آر ایس ایس کی اقلیت مخالف غیر آئینی سوچ کو بڑھاوا دینا جمہوریت کیلئے سنگین خطرہ ۔ماہر قانون جاں نثار احمد

سہارنپور ( جائزہ رپورٹ احمد رضا) وزیر اعظم مودی، بھاجپا سپریمو امت شاہ اور ریاستی چیف منسٹریوگی جی آ ج آ ر ایس ایس کا خاص مہرہ بنے ہیں اور لوک سبھا ۲۰۱۹ کا چناؤ فتح کرلینیکی نیت سے ہی ایک خاص طبقہ کے خلاف قابل مذمت بیانات دینے لگے ہیں جو دستور ہند کے عین خلاف اور جمہو ریت کے لئے بہت ہی ا فسوسناک پہلو ہے سینئر وکیل چودھری جانثار احمدنے صاف کہاکہ اپنے آئینی عہدے کا احترام نہ رکھتے ہوئے یوگی جی اور پی ایم مودی جی آجکل بھاجپا سپریموامت شاہ کی اقلیت مخالف آر ایس ایس کی سالوں سے تیار پلاننگ کو عملی جامہ پہنانیکی تیاری میں مصروف ہیں! بہت سے معاملات میں خاص سوچ کے لوگ ہائی کورٹ اور قابل احترام سپریم کورٹ کے فیصلہ تک کو اپنی بیہودہ تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں اب تو اقتدار میں شامل چند لوگ آئین کیخلاف جاکر بھی دلت اور مسلم طبقہ کی حق تلفی اور دل آزاری والے بیانات دینے لگے ہیں اور یہی لوگ اسی طرح کے بیہودہ بنایات اور تبصرہ کرنیوالی تنظیموں کی آزادانہ حمایت بھی کررہے ہیں! ماہر قانون چودھری جانثار احمدنیکہاکہ یہ کارکردگی ریاست کو بد امنی کے راستہ پر لیجارہی ہے ہم سبھی کو ملکر اور ہندومسلم ایکتاکا ثبوت دیکر فرقہ پرستوں اور امن کے دشمنوں کی اس چال کو ناکام کرناہوگا ! ریاستی سطح پر ہر تھانہ میں ہنومان جی اور شیوجی کی مورتیوں کو نہلایا اور انکو صبح شام پوجا جانا عام ہوگیاہے پبلک مقامات پر اور سرکاری دفاتر کی مین لین پر بھی مورتیوں کا قائم کیاجانا ، پوجا پاٹھ اور مساجد کے سامنے واقع مندروں میں بھی اکثر فجر، عصر اور مغرب کی آزاان کے وقت مائک پر بھجن کیرتن کیا جانا اور آذان پر پابندی کا نعرہ بلند کیا جانابھی اب روزانہ کا معمول بن گیاہے مگر سرکار اور اعلیٰ انتظامیہ ابھی بھی خاموش بیٹھی ہے ایک سر سری جائزہ کے مطابق آج بھی ہماری ریاست کا دس کروڑ سے زائد عوام امن کا خواہش ،مند ہیں ہم سبھی ہندو مسلم مل جل کر ساتھ ساتھ رہنا چاہتے ہیں مگر دس فیصد لوگ ہمیں لڑانے پر بضد ہیں اسی سازش کو ناکام بنانیکے لئے اب امن ضروری ہے سیکولر جماعتوں کااتحاد آج ضروری ہے اور مسلم طبقہ کیلئے صبر بھی ضروری ہوگیاہے جوش ان پلانرس کو طاقت دیگا ہمیں آج ہی سے جوش کو پیچھے دھکیل کرافوہوں اور بیہودہ بیانات کو نظر انداز کرنیکی سیکھ لینی ہوگی خاموش رہکر عدم تشدد سے اس سازش کو ناکام بنا نا ہوگا یہاں کا ہر شخص امن کا خواہاں ہے مگر مٹھی بھر سیاست داں اپنے مفاد کیلئے ان بھولے بھالے عوام کا غلط استعمال کر رہے ہیں!
ماہر قانون داں اور ویسٹ یوپی کے سینئر وکیل چودھری جانثار احمد نے آج بعد دوپہر ہم سے ایک مختصر مگر اہم ملاقات کے دوران اپنے مخلصانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیباک لہجہ میں کہاکہ سنجیدہ اور سیکولر لیڈران کی آپسی رسہ کشی، مفاد پرستی، لاپرواہی، سیاسی اقتدارحاصل کرنیکی سنک اور ہر مذہب وسماجکے مہذب دھارمک با اثر افراد کی عدم توجہی سے فائدہ اٹھاکر جہاں مٹھی بھر لوگ ہمارے امن وسکون میں زہر گھولنے پر ہر وقت آمادہرہتے ہیں ان حالات کے نتیجہ میں اتر پردیش کے زیادہ تر اضلاع میں ہر دن خوف وحراس کا ماحول سا نظر آتاہے! دوسری طرف اکثر سننے اور پڑھنے میں آرہاہے کہ وہپ، ہندو مہاسبھا، بجرنگ دل اور ہندو یواواہنی جیسی تنظیمیں اپنی بیہودہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ دلت اورمسلم مخالف بیانات دیکر مسلم دشمنوں کی حمایت کرتی رہتی ہیں اس وجہ سے بھی حالات ہمیشہ کشیدہ رہتے ہیں مسلم مخالف بیہودہ بیانات اور سازشوں کی حمایت کرتے ہوئے ہمارے چیف منسٹر نے بھی کل اپنے بیان میں متنازعہ تنظیموں کے ذریعہ بابری مسجد کے قریب سیکڑوں فٹ اونچا رام مندر بنانے والوں کی مسکراکر حمایت کرتے ہوئے پبلک مقامات پر مندر بنانے اور ہندوں تنظیموں کو ہر موقع پر اپنے رسم رواج بیخوف ہوکر منانے کے ساتھ ساتھ آذان پر پابندی، مدارس کی گھیرا بندی اور مساجد سے اسپیکر اتروانے جیسے بیانات دینیوالوں کی مذمت نہ کرتے ہوئے انکو سبھی کچھ کھلم کھلا سہی اور غلط طریقہ اپنانیکی چھوٹ دیدی ہے وزیر اعلیٰ سے اس سے قبل بھی اپنی تقاریر میں اکثر کانوڑ یاترا میں ڈیجے بجانے، پولیس تھانوں میں جنم اشٹمی منانے، منظم ڈھنگ سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنیوالوں اور پبلک مقامات پر بات بات پر( گرو سے کہو ہم ہندوہیں اور وندے ماترم) جیسے اشتعال پیدا کردنیوالے نعروں اور بیانات کو اپنی کھلی حمایت دیکر ریاست کی سیاست کو اچانک گرمادیاہے! اپوزیشن کے سیاسی کارکنان اور انکے خیموں میں اندنوں یہ چرچہ عام ہے کہ یوگی اور امت شاہ فرقوہ پرستی کی آگ بھڑکاکر ۲۰۱۹ کا لوک سبھا چناؤ جیت نے کی راہیں کھوج رہے ہیں تبھی تو عہدہ سنبھال لینیکے صرف تین ماہ بعد ہی یوگی جی اپنی ۳۰ سال پرانی کٹر بھگواو روش ،عادت اور فطرت پر اتر آئے ہیں اور مسلم فرقہ کے دلوں کو درد دینے والی زہر آلودہ، اشتعال انگیز اور غیر مہذب کارکردگی کی کھلم کھلا حمایت کر رہے ہیں،ماہر قانون داں سینئر وکیل چودھری جانثار احمد نے کہاکہ مرکزی سرکار کیلئے اس طرح کے بیہودہ اور دل آزاری کرنیوالے بیانات کی جانچ بیحد ضروری ہے ہمارے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کوبھی ایسے بیانات پر نوٹس لینا چاہئے یاد رہے کہ گزشتہ پانچ ماہ سے لگاتار بھینسو ں سے بھرے چھوٹے موٹے ٹرک یاپک اپ مخبری کئے جانیکے بعد پولیس دبش دیکر مختلف ا ضلاع کے بیشتر علاقوں سے جبریہ طریقہ پر پکڑتی آرہی ہے ! تھانہ چلکانہ تھانہ مرزاپور، کوتوالی بہٹ، تھانہ فتح پور ، تھانہ قطب شیر ، تھانہ نکوڑ، تھانہ رام پور، تھانہ نانوتہ ، تھانہ دیہات اور گنگوہ کوتوالی کے سیکڑوں علاقہ اور گاؤں اسی طرح کے واقعات سے ماحول کو گرما نے میں لگے وہیں ایک ٹرک سے کچھ زندہ اور کچھ مردہ گائیں بھی بر آمد کی گئی ہیں افواہیں پھیلادی گئیں بھاری بھیڑ جمع ہوگئی مگر عوام کی سوجھ بوجھ سے معاملہ تھم گیاہے ا ور ان گائیوں، بیلوں اور بھینسو سے بھرے چھوٹے پک اپ اور ٹرالی کو اکثر ہمارے ہندی اخبارات اور گؤ رکشک سمیتی کے ذمہ دار بلاوجہ کٹان کے لئے لائی جارہی گائیں بتاکر پہلے ڈرائیور کی پٹائی کرتے ہیں پھر بھینسیں ضبط کر لیتیں ہیں اس طرح کی حرکات سے عوام میں جہاں بیچینی پھیلتی ہے وہیں پولیس بھی جانوروں کے پکڑے جانے کی بعد اکثر گؤ کشی کے جھوٹے الزم ہی عائد کرتے ہوئے ڈرائیور، کلینرس، ایجنٹ اور ہیلپر کوہی اصل ملزم بناکر انکے خلاف فرضی ایف آئی آر درج کرلیتی ہے اس ایکشن سے فرقہ پرستوں کو خوشی ملتی ہے دوسری جانب بیقصور افراد بلاوجہ آفت سے گھر جاتے ہیں اس طرح کے معاملات ہماری کمشنری کے مختلف علاقوں میں عام ہیں مگر اعلیٰ افسران چپ ہیں؟
قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن قائدین کے خاص جائزہ کے مطابق ریاستی سطح پر خاص طورپر کمشنری پولیس محکمہ کے چند تھانوں میں تعینات چندبا اثر پولیس اور انتظامیہ کے ملازمین قہ پرست عناصر اورغیر ذمہ د ار مٹھی بھر موقع پرست سیاست دانوں کہ شہ پر آج بھی غیر سماجی کاموں میں شریک غیر عناصر کو مکمل طور سے تعاون دے رہے ہیں یہی اہم وجہ ہے کہ آج مٹھی بھر بھگوا رنگی سیاسی چولاپہنے موقع پر ست اور شرپسند عناصر سسٹم کی شہ پر ہی دودھ والی بھینسوں کوگائیں اور عمر رسیدہ بیلوں کوبچھڑے بتاتے ہوئے شور شرابہ کر رہے ہیں پولیس بھی اس ٹولی کا تعاون کر تی ہے جس وجہ سے ماحول گرم ہو جاتاہے کل تھانہ دیہات بیہٹ روڈ پر بھی ایساہی سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا کہ جہاں گھریلو استعمال اور کھیتی کے لےئے لائے جارہے جانوروں کو گؤ کشی کیلئے لائے جارہی گائیوں کی کھیپ بتاکر گھنٹہ بھر تک علاقہ میں ہنگامہ برپہ کیاجاتاہے اور پھر فرقہ پرستوں کے دباؤں میں اکثرمسلم نوجوانوں کو مار پیٹ کرحوالات میں بھیج کر ایف آئی آر لکھ دی جاتی ہے یہاں ہر روز ہریانہ اور پنجاب سے کھیتی اور گھریلو استعمال کیلئے لائے جارہے دودھ دینے والے قیمتی بھینسوں وگائیوں کو گؤ کشی کے جانوربتاکر اور بلاوجہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی تکرار کو تول دیکر افراتفری پیدا کی جاتی ہے ہریانہ پولیس اور یوپی پولیس ان شرارتی عناصر کا تعاون کرتے ہوئے فرضی معاملات بناکر سچ کو دفنا دیتی ہے جبکہ شرارتی عناصر اس طرح کے معاملات کو طول دیکر ماحول کو گرم کرنے کی فراق میں گھوم رہے ہیں ۔خبر ہے کہ کھلے عام از خد چند موقع پرست شرارتی ہند واور چند جاہل مخبر مسلم نوجوان خاص اپنے اپنے علاقوں میں قطعی طور پر بے بنیاد اور جھوٹی افواہ تیزی سے پھیلاتے گھومتے رہتے ہیں اور یہ افواہیں پھیلاتے ہیں کہ وہاں مسلم لڑکی کو چھیڑ دیاہے اور ہندو لڑکی کا اغواکر لیاہے، گائیں پکڑی گئی ہیں پولیس نے مسلمانوں کو گرفتار کرلیاہے پولیس کے سامنے اس طرح کی افواہوں سے اکثر بازاروں میں بڑھتی رونق پر بریک سی لگ جاتی ہے شہری علاقوں کی رونقوں میں بھی کمی آ جاتی ہے مگر مفاد پرست پولیس ملازمین اور چندسیاسی کارکنان اتنا سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھے بھی تماشائی بنے رہتے ہیں ضلع کے قابل اور سنجیدہ ضلع مجسٹریٹ پرمود کمار پانڈے کا کہناہے کہ امن کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی صورت بخشے نہی جائیں گے اور ضلع میں ہر حالت میں تیوہاروں کے اہم موقع پر امن کو ہر صورت قائم رکھا جائیگا ہمارے ایس ایس پیببلو کمار خد بھی ایک ملنسار اور انصاف پسند شخصیت کے حامل ہیں وہ بھی شاطر بدمعاشوں پر شکنجہ کستے ہوئے بدنام زمانہ شبیر پور فساد اور دودھلی فساد کے کلیدی ملزمان پر ایکشن لیکر واہ واہی لوٹ چکے ہیںیقین ہیکہ یہاں غیر سماجی عناصر کی دال نہی گلیگی مگر سازش پھر سازش ہے ہر لمحہ جگہ جگہ جوکسی بیحد ضروری ہے ہمارے قابل کمشنر، ڈی آئی جی، ایس ایس پی ببلو کماراور کلکٹر پرمود پانڈے نے قیام امن کیلئے اپنے سخت لاء اینڈ آڈر والے الفاظوں کو دوہراتے ہوئے غیر سماجی عناصر پر نگاہ رکھنے کی ضرورت کو فوقیت دی سبھی سینئر حکام نے دیپاولی کے خاص تیوہار پر حالات کو قابو کرنے کی غرض سے بہتر سے بہتر ایکشن پلان بھی تیار کر لیاہے کمشنری کے سینئر اعلیٰ افسران حالات پر کڑی نگاہ رکھ رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ضلع انتظامیہ کے دو بڑے افسران کی سختی کے چلتے غنڈہ اور فرقہ پرست عناصر ابھی بھی اپنی اپنی حدود میں ہی قید ہیں مگر موقع کی تلاش میں یہ سوبھی جھٹ پٹا رہے ہیں جن پر نگرانی بیحد لازمی ہے ضلع کے حالات دیکھ کر لگنے لگاہے کہ ایک خاص سیاسی سوچ اور خاص طبقہ کے چند مفاد پرست لوگ اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی فراق میں بیٹھے ہوئے ہیں جو امن کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں گزشتہ سال ۲۷، اگست ۲۰۱۳ مظفر نگر فسادات اور اسکے بعد ۲۰۱۴ سہارنپور کے ۲۶، جولائی کو ہونیوالے فساد کے بعدکمشنری کے آلودہ حالات کو کنٹرول کر نے میں مظفر نگر، شاملی اور سہارنپور کا سخت ترین ضلع انتظامیہ ناکام رہاتھا اور شہرکے امن کو کافی خسارہ پہنچاتھا اور آپسی بھائی چارہ کو بھی کافی چوٹ پہنچی تھی درجنوں جانیں ضائع ہوجانیکے ساتھ ساتھ پچاس کروڑ سے زائد کامالی نقصان بھی ہوا اور ایک لاکھ سے زائد آبادی گھروں سے بے گھر ہوگئی تھی اب ضرورت ہے افواہ پھیلانے والوں کو گرفتار کرنے کی تاکہ ریاست کی فضاء کو آلودہ اور زہریلا ہونے سے بچایا جاسکے ! کل ملاکر دیپاولی کے مد نظر اب جگہ جگہ پولیس گشت بڑھائے جانے کے ساتھ ساتھ یوپی ۱۰۰ کو بھی ہائی الرٹ پر رکھا گیاہے جبکہ سیاسہ دخل کے چلتے مقامی پولیس بھگوا عناصر کے خلاف کاروائی کرنے میں ابھی بھی ناکام ہے چند تھانوں کا اسٹاف بھی کچھ ماہ سے ان فرقہ پرست بھگوا رنگی عناصر کی سرگرمیوں کو روک پانے میں سیاسی دباؤ میں خد کو مجبور محسوس کررہے ہیں!