تقسیم ہند کا تجزیہ مولانا آزاد کی نظر سے ,

عارف عزیز،بھوپال

ہندوستانی عوام ساتھ ساتھ غیر ذمہ دار اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ بارہا اپنے قومی ہیرو، مجاہدین آزادی اور دیگر رہنماؤں کی توہین کرتے رہے ہیں جیسا کہ بابائے قوم مہاتماگاندھی کے ساتھ ہوا کہ کبھی ان کی سمادھی کی توہین گئی تو کبھی بال ٹھاکرے اور آر ایس ایس کے رہنماؤں نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو سچا دیش بھگت قرار دے دیا۔ ایسا ہی رویہ قومی اتحاد اور سیکولر اقدار کے علمبردار، جدوجہد آزادی کے عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں بھی اکثر وبیشتر اپنایا جاتا رہا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران جو کچھ ہوا اس کو اگر نظریات کا ٹکراؤ یا شخصیتوں کا تصادم کہہ کر ٹال دیا جائے تو بعد میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے وقت بھی یہ بات دیکھنے میں آئی کہ اس عظیم محب وطن رہنما کے بارے میں جس کے منہ میں جو آیا وہ کہتا رہا، یہ عمل اگر پاکستان میں ہوتا تو صبر کرلیا جاتا کہ اس ملک کا مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ کے برخلاف قیام ہوا مگر وہاں تو مولانا کے بارے میں ایک گہری سمجھ پیدا ہورہی ہے، ان پرمثبت اندازِ فکر کے ساتھ بہت کچھ کام ہوا ہے اور ایک بڑا طبقہ ان کی خدمات کو صحیح پس منظر دیکھنے اور سمجھنے لگا ہے جبکہ ہندوستان میں یہ ہورہا ہے کہ کوئی بھی پراگندہ ذہن مولانا کے تعلق سے کچھ بھی کہہ دیتا ہے جیسا کہ کچھ سال پہلے ڈاکٹر پی این چوپڑا نے کیا۔ یہ وہی مورخ ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مولانا آزادکی زندگی میں ان سے کافی قریب رہے ہیں اور انگریزی میں مولانا پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، اس کتاب میں مولانا آزاد کو ایک گھٹیا انسان ثابت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’’وہ غلط بیانی سے بہت کام لیتے تھے‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ چوپڑا نے جس غلط بیانی کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے پس پشت مولانا کا جذبہ یہ تھا کہ کسی طرح ہندوستان کی وحدت برقرار رہے اس بڑے مقصد کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کا تیار تھے یعنی ان کی دروغ گوئی اپنے نجی مفادات کے لئے نہیں بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے تھی جیسا کہ ’’کیبنٹ مشن‘‘ کے ساتھ مذاکرات کے وقت ہوا کہ مولانا آزاد نے ایک خفیہ خط وائسرائے کو لکھ دیا جس میں متحدہ ہندوستان کی آزادی پر اپنے منصوبہ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا گاندھی جی کو کسی طرح اس خط کی اطلاع ہوگئی، انہوں نے یہ خط منگوا کر مولانا سے وضاحت طلب کی تو وہ صاف انکار کر گئے حالانکہ خط اس وقت بھی کچھ فاصلہ پر گاندھی جی کے سامنے رکھا تھا۔ اس خط کا حوالہ دوسروں نے بھی دیا ہے لیکن سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس خط کو تحریر کرنے سے ان کا جذبہ قطعی نیک تھا ایک دوسرے نام نہاد مورخ بلراج مدھوک اس سے بھی آگے کی کوڑی لائے ان کا دعویٰ ہے کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد ہی پاکستان کے خالق ہیں وہ مسلمانوں کے نام آدھا ہندوستان لکھوانا چاہتے تھے‘‘ حالانکہ اس حقیقت سے بلراج مدھوک کے سوا پوری دنیا واقف ہے کہ محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان بنانے میں مولانا آزاد کا نہیں سردار پٹیل کا مساوی حصہ ہے۔ جنہوں نے سب سے پہلے لارڈماؤنٹ بیٹن کے فارمولے ’’تقسیم کرو اورآزادی لو‘‘ کو قبول کیا، اس کے بعد جواہر لال نہرو اور دوسرے کانگریسیوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے مل کر مہاتماگاندھی کو ہندوستان کی تقسیم کے لئے راضی کیا۔ اس کے برعکس مولانا آزاد کا آخر تک اصرار تھا کہ تقسیم کی شرط پر آزادی قبول کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ انگریز اب زیادہ دن ہندوستان میں رہنے کی سکت نہیں رکھتے جنگ عظیم میں ان کی حالت اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ وہ آج نہیں توکل ہندوستان سے رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لیکن ان حقائق کو ایک خاص طرز فکر کے مورخوں اور متعصب سیاست دانوں نے قطعی فراموش کردیا کیونکہ انہیں تو ہر مسلم رہنماکا قد چھوٹا کرنے کی فکر تھی تاکہ دنیا پر یہ ثابت ہوجائے کہ ہندوستان کی آزادی کیلئے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا سارا معرکہ اکثریت کے لیڈروں نے سرانجام دیا ہے جبکہ حقیقت یہ کہ جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں نے ہر اول دستہ کے طور پر کام کیا اور مولانا آزاد سرگرم سیاست میں اس وقت داخل ہوئے جب مہاتماگاندھی کو ہندوستان میں کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ رہی تقسیم ملک کی بات تو مولانا آزاد کے لئے یہ ایک شدید صدمہ کا درجہ رکھتی تھی حالانکہ ان کے کانگریسی ساتھیوں نے اس کو قبول کرلیا تھا، قریبی رفیق پنڈت جواہر لال نہرو اس کی حمایت پر آمادہ ہوگئے تھے لیکن مولانا آزاد کے لئے یہ ایک سانحہ تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں کیا ہے۔ اس کتاب کے تیس صفحات پر جو مہر بند کرکے محفوظ کردیئے گئے تھے کتاب کی اشاعت کے تیس برس بعد 1988میں جب جاری کئے گئے تو ان میں بھی جس بات کو مزید شدت اور صاف گوئی کے ساتھ بیان کیا گیا وہ تقسیم ہند کا المیہ تھا۔ مولانا آزاد نے خاص طور پر جس پہلو کو اجاگر کیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مادر وطن سے محبت کے دعویداروں نے بھارت ماتا کی ناقابل تقسیم میراث، جغرافیائی اور تہذیبی وحدت کے تمام بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اقتدار کا مزہ ایک بار چکھ لینے کے بعد اسی اقتدار کا سکھ حاصل کرنے کی خاطر ملک کے بٹوارہ کو شیرمادر سمجھ کر حلق سے نیچے اتار لیا حالانکہ یہ دودھ نہیں وہ زہر تھا جس نے لاکھوں انسانوں اور کئی نسلوں کی زندگی میں ایسا زہر بھردیا کہ اس کی کسک بلکہ ہلاکت آج تک محسوس کی جارہی ہے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے تو یہ اتنا سنگین المیہ ہے جس کی کوئی مثال ان کی تاریخ وتہذیب میں نہیں ملتی۔ ایک ایسا شخص جس نے ’’متحدہ قومیت‘‘ کی وکالت کی خاطر اس کے لئے لڑائی میں اپنا سب کچھ نچھاو ر کردیا اس کے لئے تقسیم کا یہ سانحہ فطری طور پر دل ودماغ کو ہلادینے والا ایک ایسا حادثہ تھا جو کانگریس ہائی کمان کے دوسرے ارکان پر نہیں گزرا اس کے بجائے ان لوگوں نے مسلمانوں کی قدیم سیاسی صف آرائی اور مسلم لیگ کی مزاحمت سے نجات پاکر ہندوستان میں بلا شرکت غیر ملکیت پر اطمینان کا ہی اظہار کیا اور 1974 کے بعد تو وہ اپنے خوابوں کے مطابق ہندوستان کی تعمیر میں لگ گئے تاکہ ایک ہزار برس کی تاریخ میں پہلی بار انہیں حکمرانی کاجو موقع ملا ہے اس کو کام میں لاکر ملک کو طاقتور اور قوم کو حوصلہ مند بناسکیں کیونکہ غلامی کے تاریک دور کا تصور ان کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک ہزار برس کی مدت کا تھا۔ کانگریس کی قیادت میں ایک بڑا حلقہ اسی لئے ہندو احیاء پرستی سے بھی ہمدردی محسوس کرتا اور کبھی کبھی ان کی زبان بھی بولنے لگتا تھا، اس کا فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا آزاد کو خود اور عام مسلمانوں کے بارے میں بے یارومددگار ہونے کا احساس ہونے لگا وہ یہ تماشہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ جس ہندوستان میں تحریک خلافت کے دور تک مسلمان سیاست پر حاوی تھے وہ آج بیحقیقت ہوچکے ہیں اتنے بے حقیقت کہ ہندوستان کی قومی زندگی میں ان کی ناگوار موجودگی کا احساس مسلمانوں کے لئے مزید مسائل و دشواریاں پیدا کررہا ہے ہندوستانی مسلمانوں کو حقارت سے نظر انداز کرنے کا یہ رویہ ان کے خلاف نفرت اور تعصب سے زیادہ خطرناک او ر ان تمام سیکولر مسلم رہنماؤں کی توہین تھی جنہوں نے آندھی وطوفان میں بھی اپنے پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دی۔ مولانا آزاد کو تقسیم ہند کے المیہ کے بے لاگ تجزیہ کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ ان کے خیال میں ہندوستانی مسلمان تو اپنے سیاسی ماضی کی قیمت چاروناچار ادا کررہے ہیں لیکن تقسیم کو قبول کرنے کے مساوی ذمہ داروں کو اپنی غلطی ومجرمانہ کوتاہی کا احساس وخیال نہیں، مولانا آزاد کی حق گوئی کا پس منظر یہی ہے جس میں انہوں نے نہایت سرد لہجہ اور استدلال کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی کہ تقسیم کے المیہ کے تنہا مسلمان ہی ذمہ دار نہیں اور اس کے نتیجہ میں جو خون ریزی ، تعصب اور تصادم کا ماحول پیدا ہوا وہ فکر ونظر کی کن خامیوں کا نتیجہ تھا اور کانگریس کے صف اول کی قیادت چاہتی تو اس سے بچ سکتی تھی۔ مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی مناسب نہ ہوگا کہ تقسیم کے المیہ کی ذمہ داری صرف کانگریسی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تقسیم ملک میں مسلم لیگ، کانگریس اور انگریز حکومت نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان کی مشترکہ غلطیوں یا چالبازیوں کی بھاری قیمت برصغیر کے کروڑوں معصوم انسانوں کو بھگتنا پڑی ہے اس کو تاریخ ساز لوگوں کی انسانی غلطی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے غلطی کا سرزد ہونا بشری تقاضا ہے جس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ تاریخ بے رحم ہوتی ہے اور انسانی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی، ہماری جنگِ آزادی کے سورماؤں نے جہاں اپنی زندگیاں داؤ پر لگادیں وہیں ان سے بعض اہم غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں خود پنڈت نہرو نے بعد میں تسلیم کیا کہ برصغیر کے فرقہ وارانہ امن کی خاطر ہم نے تقسیم منظور کی تھی مگر بعد کے واقعات نے اسے غلطی ثابت کردیا۔