شکایتوں کے نپٹارے کے نام پر مظلوم اور تنگ حال عوام کا استحصال!

پاور کارپوریشن ، ایس ڈی ایم صدر، نگر نگم، چک بندی،شوگر فیکٹریز،آرٹی او ،صدرتحصیل اور سپلائی آفس سے متعلق مقامی افسرانکے سامنے عام دنوں میں اور یوم تحصیل کے موقع پر پیش ہونیوالے سیکڑوں شکایتی معاملات لگاتار ابھی بھی ہر محکمہ میں زیر التوا ہیں ان شکایات پر کیا کار واہی ہورہی ہے اور ابھی تک کارواہی کیوں نہی کیگئی ہے یہاں سبھی چپ ہیں! اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش اور لاپر واہی پر متعلقہ افسران کی جانب سے کوئی بھی ٹھوس ایکشن یاجواب مقررہ قت کے اندر شکایت کنندہ کو نہی دیاجاتا اس طرح کے لاپرواہ ملازمین کے خلاف بھی کوئی سخت کارواہی نہی کی جاتی ہے جس وجہ سے عوام کی شکایتیں جوں کی توں قائم رہتی ہے اور نتیجہ کے طورپر عوام تنگی ا ورپریشانی میں مبتلا نا امید ہی رہتے ہیں! عام چرچہ ہے کہ ریاست کے زیادہ اہم محکمات کے افسران یادو برادری ست تعلق رکھتے ہیں شاید اسیلئے یہ افسران عام آدمی کی بات سننا تو دور شکایتی درخواست ہاتھ میں لیناتک بھی پسند نہی کرتے ہیں اگر یقین نہی ہوتا تو آپ اپنی کھلی آنکھوں سے ریاست کے یادو سرکاری افسران اور ملازمین سے خد کسی شکایت سے متعلق معلامات کرکے نتیجہ اخذ کرلیں کہ سچ کیاہیسماجوادی لیڈران، کانگریس اور بہوجن سماج کے لیڈران بھی اپنی ہر ریلی میں لاکھوں کے مجمع میں عوام کا یہ درد بیان کرتے رہتے ہیں مگر اسکے بعد بھی سنوائی نہی! محکمہ پاور کارپوریشن نے عام آدمی کا جس طرح سے استحصال کر رکھا ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی جب سے سرکار نے بجلی چوری کو جرم قرار دیا تھا اسی وقت سے غریبو ں پر پاور کارپوریشن محکمہ کی جانب سے مصیبتوں کی باڑھ سی آگئی ہے محکمہ کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا افسر جس چاہے کو بجلی چوری کا ملزم قرار دیکر اسکے خلاف متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کرا دیتا ہے نتیجہ کے طور پر جس کے خلاف رپورٹ ہوتی ہے وہ اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے اندنوں بھاری رقم جرمانہ کے طور پر یا پھر محکمہ کے افسران یاملازم کو رشوت کے طور پر ادا کرکے اپنی جان بچاتا ہے اس طرح کیسیکڑوں فرضیکیس ہر روز اس شہر کے پسماندہ اور پچھڑے علاقوں میں رونما ہوتے ہیں جب انکی شکایت ضلع کے سینئر حکام سے کی جاتی ہے تو سینئر حکام بھی ان شکایتوں کو اسی محکمہ کے افسر کے پاس جانچ کے لئے بھیج دیتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس شکایت کو ردّی کی ٹوکری میں پھیک دیا جاتا ہے اور شکایت کرنے والیکو محکمہ کے اسٹاف کی جانب سے اور زیادہ تنگ و پریشان کر دیا جاتا ہے حکام کو بار بار باور کرایا جا چکا ہے کہ اس طرح کی شکایت اپنی سطح سے کسی دوسرے محکمہ کے صاف ستھری ذہنیت والے افسر سے کرائی جائے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ زمینی سچائی اور چوری کی بابت سچا وا قعہ کیا ہیاسکے علاوہ پولیس بھی بجلی چوری کے معاملات میں ایمانداری کے ساتھ جانچ کر نے سے خد کو بچاتی ہے اور پاور کارپوریشن کے عملہ کاہی ساتھ دیتی ہے جو کھلی بے ایمانی ہے! پچھلے چار ماہ کے دوران صوبہ کے دو قابل قدر چیف سیکریٹری افسران کو عوم کی شکایات سنکر دور کرنے کے بار بار احکامات جاری کرتے ہوئے خد عہدے سے چلے گئے مگر شکایات وہیں کی وہیں کھڑی ہیں جناب آلوک رنجن ، دیپک سنگھل، راہل بھٹنا گر اور اب راجیو کمار نے چیف سیکریٹری کا چارج سنبھال لینے کے بعد پہلی فرصت میں تمام اضلاع کے سبھی افسران کو تحریری طور پر آگاہکیاتھا کہ عوامی شکایتوں کا ازالہ فوری طور سے اہم مانتے ہوئے جلد سے جلد کیا جائے مگر افسوس کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی افسران نے اپنارویہ ابھی تک بھی نہی بدلاہے !پولیس ، تحصیل ، چکبندی ، اوقاف ، بیسک ایجوکیشن ، نگر نگم اورمحکمہ پاور کارپوریشن میں وہاں موجود افسران اور ملازمین پچھلے کئی سالوں سے جو چا ہ تے ہیں وہ کر رہے ہیں مقامی عدالتیں بھی محکمہ بجلی کی شکایتوں کو اور پولیس کی ایف آئی آر کو ہی درست مانتے ہوئے بجلی چوری کے ملزم کو سیدھے طور پر ضمانت دینے سے انکار کر دیتی ہیں نتیجہ کے طور پر جرمانہ ادا نہی کرنیپر کنزیومرس کو سیدھا جیل بھیج دیاجاتاہے جس وجہ سے غریب آدمی جھوٹے الزام کا ملزم ہونے کے باوجود موٹی رقم خر چ کر کے اپنی جان اور عزت بمشکل بچا پانے میں کامیابی حاصل کرتا ہے !