مسلمانوں کو مسلمانوں کا سہارا بننا چاہئے تحریر۔۔۔۔ نثار احمد حصیرقاسمی

تحریر۔۔۔۔ نثار احمد حصیرقاسمی

ہمارے دین ومذہب نے ہمیں بتایا اوررسول اللہ کی تعلیمات وسیرت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے، لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرسکے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرسکے اورچند لمحوں کے لئے ہی کیوں نہ ہو انہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے ان کے درد والم اورحزن وملال کو ہلکا کرے، انہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو ان کی مدد کرے اوراگر وہ کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے، اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا ہے کہ ’’بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لئے نافع ومفید ہو، جب انسان کسی انسان کی مدد وحاجت روائی کرتاہے تو فطری طور پر دونوں کے درمیان اخوت وبھائی چارگی کے جذبات پیدا ہوتے اورالفت ومحبت پروان چڑھنے لگتے ہیں، اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا ہے:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ? قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔(بخاری ، ایمان)
اس میں شبہ نہیں کہ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے کے کام آتا، اسے فائدہ پہنچاتا اوراس کی کسی مشکل کو دور کرکے اسے راحت وسکون بہم پہنچاتاہے تو خود اپنے اندر فرحت وانبساط اورمسرت وانشراح محسوس کرتاہے، انسان کی سب سے بڑی سعادت اورسب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں وراحتوں کا سرچشمہ بنے، اگر کسی انسان کو دنیا میں اس کی توفیق ملتی ہے تو یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت اوراللہ کی اس پر خاص عنایت ہے، جس کا اللہ کی جانب سے اسے بے حد وحساب اجر ملے گا، ایک حدیث میں آتاہے کہ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی مومن کے دل میں مسرت وشادمانی ڈالنا (پیدا کرنا) ہے، یا یہ کہ اس کے کسی رنج وغم کو دورکرے، یا اس کے قرض کو ادا کرے، یابھوک کی حالت میں اسے کھانا کھلائے۔حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو کونسا عمل زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے تو انہوں نے فرمایا: ’’مسلمانوں کو خوشی فراہم کرنا، اورمیں نے اپنے ا?پ سے عہد کررکھا ہے کہ مسلمانوں کے مشکلات ومصائب کو دور کرونگا۔‘‘
ایک روایت میں آتاہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مسجد نبوی میں معتکف تھے، تو ایک شخص آیا اوراس نے آپ کے سامنے اپنی حاجت رکھی، ابن عباسؓ نے ان سے کہا کہ اگر اجازت دو تو میں تیری حاجت روائی کے لئے کسی سے کہوں، اس طرح شاید میری کوشش سے تیری ضرورت پوری ہوجائے اورتجھے جتنی مدد کی ضرورت ہے وہ تمہیں مل جائے، پھر ابن عباس اسے ساتھ لیکر مسجد سے نکل گئے، لوگوں نے انہیں یاد دلایا کہ آپ تو معتکف ہیں، آپ کیسے نکل رہے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا کہ اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے نکلنا میرے نزدیک رسول اللہ کی مسجد میں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ بہتر ومحبوب ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ سے سناہے کہ آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی میں نکلنا ایک سال اعتکاف کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ محلے والے اورپاس پڑوس کے کمزوروں وبیواو?ں کی بکریاں دوہ دیاکرتے تھے، جب آپ خلیفہ بنے تو ان میں سے کسی نے کہا کہ اب تو ابوبکر نہیں دوہا کریں گے، جب امیر المومنین نے یہ بات سنی تو فرمایا: ہاں میں دوہتا رہوں گا اورہمیں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ہمیں جو ذمہ داریاں ملی ہیں یہ ہمیں ان کاموں سے نہیں روک سکیں گی جو میں پہلے کیا کرتا تھا، حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ بعض بیواؤں کی دیکھ بھال کیا کرتے اوران کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے، وہ راتوں میں ان کے پانی بھرتے، حضرت طلحہؓ نے انہیں ایک روز رات کی تاریکی میں ایک خاتون کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا، تو حضرت طلحہ صبح ہونے کے بعد دن میں اس خاتون کے پاس گئے، وہ الگ اپاہج نابینا بوڑھی عورت تھی طلحہ نے اس عورت سے پوچھا کہ رات میں جو شخص تیرے پاس آتاہے وہ کس لئے آتاہے؟ اوروہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ میں اسے پہچانتی تو نہیں ہوں مگر وہ ایک طویل عرصہ سے میرے پاس آتا اورمیری دیکھ بھال وخبرگیری کرتاہے وہ مجھے ہروہ چیز لاکر دیتاہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی اورمیرے لئے بہتر ہوتی ہے، وہ میرے گھرسے تکلیف دہ چیز کو دور کردیتا یعنی صاف صفائی کردیتا اورگندگیوں کو صاف کردیتا ہے، طلحہ نے یہ سن کر دل دل میں کہا: طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا عمر کی لغزشوں کو تو تلاش کرتاپھررہاہے؟
جس بندہ مسلم کا دل نور ایمانی سے منور ہوتا، اسوہ رسول اپنائے ہوتا، صحابہ کے طریقہ پر کاربند ہوتا، سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے کا عادی ہوتا اوراپنی زندگی میں رسول اللہ کی سیرت اورصحابہ کرام کے سلوک کو داخل کئے ہوتاہے وہ برملا اظہار کرتاہے کہ وہ جب کسی کی مدد کرتا، کسی کے کام آتا، اورکسی کی چاہت پوری کرتاہے تو اسے بے انتہا خوشی وانشراح صدر محسوس ہوتاہے، اس کا دل مدد کرکے باغ باغ ہوجاتاہے، میرے اس عمل کا احساس اسے ہو یا نہ ہو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اس کا رنج خوشیوں میں تبدیل ہوگیا اوراس کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے، یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان کسی کی مدد کرتاہے تو نہ صرف یہ کہ مدد کرنے والے کو خوشی حاصل ہوتی ہے بلکہ اسے بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے بھی نجات ملتی ہے، سچا ومخلص مومن وہ ہے جو کسی کی مدد کرنے اوراس کے دکھ درد کو دور کرنے کے بعد اس کے شکریے کا متمنی ومنتظر نہ رہے، بلکہ اس کی نگاہ اللہ سے ملنے والے اجر پر ہو، امام المحدثین والمفسرین اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے خاص شاگرد مجاہد فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ تھا، میرا مقصد ان کے ساتھ لگنے کا یہ تھا کہ میں سفر میں ان کی خدمت کرتارہوں گا، مگر ہوا یہ کہ مجھ سے زیادہ وہی میری خدمت کرتے رہے اورمجھے ان کی خدمت کا موقع نہ مل سکا۔
آج ہندوستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں مسلمان بدترین حالات سے دوچار ہیں، ان کے خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں، انہیں ملک بدر کیا جارہا ہے، انہیں زندہ نذر آتش کیا جارہا، ان کی شہریت سلب کی جارہی ہے، انہیں جینے کے حق سے بھی محروم کیا جارہاہے، اورخودمسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، ان کا شیرازہ منتشر ہے، ہر بات میں پھوٹ اوراختلاف ہے، کسی ایک نقطہ پر بھی اتفاق نہیں، ہرگھر میں پھوٹ، ہرخاندان میں نااتفاقی، ہرتنظیم وجماعت میں اختلاف، ہرمسلک میں رساکشی، ہرادارے میں کھینچاتانی، یعنی ہم خود آپس میں دست وگریباں ہیں اوردشمنان اسلام ہماری اینٹ سے اینٹ بجانے پر عمل پیرا ہیں، ہمارا جینا دوبھر ہے، ہماری مذہبی آزادی چھینی جارہی ہے، ہمیں اپنی عبادتوں سے بھی روکا جارہاہے، ہمارے اوپر اہل کفر کے قوانین مسلط کئے جارہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالاجارہا ہے، ہماری عورتوں کی آبروریزی کی جارہی ہے، ہمارے بوڑھے، بچے، عورت، مرد ہر کسی کو بلاامتیاز تہ تیغ کیا جارہاہے، وہ اپنے دین وایمان اورجان ومال کی حفاظت کی بھینک مانگ رہے اوراپنے اوطان کو چھوڑ کر ادھر اْدھر بھاگ رہے ہیں مگر انہیں کوئی پناہ دینے والا نہیں، انہیں راستوں ہی میں ڈبودیا جاتا یاساحل پر اترنے کے بعد موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا یا کھلے ا?سمان کے نیچے اپنی موت مرنے کے لئے چھوڑدیاجاتاہے، آج مسلمان فراموش کر بیٹھا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک چنی ہوئی عمارت کی مانند ہے، کہ اس کی ایک اینٹ دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہے، اوراگر ایک ایک اینٹ نکل کر الگ ہوجائے تو پوری عمارت کمزور ہوجاتی ہے، مسلمان بھول گئے ہیں کہ مسلمانان عالم جسد واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے اگر ایک حصہ کو تکلیف ہوتو اس کی کسک پورا جسم محسوس کرتاہے، آج مسلمان اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے مصائب میں گھرا ہواہے، جس پر ابھی افتاد نہ پڑی ہے وہ سمجھتاہے کہ یہ حالات دوسروں کے ساتھ ہیں، یہ دوسروں کا مسئلہ ہے میرا نہیں، وہ اپنے عیش وعشرت میں اس قدر مست ہے کہ اسے نگاہ اٹھاکر گرد وپیش میں دیکھنے کی توفیق نہیں ہورہی ہے، عقلمند وہ ہے جو دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھ لے اوراسے سمجھ لے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان بھائیوں کے درد والم اوررنج وغم کا احساس کرے، ان کی حاجت روائی میں پیش پیش رہے۔
جب انسان قدم بڑھاتا اوردوسروں کی مدد کے لئے آگے آتاہے، تو اللہ اس کی نصرت کے لئے آگے آتاہے، جب انسان دوسروں کی ضرورت پوری کرتاہے تو اللہ اس کی حاجت پوری کرتاہے، جب انسان دوسروں کے آنسو پوچھتاہے تواللہ اس کے آنسو پوچھتاہے، جب انسان دوسروں کے زخم پر مرحم رکھتاہے تواللہ اس کے زخم کو مندمل کرتاہے، جب انسان دوسروں کا سہارا بنتاہے تو اللہ اس کا معین ومددگار بنتاہے، جب انسان دوسروں کے لئے قربانی دیتاہے تو اللہ اس کا کارساز بن جاتاہے، اللہ کے نبی نے فرمایاہے: اللہ ایسے بندے کی مدد میں ہوتاہے جو بندہ اپنے دوسرے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان اگرآج اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں، مسلکی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے کلمہ واحدہ پر جمع ہوجائیں ان کی زبانوں میں یکسانیت پیدا ہوجائے اورمسلمان ایک دوسرے کی مدد کرنے کو اپنا شعار اسی طرح بنالیں جس طرح اسلاف کے زمانہ میں تھا تو آج بھی ہم دنیا کی طاقتور قوم بن جائیں گے، اے کاش کہ ہمارے معاشرے، ہمارے خاندان اورہمارے گھر میں الفت ومحبت کی فضا بنتی، ہمارے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی، ہمارا معاشرہ باہم مربوط ہوتا، ہمیں یاد رکھناچاہئے کہ جب تک ہمارے درمیان ہم آہنگی پیدا نہ ہوگی، باہمی الفت ومحبت کی فضا قائم نہ ہوگی، کبروغرور اوربغض وحسد کا خاتمہ نہ ہوگا، تعاون ودستگیری کی کیفیت پیدا نہ ہوگی، ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ انگڑائی نہ لے گا اورایک دوسرے کے بہی خواہ وخیرخواہ نہیں بنیں گے ہم اسی طرح پستے اورذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، بلکہ موجودہ کیفیت میں اس سے بہت زیادہ بھیانک دن آئیں گے، عقلمند وہ ہے جو طوفان آنے سے پہلے اپنے گھروں کو درست کرلے اوربارش سے پہلے اپنے چھپروں کی مرمت کرلے۔