ووٹرشناختی کارڈ س میں غلطی کیلئے افسر ہی نہی سیاست داں بھی ذمہ دار

 سہارنپور ( خاص جائزہ احمد رضا) الیکشن کمیشن اور بھارت سرکار کے ہزار جتن کرنے کے بعد بھی سرکاری عملہ ہماری کمشنری کے تینوں اضلاع شاملی، مظفرنگر اور سہارنپور کے بیشتر مسلم اکثریتی علاقوں میں سہی نام ، ولدیت اور پتہ سے ووٹر شناختی کارڈس اور ووٹ بنانے میں ناکام بناہوا ہے لگاتار الیکشن کمیشن کی ہدایت کے بعد بھی تیس فیصد مسلم ووٹرس نام اور ولدیت کو لیکر آج بھی تنگ اور پریشان ہیں ہمارے مسلم علاقوں کے سیکڑوں ووٹر شناختی کارڈ سالوں سے شکایت کرنیکے بعد بھی درست نہی ہو سکے مقامی بی ایل او گھر گھر جاکر نام پتہ سہی لیکر ہر الیکشن سے قبل ووٹران کے فارم تحصیل میں جمع کرا دیتے ہیں مگر تحصیل کا عملہ بھاری بوجھ کے چلتے نام اور پتہ درست کرنے میں اکثر ناکام رہتاہے نتیجہ کے طور پر گزشتہ دس سالوں سے زیادہ تر مسلم علاقوں میں بنے ہوئے ووٹ میں خامیاں آج بھی نام ، پتہ اور ولدیت میں موجود ہیں اب یوپی میں نگر پالیکاؤں کے چناؤں کی آہٹ ہورہی ہے مگر آج بھی یہ خامیاں پہلے جیسی ہی ہیں ؟ سہارنپور ہی کے صرف مہندی سرائے ، سرائے شاہ جی، سرائے حسام الدین ،آلی آہنگران ، کھجور تلہ ، یا حیٰ شاہ ، پکّہ باغ ، صابری کا باغ ، پٹھانپورہ ، حسام الدین ، جوب فروشان، مفتیان،داؤد سرائے، منیہاری باغ، دھوبی والا، حاکم شاہ نخاسہ بازار ، آزاد کالونی اورخان عالم پورہ کے ساتھ ساتھ محلہ شاہ مدار میں آج بھی ہزاروں لوگوں کے ووٹر شناختی کارڈوں میں آئی خامیوں کو درست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے ہمارے چناؤ کمشنر بھارت سرکار پچھلے ہفتہ دہلی میں اسی ضمن میں سرکاری عملہ اور الیکشن عملہ سے طویل بات چیت کرچکے ہیں امید بتائی جارہی ہے اگلے چند روز میں یوپی نگر پالیکا چناؤ کی تیاری کے سلسلہ میں ہمارے چیف الیکشن کمشنرپھر سے ریاست کے دورے پر آنے والے ہیں عام رائے ہے کہ سب سے اہم مدعہ لسٹوں میں ووٹران کے ناموں کی درستگی کا زیر غور آنا چاہئے کیونکہ آج بھی سہارنپور کمشنری میں ۳۰ فیصد مسلم علاقہ کی ووٹر لسٹ اور شناختی کارڈ س میں نام اور پتہ کے علاوہ فوٹو کی بھاری بھرکم خامیوں سے جوجھ رہے ہیں کمشنری میں ۳۰ فیصد مسلم علاقہ کی ووٹر لسٹ اور شناختی کارڈ س میں موجود خامیاں سرکاری مشینری کی لاپرواہی کا ہی نتیجہ نہی بلکہ اس لاپرواہی کیلئے ہمارے سیاسی قائدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں !مرکزی سرکار اور الیکشن کمیشن مارچ ۲۰۰۴ سے ۳۱ ستمبر۲۰۱۷ تک سے تک اس کام میں کئی کروڑکا صرفہ کرچکی ہے تعجب ہے کہ اس لمبے عرصہ میں بھی ووٹرس کی خامیاں آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں اس پورے معاملہ کی منصفانہ جانچ بھی ضروری ہے کروڑوں کی رقم صرف کئے جانیکے بعد بھی ووٹر لسٹ کے ناموں میں خامیاں کیوں باقی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ ووٹر شناخت میں آج بھی فوٹو اور ناموں میں غلطیاں کیسے آرہی ہیں یہ تمام باتیں لاپرواہی کو اجاگر کرنیکے لئے بہت کافی ہیں ! ہماری عقل میں یہ بات نہی آرہی ہے کہ آخر اس کام میں لاپر واہی کا مطلب کیا ہے سرکاری عملہ ووٹ بنانے یا ووٹر شناختی کارڈ کے کام کو صحیح طور پر انجام دینے میں ابھی تک ناکام کیوں اور کس وجہ سے ہیں، سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ ووٹرلسٹ اورووٹرکارڈس کی درستگی کا یہ کام گزشتہ سن ۲۰۰۴سے امسال ماہ ستمبر ۲۰۱۷ تک جاری رہا ہے اور سناہے کہ جلد ہی ماہ اکتوبر ۲۰۱۷ کے آخری ہفتہ میں سبھی نئی ووٹر لسٹیں عوام کیلئے ہر الیکشن آفس میں دستیاب ہوجائیں گی! ہمیں یہ بھی حیرت ہیکہ مارچ ۲۰۰۴ سے ۳۱ مارچ ۲۰۱۶ تک جتنے بھی مسلم علاقوں میں ووٹر شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں انمیں ۳۰فیصدشناختی کار ڈ س قریب قریب غلط بنے ہوئے ہیں کسی کے شناختی کارڈ میں فوٹو دوسرے کا ہے تو کسی شناختی کارڈ میں نام غلط ہے او ر کسی کارڈ میں والد کا نام غلط لکھا ہوا ہے ملک میں ہر الیکشن پر سرکار جنتا کے خون پسینے کی کمائی کے کروڑوں روپیہ شناختی کارڈ پر خرچ کرتی ہے سوال یہ ہے کہ ہر چناؤ میں سرکار اتنا خسارہ اُٹھانے کے بعد ووٹر شناختی کارڈ صحیح طور پر تیار کرانے میں پوری طرح سے ناکام کیوں رہتی ہے سرکار نے ووٹر لسٹ تیار کرنے اور شناختی کارڈ بنانے کا ذمہ جن کمپنیوں کو دے رکھا ہے اُن کمپنیوں کے ملازم اُردو تو بہت دور کی بات ہندی اور انگریزی میں بھی ووٹران کے نام صحیح طور پر لکھنے سے قاصر بنے ہیں جسکا خسارہ عام پبلک اور خا ص طور پر مسلمانوں کو کچھ زیادہ ہی بھکتنا پڑ رہا ہے غلط شناختی کارڈ بنے ہونے کے سبب سرکاری دفتروں، گیس ایجنسیز،اسکول کالجوں اور بینکوں میں ان شناختی کارڈ س کی حیثیت بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے راشن کارڈ کے نام اور پتہ کو دیکھیں تو تلفظ کچھ اور اگر چہ شناختی کارڈ پر لکھا نام پڑھیں تو سب کچھ بے معنی !
قابل ذکرہیکہ چناؤ کمیشن بھارت سرکار اور ریاستی چناؤ کمشنر کے لگاتار دس سالوں سے جاری سخت احکامات کے بعد اور ضلع میں مقامی نیتاؤں کی بھاری بھرکم بھیڑ اور مقامی افسران کی ز بردست سرگرمی کے باوجود آج بھی کمشنری کا۳۰فیصد عوام سہی نام وپتہ کے بنے ہوئے ووٹرشناختی کارڈ س سے محروم ہے ضلع میں جتنے بھی ووٹر شناختی کارڈ ابھی تک بنائے گئے ہیں ان میں خامیاں پائی جارہی ہیں گزشتہ ۱۵سال قبل یعنی۲۰۰۲ سے مقامی سطح پرووٹرشناختی کارڈ سہی نام اور پتہ پر بنوانے کیلئے ضلع کا عوام مستحق ہونے کے با وجود تحصیل صدر، ایس ڈی ایم، نگرنگم اور ضلع کے سبھی سینئر افسران کے آفسوں کے چکر لگا لگا کر اب تنگ آچکا ہے سال ۲۰۱۲ کے اسمبلی چناؤ اور اس کے بعد گزشتہ ۲۰۱۴ سال لوک سبھاچناؤ اسکے بعد ۲۰۱۷کے اسمبلی چناؤ کے دوران الیکشن کمیشن بھارت سرکار کی سخت ہدایت کے بعد مقامی سطح پر بی ایل او اور دیگر سرکاری ملازمین نے شہر اور دیہات میں گھر گھر جاکر ووٹ بنانے کا اہم کام انجا م دیا مگر اس سخت محنت کے بعدبھی مقامی سطح پرووٹرشناختی کارڈ وں میں زبردست خامیا ں دیکھی گئی ہیںآپ یہاں غورکریں کہ شہر میں اگر کسی گھر کے دو دروازے قائم ہے تو گھر میں رہنے والوں کے ڈبل ووٹ بنادئے گئے اور کہنے پر بھی درست نہی کئے گئے، مکان مالک کے مکان نمبر پر محلہ کے دوسرے افراد کے ووٹ بنادئے گئے ہیں اسی طرح ناموں اور پتوں میں بھی خامیاں ہی خامیاں موجود ہیں کتنی ہی مرتبہ درستی کے لئے فارم بھر کر جمع کرائے گئے مگر آج تک وہ بھی ٹھیک نہی ہو پائے کل ملاکر ضلع بھر میں ایک اندازہ کے مطابق عوام کے ۸۰ فیصد کارڈہی اعتماد کے قابل بنے ہیں مگر وہ بھی فوٹو ،نام ،ولدیت ، پتہ اور تاریخ پیدائش کی بھاری بھر کم غلطیوں کے ساتھ؟ ووٹرشناختی کارڈس میں آئی غلطیوں کو درست کراتے کراتے اب عوام تنگ آچکی ہے ہزار کوششوں کے بعد بھی کارڈس کی خامیاں درست نہی ہوپارہی ہے ووٹرشناختی کارڈ جو سرکار کی جانب سے الیکشن کے موقع پر خاص مہم چلا کر بنائے جاتے ہیں وہ بن جانے کے بعد جب ووٹر کے پاس آتے ہیں تو ان ووٹرشناختی کارڈ س میں بہتات کے ساتھ خامیاں پائی جاتی ہیں جب ان کو ٹھیک کرانے کے لئے محکمہ الیکشن اور تحصیل کے ملازمین سے رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ خامیوں کو دور کرنے کے لئے ایک فارم بھرکر دو فوٹوؤں کے ساتھ دفتر میں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہیں پریشان حال ووٹر فارم بھرنے کے بعد مع دو فوٹو آفس میں فارم جمع کرا دیتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے اور کئی سال کا وقت گزر جانے کے بعد بھی ووٹرشناختی کارڈ (پہچان پتر) ٹھیک نہیں ہو پاتے ہیں !