وقت نے کبھی کسی پر ستم نہیں ڈھایا اور نہ ہی قدرت کبھی کسی پر قہر ڈھانے کا جرم کرتی ہے اور نہ ہی کبھی کسی کی قسمت بلاوجہ دغا دیتی ہے۔ یہ خود کو دلاسہ دینے والے چند جملے ہیں جس کا استعمال شکستہ اور لاچار انسان اپنی خامیوں کو چھپانے اور عیار انسان استحصال کرنے کے لیے منتخب کئے ہوئے ہے۔ وقت کی اچھائی اور برائی خودانسان کے اپنے عمل پر منحصر ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے قدرت کا قہر ماحولیاتی نظام کے درہم برہم ہو جانے پر منحصر ہے، اور تقدیر کا رونا وہی روتے ہیں جو تدبیر کی صلاحیت اور اس کی طاقت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کچھ ایسے جملے سماج کی ضروریات کے نہ پورے ہونے یا نہ کر پانے کی وجہ سے دنیاوی نظام چلانے والوں نے گڑھ لیے اور لوگوں پر تھوپ دئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مصیبت اور انتہائی پریشانی میں مبتلا شخص اپنے حقوق کا مطالبہ حکمرانوں کی جگہ بھگوانوں سے کرنے لگا۔
استحصالی سوسائٹی کا یہ فارمولہ اتنا کارگر ثابت ہوا کہ استحصال شدہ کمیونٹی جب کبھی جاگی تو اسے آدھار کارڈ کے بغیر ’بھات ‘تک نہیں مل سکا۔ آسمان سے بارش برسنے کی آس لیے کسانوں کی خالی آنکھیں جب یہ سمجھ پائیں کہ دیش اور دنیا کو کھانا کھلانے والوں کا بھی حکومت اور پونجی پتیوں پر حق ہے تب تک دیر ہو چکی تھی ، ان کی بے بسی نے پہلے تو انہیں زہر پلایا ،پھر سرکاری اور پولیسیا گولی ان کا مقدر بن کر رہ گئیں۔ کھیتی اور کسانی سے تنگ آکر جب غریب کسان شہر میں دہاڑی مزدور بنے تب بھی ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکی ، کیونکہ گاؤں میں پٹواری کی لال کتاب اور شہر میں صنعت کاروں کے پیلے رجسٹر میں ان کی حسرتیں ہمیشہ کے لیے دفن کر دی گئیں ہیں۔
خود فیصلہ کریں کہ ان کی یہ مجبوری ان کی قسمت کاپھیر ہے یا حکمراں طبقوں کی ہیرا پھیری ہے۔ ہم عام عوام کی بات بھی کریں تو یہ جگ ظاہر ہے کہ سنسار میں صرف دو ہی طبقے ہیں ، ایک وہ جو استحصال کرتا ہے اور دوسرا وہ جس پر استحصال ہوتا ہے۔ استحصال کرنے والوں کا طبقہ قلیل تعداد میں اس لیے ہے کہ دنیا کی اکثریت آبادی فکری طور پر پستی کی طرف گامزن رہی ہے ، دوسرے لفظوں میں کہیں تو انہیں مذہب ، ذات اور نسل کے چکرویوہ میں پھنسا کر الجھنوں کے ایسے اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا ، جہاں انہیں پانی تو میسر ہے ، مگر روشنی نہیں ہے۔
اسی روشنی کے رک جانے کو وقت کا خراب ہونا کہا گیا، لیکن سچائی تو یہ ہے کہ جو وقت کو سمجھ نہیں پاتے ، انہیں کی زندگی سے اجالا دور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس میں وقت کا کوئی قصور نہیں ، قصور سمجھ کا ہے۔وقت رہتے اگر بات سمجھ لی جائے تو کسی پر نہ قہر برسے اور نہ ہی عذاب نازل ہو۔
اب آج کا دور ہی لے لیجیے۔زمانے کو جس طرف موڑا گیا ہے ،اس کے کسی بھی موڑ پر ہم اور آپ موجود نہیں ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمانہ ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے اور ہم بہت پیچھے ، بہت دور چھوٹ گئے ہیں۔ ہمار یاحتجاج میں اگر کوئی طاقت نہیں ہے تو کم ازکم سسکیاں تودردناک ہونی چاہیے،ہمارے آنسوؤں کو ہی ظلم کے خلاف مشعل بن جانے کا ہنر آنا چاہیے۔ ذہن کا محدود ہو جانا، فکر کی پستی اور ڈھیر ساری الجھنوں میں پھنس کر دنیا کا ایک بڑا طبقہ استحصال زدہ ہو چکا ہے اور اسے اس کنویں سے نکالنے کا دعویٰ کرنے والے بس اتنا کر دیا کرتے ہیں کہ کنویں میں اپنے فنڈ سے ایک بالٹی پانی ڈال دیتے ہیں تاکہ پانی بالکل خشک نہ ہو جائے اور عالمی سیاست کا سب سے بڑا ایشو ختم نہ ہو جائے۔
عیسائیوں نے اپنی چالیں چلیں ، یہودیوں نے اپنی چال کو مزید مہلک بنایا اور مسلمان دوسروں کی چال کو کند کرنے اور دفاع کرنے میں ایسے مشغول رہے کہ وہ اپنی چال بھی بھول گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ ان پر دنیا کی ہر وہ کمیونٹی حملہ آور ہے ، جس نے کبھی مسلمانوں سے زندگی جینے کا سلیقہ سیکھا تھا۔ اقبال کا شاہین صرف اپنی پرواز ہی نہیں کھو بیٹھا بلکہ گمنامی کے آسمان پر بھٹک رہا ہے۔
وقت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے، تاریخ ہی ہمیں عظمت اور شان کی یاد دلاتی ہے۔اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جب بھی دشمن عناصر کسی قوم پر حملہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی تاریخ کو مٹا نا یا بدلنا شروع کر دیتا ہے۔ ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو یہاں حملہ کوئی فوج یا حملہ آور نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ عناصر کر رہے ہیں جنہوں نے ہندوستانیت کو کبھی برداشت نہیں کیا ، جنہوں نے گاندھی کا شانتی پیغام اور نانک و چشتی کے یکجہتی کے سبق کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اب جب وہ لوگ ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہوگئے تو انہوں نے سب سے پہلے تاریخ پر حملہ کیا اور خود کو ایک ایسی تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی جو افسانوی حقیقت کے قریب تر تو ہے ،لیکن حقیقت نہیں ہے۔ اس کے برعکس بابر ،ہمایوں،اکبر اور ٹیپو سلطان جیسی تاریخی سچائیوں کو افسانوی حقیقت کی طرح پیش کرنے لگے اور سبھی شخصیتوں کی شبیہ کو داغدار بنانے میں جارحانہ رول نبھانے لگے۔ بابر ی مسجد ہو ، یا اورنگ زیب روڈ یا تاج محل ہو یا ہمایوں کا مقبرہ یا پھر مغل دور کی دیگر شاہکار عمارتیں ، جن سے ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگتے ہیں صرف متعصب اور نفرت کی سیاست کی بلی چڑھائے جا رہے ہیں۔ مودی حکومت کے تین سال سے زائد ہو جانے کے بعد اگر کوئی مضبوط نتائج سامنے آئے ہیں تو وہ یہی ہے کہ ہندوستان کامعاشرہ دو حصوں میں تیزی سے تقسیم ہو رہا ہے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ایک دوسرے کو دکھ درد دینے لگے ہیں۔ آپسی اعتماد میں اس طرح گراوٹ آئی کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اس گنگا جمنی تہذیب کو کیا ہوگیا جس پر تمام ہندوستانیوں کو فخر تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکثیریت کی بنیاد کیا اتنی کمزور تھی کہ ایک افواہ ، ایک غلط بیان بازی ، مسخ تاریخوں کا حوالہ اسے پل بھر میں گرا سکتا تھا اور اگر ایسا واقعی تھا تو بھی میں کہوں گا کہ ایسے حالات کا ذمہ دار صرف اورصرف مسلمان ہی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں سے دو غلطیاں سرزد ہو ئیں ، جو بادی النظر میں غلطیاں معلوم نہیں ہوتیں۔ ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آزاد ہندوستان کی سیاست سے اس نے خود کو دور کر لیا اور کانگریس کی سیاست پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیا۔ اسے مسلمانوں کی غلطی ماننا شاید درست نہیں ہوگا ، یہ کانگریس پر ان کے اعتقاد اور یقین کا مظہر ہے۔انہیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ کانگریس اسے سماجی اور سیاسی طور پر حاشیہ پر نہیں رکھے گی اور اس کی ترقی اورفلاح کے لیے پابند عہد رہے گی۔ نہرو کے حیات تک تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہا ،لیکن دوسری نسل نے مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔سیاست کا یہ اصول بھی ہے کہ جب تک جس سے کام چلے ،تب تک اس سے بڑا دوست نہیں اور جب کام نکل جائے تو اس سے زیادہ اجنبی کوئی نہیں۔ کانگریس مسلسل اجنبی اور دوست کا یہ کھیل مسلمانوں سے کھیلتی رہی اور وہ بہلتے رہے۔ غور کیجئے تو اس میں کانگریس کا بھی کوئی قصور نہیں تھا ،کیونکہ وہ سیاسی پارٹی ہے۔ قصور مسلمانوں کا ہے کہ انہوں نے دوسرے پر انحصاریت کاملبہ اٹھا کر پھینکنے کی کوشش نہیں۔
وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن بادی النظر میں ایسے حالات کے لیے مسلم ر ہنما اور علما کو ہی قصور وار ٹھہرایا جائے گا، کیونکہ مسلمان کو انہیں دونوں پر یقین تھا کہ وہ ان کی شکستہ کشتی کو ڈوبنے نہیں دیں گے، مگر وہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ ملی قائدین بھی اس بحران کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنی جاگیریں بڑھا سکتے ہیں اور مسند مضبوط کر سکتے ہیں۔ کانگریس نے کئی ملی تنظیموں کو فنڈ دیا اور ووٹ کی سیاست کے نظریہ سے ایک طرح مسلمانوں کے قائدین کو خرید لیا۔ مسلمانوں کو شاید اب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ ان کے ساتھ اپنوں نے دھوکہ کیا ، مگر جب وہ یہ تجزیہ کریں گے کہ آئینی اور قانونی حقوق کی یکسانیت کے باوجود آج مسلمانوں کے ہاتھ خالی کیوں ہیں ، تب انہیں اس بات کا جواب ضرور مل جائے گا، اور جب وہ اس کا تجزیہ کریں گے کہ اجلاس میں بھیڑ اکٹھا کرنے کا فائدہ کس کو ہوتا ہے تب مطلع مزید صاف ہو جائے گا۔
ملی قائدین یا رہنماؤں نے دینی تعلیم کو ہی نجات کا وسیلہ سمجھا، ایک حد تو اسے اس لیے صحیح سمجھا جائے کہ اللہ سے لو لگانا ہی نجات کا ذریعہ ہے ، مگر اللہ نے جودنیاوی ذمہ داریاں سونپی اس کو کس طرح سے پورا کیا جا سکتا تھا جب تک کہ تعلیم کو جدید حالات کے مطابق نہیں ڈھالا جائے۔آج حالات یہ ہیں کہ تعلمی سطح پر مسلمان کسی بھی طرح برادران وطن کے مقابلے میں نہیں ہیں۔ مدارس کی تعداد بڑھتی گئی ، مگر جدید تعلیم سرکار کے بھروسہ ہی چلتی رہی۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنے وسائل کبھی نہیں رہے کہ وہ اپنے دم پر اچھے اسکولوں میں جا سکیں تو اس کی ذمہ داری کس کی تھی کہ مسلمانوں کو اچھے اسکول میں بھیجا جائے۔ کیازکوٰۃ کا پیسہ صرف مدرسوں کے لیے مختص ہونا چاہیے، کیا اس پیسہ کا استعمال اسکول اور کالج بنوانے میں نہیں کیا جا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کوبھی اپنا نہیں سمجھا گیا۔ آج اگر غیر مدارس والے مسلمان سماج کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو انہیں بھی علما سے اجازت اور منظوری درکار ہے ، ورنہ اس کا مشن کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ باتیں ذرا تلخ ہیں ،لیکن احتساب کی ضرورت ہے۔
آج جب مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے ، کیا کوئی پوچھنے کی ہمت کرے گا کہ ملی تنظیموں کی جانب سے کیا لائحہ عمل بنایا گیا۔ کیا کوئی یہ سوال پوچھے گا کہ مسلمانوں کے پاس کوئی میڈیا کیوں نہیں ہے ، کیا کوئی یہ پوچھے گا کہ مسلمانوں کے پاس اچھی یونیورسٹیاں کیوں نہیں ہیں۔ کیا کوئی پوچھے گا کہ مسلم صنعت کاروں کو مسلم گروپ نے آگے کیوں نہیں بڑھایا۔ ایسا صرف اس لیے نہیں کیا گیا کہ اب جو مسلم سماج ہے وہ انفرادیت پر منحصر ہو چکا ہے ، اجتماعیت پر نہیں۔ خدمت خلق اب اس کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اور ایسا صرف اس لیے ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکومت تک جب نظام سلطنت کو دیکھیں گے تو اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان لوگوں نے انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی۔ یہاں تک کہ سرسید کے مشن کو دیکھیں گے تو حیرت ہوگی کہ ایک شخص نے یونیورسٹی قائم کرنے کی کوشش کی اور اپنے لیے کفن کا انتظام نہیں کر سکا۔ قوم کی خدمت کا جذبہ جب ختم ہو جاتا ہے تبھی قسمت ، فطرت اور وقت پر ٹھیکرا پھوڑا جاتا ہے۔آپ وقت کے ساتھ نہیں رہے ہیں ، وقت تو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا ہے۔ وقت کبھی خود سے بدلتا نہیں ہے اور نہ ہی کبھی خراب ہوتا ہے۔آج سے بھی اگر آپ چاہیں تو گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں ، وقت آپ کا ہی ہوگا۔