمانوں کے موقع پرست قائدین کو اپنا مفاد سامنے نظر آیا تب تب اور تبھی سے یہ معاملہ روشنی میںآیا جبکہ اس جگہ کے مالکان نے یہ جگہ کافی پہلے ایک ہندو خاندانکوفروخت کر رکھی تھی اس وقت میں مسجد کے اس تنازعہ کو نہیں اٹھایا گیا جب سے یہ جگہ سکھوں نے خریدی ہے تبھی سے یہ معاملہ سرخیوں میں آیا اس جگہ پر گزشتہ دنوں ڈالے گئے لینٹر کو ہٹوا نے کی غرض سے ہزاروں افراد نے گردوارہ کے احاطہ میں اس مسجد کی جگہ پر ناجائز طور سے ڈالے گئے لنٹرکی مخالفت کی اور است ہٹوانیکی اور توڑ نے کی افسران سے مانگ کی مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس بھاری بھیڑ نے یہاں کچھ بھی غلط نہی کیااور گردوارہ کو بھی اس بھیڑ نے کسی طرح کا کوئی نقصان نہی پہنچایا ؟ بس ۱۹۶۷ کی طرح امسال بھی بلاوجہ ایک خاص سازش کے تحت ہی مسلمانوں کو بلی پر چھڑھا دیا گیاہے صوبائی سرکار سے لیکر علاقائی ہندو اور سکھوں کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس، پی اے سی، سی آر پیاور ٹی بی فورس بھی غریب مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر ان پر ٹوٹ پڑی آج یہ سارا فساد قائدین کی لفاظی اور جوش کے نتیجہ میں مسلمانوں کے سر تھونپ دیا گیا اور اب کوئی بھی ہمارے ساتھ انصاف کر نے اور کرانے سے کترا رہاہے وجہ صرف اور صرف ووٹ اور فرقہ پرستی ہی ہے؟ ۲۶ جولائی کو بھی اسی تنازعہ کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا سبھی حکام جان بوجھ کرجبکہ تھانہ قطب شیر پولیس اوراسکے ذمہ دار خاص طور سے روپیوں کے لالچ میں چپ رہے جبکہ دوسری جانب گردوارے کے ارد گرد ہزاروں سکھ ہتھیاروں کو لہراتے رہے پولیس اور اعلیٰ افسران صبح پانچ بجے سے سات بجے تک تماشہ دیکھتے رہے اور معاملہ کی نزاکت کو نہی پرکھا بس اسی لاپرواہی، من مانی، لالچ اور مفاد نے اس پر امن شہر کو جلنے پر مجبور کیا دیکھتے ہی دیکھتے بس یہیں سے اچانک فساد کاآغاز ہو ا جو پانچ افراد کی موت اور قریب تیس کروڑ کی املاک کی تباہی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا؟ یہاں جانی اور مالی خسارہ سب سے زیادہ مسلمانوں ہی کو اٹھانا پڑا ہے اکھلیش یادو اور دیگر وزراء کے سیکڑوں وعدوں کے بعد بھی مسلم طبقہ فساد کے دوسال بعد بھی انصاف سے محروم ہے وہیں مسجد کی پاک جگہ ابھی بھی سکھوں ہی کے قبجہ میں چلی اارہی ہے کلکٹر، کمشنر، آئی جی، ڈی جی پی، چیف سیکریٹری، ہوم منسٹری یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ خد بھی تمام سچائی سے خوب واقف ہونیکے بعد بھی مسلم طبقہ کے ساتھ انصا ف نہی کرا پائے حسن عسکری مسجد والی جگہ کے نام پر دوہزار چودہ ماہ جولائی کی چھبیس تاریخ کا فساد ضلع انتظامیہ کی نظروں کے سامنے سب کچھ پل میں برباد کر کے چلا گیا ضلع میں ابھی بھی امن پسند اور منصفانہ ذہنیت کے لوگ اور افسران موجود ہیں مگر سبھی افسران اس وقت کی ریاستی سرکار اور سرکار کے سیاسی کارندوں کی حکمت عملی کے سامنے چپ رہناہی پسند کر تے رہے یہ معاملہ سیاسی لوگوں نے ہی بگاڑاہے عوام، مخلص ذہنیت کے افسران اور قوم کے سہی لوگ آپس میں بیٹھ کر اس تنازعہ کو کافی پہلے ہی سلجھانا چاہتے تھے مگر سیاسی دخل نے معاملہ بگاڑدیاجو منھ کھولے آج بھی جیوں کا تیوں موجود ہے جبکہ دنگا فساد اور مسلمانوں جانی مالی خسارہ کے بعد بھی مسجد کی جگہ پر ابھی بھی سکھ فرقہ کاہی قبضہ برقرارہے آج ضرورت اس فتنہ کو کلی طور پر پر امن طور سے نپٹانے اور تعلق ہموار کرنے کی ہے مستقبل میں یہ چنگاری کہیں سیاسی چناؤ کا شکار نہ ہوجائے اس سے قبل ہی آپسی بھائی چار ہ سے اس معاملہ کو نپٹانا بیحد ضروری ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہیکہ جب فساد سکھ اور مسلم کے درمیان ہو ہے ا تب سکھ فرقہ کے نامزد ملزمان کو گرفتار کیوں نہی کیاگیا مسل افراد پر سنگین دفعات اور ہندو فرقہ کے افراد پر معمولی دفعات کس بنیاد پر لگائی گئیں اتناہی نہی بلکہ کس ہمدردی ا ور دباؤ کے چلتے سکھ ملزمان گرفتار نہی کئے گئے اور کس کی شہ پر اور کس پری پلان کے تحت مسلمانوں سے حسد کرنے والے پولیس افسران کو شہری علاقوں میں فساد کے دوران تعیناتی دیگئی اور کس کی شہ پر ان پولیس ملازمینکو صرف مسلم علاقوں، مسلم دکانوں اور مسلم افراد کو فسادکے جبر اور فوجداری مقدمات کا نشانہ بنائے جانے کا ذمہ دیاگیا اور ان تمام کے بعد جب بھاجپاکے ایم پی راگھو لکھن پال کو فساد کے مسلم متاثرین نے نامزد ملزم بنایا تب کاروائی کیوں نہی کی گئی اس طرح کے بہت سے سوالات ابھی بھی کمشنری کے مہذب علاقوں میں گشت کرتے ہوہیں کہ مظفر نگر فساد کے ایک سال بعد سہارنپور کے فساد کا نتیجہ بھی مظفر نگر فساد جیساہی نکلا ،آخر کسی نے سچ ہی تو کہاکہ کہ لاکھ دعوے سیاسی جماعتیں کریں مگر یہ سچ ہے کہ ملک میں مسلم اقوام کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنانیوالا بے لوث ہمدرد ہے ہی کون؟