اقلیتی فرقہ کی بہبودگی اور تعلیمی سدھار سے متعلق سرکاری دعوے محض نمائشی؟ اسکول اور کالجوں کے ہزاروں مستحق طالب علم تعلیمی وظیفہ سے محروم!

سہارنپور ( خاص خبراحمد رضا)ہمارے ڈویزن کے کمشنر دیپک اگروال یا کلکٹر پرمود کمار پانڈے کتنے ہی مخلص اور ایماندار ہونیکاعملی کام انجام دیں مگر ایک یا دو اچھے افسر پورے سسٹم میں سدھار لے آئیں یہ کسی بھی صورت آج کے حالات میں ممکن ہی نہی سرکاری ملازمین ، نچلے اسٹاف اور سیا سی رہبروں کوبھی عوام کیلئے کچھ کھوناہوگا رتبھی غریب ، لاچار اور مستحق افراد سرکاری مراعات کافیض اٹھاسکتے ہیں ضلع کے درجن بھر پرائیویٹ تعلیمی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک بڑے کالجوں میں وہاں کی انتظامیہ نے تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے اسٹاف سے سازباز کرتے ہوئے اپنے کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ کے فرضی نام اور اور بڑھی ہوئی تعداد دکھاکر جہاں پچھلے پانچ سالوں میں ان انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کروڑ وں روپیوں میں اسکالر شپ کی موٹی رقم ہڑپ کرنے میں کامیاب رہی کمشنری میں اس طرح کے درجن سے زائد معاملات گزشتہ چارسالوں سے زیر التواہیں کچھ میں جانچ ہورہی ہے کچھ میں کاروائی بھی ہوچکی ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ رہی کہ ایف آئی آر درج ہونے اور دو افسران کے معطل کئے جانے کے بعد بھی سبھی کچھ کام کاج پہلے کی طرح ہی آن لائن جاری ہیں سیکڑوں اسکول وکالج صرف اسکالر شپ کی رقم پرہی چلائے جارہے ہیں پچھلی سرکار میں بھی ایسے اداروں کو سیاسی پناہ حاصل تھی آج یوگی سرکار میں بھی اعلیٰ سیاست داں ایسے اداروں کو آج بھی حمایت دینے سے پیچھے نہی ہیں اسکے برعکس دوسری جانب درجہ ایک سے لیکر پوسٹ گریجوئیٹ کالاسیز میں زیر تعلیم سیکڑوں اسکول کالجوں کے ہزاروں طالب علم برسوں سے جدوجہد کرتے رہنے کے بعد بھی تعلیم جاری رکھنے کیلئے ملنے والے وظیفہ کی رقم حاصل کرنے میںآج تکقاصرہیں عام چرچہ ہے کہ آج بھی اسکول کالجوں میں وظیفہ لینے کیلئے تیس فیصد پیشگی جمع کئے جانے پر اسکول اور کالجوں کیلئے اقلیتی بہبودگی آفس اور سماج کلیان محکمہ کے آفس میں وظیفہ کی رقومات دستیاب ہیں صرف پیسہ پیشگی دینا ضروری ہے سبھی جان چکے ہیں کہ یہاں سرکار بدلی ہے سسٹم نہی بدلاہے اسی وجہ سے کمزور اور کم آمد والے گھروں کے طالب علم ہی وظیفہ کی رقم حاصل کرنے سے محروم ہیں؟ ہمارے پاس جہاں کثرت کے ساتھ ریاستی سطح پر ہر سال ملنے والے پرائمری ، جونئر ہائی اسکول اور گریجوایشن درجات میں زیر تعلیم بچوں کو سالوں سے وظیفہ نہی دئے جانیکی شکایات ہیں وہیں مرکز ی سرکار کی اقلیتی وزارت سے موصول تعلیمی وظیفہ کی رقم بھی درجہ آٹھ سے سینئر کلاسیزتک زیر تعلیم طلباء کو لمبے عرصہ سے نہی دئے جانیکی بہت سے شکایات اکثر مقامی اخبارات میں آتی رہتی ہیں یعنی کے ریاستی سرکار اور مرکزی سرکار سے طلبہ کیلئے جاری کیجانیوالی وظیفہ کی رقم کہاں جاتی ہے یہ سچ ہمیں آج تک معلوم نہی ہوپایاہے سینئر افسران شکایت ملنے پر جانچ کا حکم دیتے ہیں مگر جانچ سالوں چلتی رہتی ہے!
قابل امر بات یہ ہے کہ ہمارے ضلع میں اقلیتی فرقہ کے ایسے ہزاروں طلباء آج بھی موجودہیں کہ جنہوں نے تعلیمی وظیفہ کے لئے مستحق ہونے کے سبب اپنی تعلیم کو سینئر کلاس تک جاری رکھنے کیلئے وظیفہ حاصل کرنیکی غرض سے درخواستیں پیش کی تھی مگر آج تک تعلیمی وظیفہ ان مستحق طلباء کو نہی مل سکاہے ضلع کے ہزاروں نے طلباء نے ۲۰۰۹ ء میں وظیفہ کے لئے فارم بھرے تھے ایک بار نہی بلکہ ہر سال ایمانداری کے ساتھ وظیفہ حاصل کرنے کی غرض سے فارم تھے اور ہر سال کوشش بھی کرتے رہے آج ان بچوں نے گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن بھی کر لیا ہے مگر گزشتہ آٹھ سالوں سے انہیں ایک روپیہ بھی وظیفہ کے طور پر آج تک بھی حاصل نہیں ہوپایاہے اس لاپرواہی کی شکایات اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپرلکھنؤ ہوتے ہوئے دہلی دربار تک کی گئیں مگر جواب سبھی کا نفی ہی رہا اور وظیفہ کی رقو مات کچھ نیتا، کچھ تعلیمی مافیا ا ور کچھ افسران آپس میں ہضم کرگئے بڑے افسران کوبھی مع ثبوت اس بندر بانٹ کی بابت عرضیاں دی گئی مگر نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنے کچھ ایساہی معاملہ ہمارے ضلع کے ہزاروں غریب اور مستحق طلباء کے ساتھ ایک بار نہی بار بار گزر تا آرہاہے !اگر ضلع میں وظیفہ کے نام پر ہونے والی اس بندر بانٹ کی جانچ ضلع کے کسی ایماندار افسرکے ذریعہ ۲۰۰۹ جنوری سے۲۰۱۷ماہ ستمبر تک تقسیم ہونے والے اقلیتی فرقہ کے وظیفہ کی منصفانہ طور سے کرائی جائے تو سرکار کی آنکھوں پر اور فرقہ پرستوں کی آنکھوں پر پڑا ہوا یہ پردہ بھی صاف ہو جائیگا اور پورا ملک جان پائیگا کہ اقلیتوں کے نام پر ملنے والی مراعات اقلیتی طلباء کو نہ مل کر کس طرح سے ہڑپی جارہی ہے نیز اقلیتی بچوں کو ملنے والی یہ رقم دیگر ترقیاتی کاموں میں خرچ کی جا رہی ہے! سرکار اور سرکاری نمائندوں اور اقلیت دشمنوں کے سامنے حقیقت ظاہر کر نے کی غرض سے ہی اس جانچ کی آج سخت ضرورت ہے یوپی اے سرکار میں اس وقت کے اقلیتی امور کے سابق مرکزی وزیر اور موجودہ این ڈی اے سرکار کی گورنر اورسابق وزیر نجمہ ہیپت اللہ ہمارے موجودہ وزیز اقلیتی امور قابل قدر مختار عباس نقوی بھی دہلی، ممبئی ،کو لکوتہ ، لکھنؤ اور حیدرآباد کے اپنے سر کاری پروگراموں کے دوران ملک کے صحافیوں کے سامنے بار بار یہ کہ چکے ہیں کہ ہم نے اقلیتی طلباء کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مقصد کو پورا کرنے کی غرض سے تمام یاستوں کو اربوں کی رقم بطور امداد اورتعلیمی وظیفہ تقسیم کرا دی ہے اور اقلیتی فرقہ کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کیجارہی ہیں!
مندر جہ بالا ایشوز سے متعلق آج ہم اپنی قابل احترام وزیر اقلیتی امور سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ صرف سہارنپور ضلع کے ہی اقلیتی طلباء کو ملنے والی وظیفہ کی رقم کی تصدیق شدہ لسٹ شہاد توں کے ساتھ تفصیلی طور سے حاصل کرائیں اور پھر اُسے عام کریں تاکہ وظیفہ کی پرت در پرت سچائی ہو بہو عوام کے سامنے آ سکے یہ بات بھی اہم ہے کہ دلتوں، انوسوچت جاتی اور غیر مسلم بیک ورڈکلاس کے طلباء کے وظیفہ کی رقم ہر سال تعلیمی سیشن کے شروع ہوتے ہی دو ماہ کے درمیان انکے بنک کھاتوں میں جمع کرادی جا تی ہے جبکہ ہزاروں مسلم طلباء کو آج تک نشانہ کے مطابق وظیفہ کی رقم ۲۰۰۹ سے ستمبر ۲۰۱۷ تک کسی بھی صورت نہی مل پائی ہے وظیفہ نہی ملنے سے ہزاروں طلباء اور طالبات اپنی پڑھائی بیچ میں چھوڑنے کو مجبو ر رہتے ہیں بنک بھی مسلم طلباء کو تعلیم کے لئے قرض دینے کو کسی بھی صورت راضی نہی اس سچائی سے صاحب اقتدا ر کے ممبران، نمائندے، وزیر اور اپوزیشن کے قائدین بھی ایک لمبے عرصہ سے اور گزشتہ ۸ سالوں کے سہی حالات سے بخوبی واقف ہیں مگر سچ کیوں نہی بولتے یہ دیگر نظریہ ہے مگر دل کو دہلانے والی سچائی یہی ہے کہ ریاست کت زیادہ تر اضلاع میں اقلیتی طلباء کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اپنایا جاتاہے اور ابھی بھی سرکاری دفتر اسی روش پر کامزن ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ پورے ملک میں سرکاری سطح پر یوم اقلیت تو منایا جاتا ہے مگر سرکار نے اقلیتوں کو مراعات کیا دی ہیں ان پر کوئی توجہ ہی نہی دیتاہے اکثر یوم اقلیت پر ایسے لوگوں کوہی مدعو کیا جاتاہے کہ جو اقلیت کا درد بیان نہ کرکے صرف اور صرف سرکار کاہی گن گان کرے اس بار کا یوم اقلیت بھی کچھ ایساہی ڈھنگ سے منایا گیاہے ! درحقیقت سرکاری محکموں کے اندر کے حالات کیسے ہیں اس پر کسی کی نگاہ ہی نہی مرکزی سرکار اور صوبائی سرکار کے نمائندے مراعات کے بابت لمبے چوڑے دعوے اخبارات میں خوب بڑھا چڑھاکر کرتے ہیں بیباک لہجہ میں ہر جگہ اقلیتی فرقہ کے افراد اور طلباء کو دی جانے والی مراعات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ گزشتہ ۸ سال سے اقلیتی فرقہ کے ۲۵فیصد طلباء کو بھی ایمانداری کے ساتھ آج تک کسی بھی محکمہ نے تعلیم کے لئے اور تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے وظیفہ کی رقم تقسیم نہیں کی ہے اگر مرکزی سرکار اور صوبائی سرکار کے لیڈران ایماندار ہیں تو گزشتہ آٹھ سالوں کے وظیفہ کی رقم کی تقسیم کی جانچ کسی ریٹائرڈ جج سے کرانے کے احکامات جاری کریں قابل جج ایمانداری کے ساتھ جانچ کرنے کے بعد سرکار کو جو رپورٹ پیش کریں سرکار اُس رپورٹ کو بغور پڑھنے کے بعد اخبارات میں شائع کرائے تو مرکزی سرکار کے سامنے پوری تصویر خود بہ خود ظاہر ہو جائیگی اور فرقہ پرستوں کو یہ بھی معلوم پڑ جائیگا کہ سرکاریں اقلیتوں کی امداد کا جو ڈھنڈورا پیٹتی ہیں اُس میں اقلیتوں کو فائدہ صرف تیس فیصدہی پہنچتا ہے باقی کی رقم کہاں جاتی ہے یہ سرکار اور اسکے افسران ہی جانیں!