مولانا انظر شاہ کےعدالت سے با عزت بری کیے جانے اور ایک سال قبل گرفتاری کےموقعہ پر ملک کے الیکٹرانک میڈیا اور زرد صحافت کے رویہ پر ایک تحریر پیش خدمت ہے تحریر …… افتخاررحمانی ، نئی دہلی
ممبئی ۲۰ ؍اکتوبر،آمنا سامنا میڈیا
۔ تحریر …… افتخاررحمانی ، نئی دہلی ’’ہم ان تمام افراد کوان (حق )کی مخالفت میں کھڑا کردیں گے جو کسی نہ کسی طرح سے حق (اسلام) سے یک گونہ دشمنی رکھتے ہوں ، ہم تمام طرح سے ان کی مدد کریں گے جوپروپیگنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں ، ہماری یہی کوشش ہوگی کہ کوئی بھی خبر ان کے حق میں نہیں پیش نہ کی جائے ؛ بلکہ جہاں تک ہوسکے ہم اسے منفی طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر بالفرض ان کی حق میں کوئی اطلاع بھی ملتی ہے تو ہم انہیں چھپا ئیں گے ، ہمیں ان ہی کاز پر عمل پیرا ہوناہے جن سے ان (اسلام) کو نقصان پہنچانا آسان ہو ‘‘ اب جو کیفیت بھارت میں بن رہی ہے اس کا گہرائی سے مشاہدہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ کس کے اشارہ پر مولانا انظر شاہ کو خونخواردہشت گرد بنایا تھا ،جب کہ پٹیالہ عدالت نے انہیں تمام الزاموں سے بری کر دیا ، بات صرف ایک انظر شاہ کی نہیں ہے ؛ بلکہ ان لاکھوں انظر شاہ کی ہے جو اپنے جرم بیداد کے عوض زنداں کی شب تاریک میں اقلیت ہونے کا طعنہ برداشت کر رہے ہیں۔ جب میڈیا کی یہ پالیسی ہو تو پھر ایسے وقت میں کس کے لئے رحم کی گنجایش نکالی جا سکتی ہے ۔ایک معروف نجی ٹی وی کے شو پر عمر خالد کی عدم حاضری پر اینکر یہ کہہ کر اپنا بھگوا تان توڑ رہا ہے کہ وہ عدالت میں حاضر ہونے سے ڈرتا ہے ،جب کہ دہلی کورٹ میں عمر خالد ، کنہیا وغیرہ کے خلاف مقدمات چل رہے تھے ۔ گویا اینکر یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ چینل کے شو میں حاضر ہوکر اینکرکے سوالات کا جواب دے یعنی اب عدالت کا کام ٹی وی شو اور جج کا کام ٹی وی اینکر کر تے ہیں، جب کسی ملک میں ٹی وی شو مقدمات او رقضیہ کا تصفیہ کرنے لگ جائے تو پھر ایسے ملک کو عدلیہ اور منصف کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ تمام قضیے ٹی وی اینکر ہی فیصل کرلیا کریں گے۔ مبارک باد کے قابل ہیں وہ نوجوان علماء و فضلا ء جو سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر کے باطل قوتوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں ان میں مفتی یاسر ندیم الواجدی ،علی سہراب اور اس طرح کے نوجوان جو دن بدن بھگوا میڈیا کو ایکسپوز کرتے رہتے ہیں ، مولانا انظر شاہ کی گرفتاری او رعدلیہ کی طرف ڈسچارج کئے جانے پر انہوں نے جس طرح سے ٹوئٹر پر #MediaMadeIt ٹرینڈ چلاکر بھگوا میڈیا کی نیند اڑا دی ۔ مؤدبانہ گذارش ہے ان نوجوان سے جو سوشل م%