اثراتی پس منظر میں ’’ لفظوں کالہو ‘‘ احتشام الحق آفاقیؔ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی ، رامپور
مجھے وہ دن یاد ہے ، جب میں نے سلمان عبدالصمد سے ناول کا مطالبہ کیا تھا اور وہ دن بھی یاد ہے ، جب ناول میرے ہاتھوں میں آیا ۔ ناول کی حصولیابی اور مطالبہ کےدرمیان کئی ماہ کا فیصلہ رہا ۔ کیوں کہ پہلے ایڈیشن کی اطلاع سے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت تک، بے صبری کے ساتھ انتظا ر کرنا پڑا۔ جب ناول آیا تو نہ صر ف میں نے،بلکہ میری رفیقۂ حیات نے بھی چند دنوں میں ہی ناول مکمل کرلیا اور یہ کہتے ہوئے سلمان عبدالصمد کو اطلاع دی کہ ’بھائی اکمل خان کے کردار نے مجھے رلا دیا ہے‘۔ بہر حال ہرایک قلمکار/تخلیق کار کی فطری کوشش ہو تی ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کا احاطہ اپنے قلم سے کرے اور اپنے اردگرد کے مسائل کوصفحۂ قرطاس پر نقش کرے۔ پیش نظر حادثات وواقعات کو رقم کرنے میں ایک تخلیق کار کوکتنی کامیابی ملتی ہے،اس کا فیصلہ تو زبان و ادب کے ناقدین کرسکتے ہیں، مگر فی الوقت سلمان عبدالصمد کے ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ پر تاثراتی گفتگو کروں گا ،جو ایک بیدار مغز قاری کی آواز ہوگی۔ اس کا اپنا تجزیہ ہوگا۔ ناول لفظوں کا لہو ایک ایسے نوجوان کا تجربہ و مشاہدہ ہے جس نے اس طلسماتی دنیا میں ۲۶/۲۷ بہاریں دیکھیں۔ اس ناول کا تجزیہ کرنے والے بیشتر ناقدوں اور تجزیہ نگاروں نے سچ کہا کہ اس میں رشتوں کی ٹوٹتی بکھرتی کڑیوں کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے،جس سے ایسی نفسیاتی فضا قائم ہو تی جاتی ہے کہ قاری خودبخود ناول کی گرفت میں آجاتا ہے۔ سلمان عبدالصمد کا یہ نا ول اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں شائع ہواہے ۔ اس لیے ہم اس میں اپنے معاشرہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔روح سے لپٹی ہوئی رشتوں کی کشمکش سے اس ناول کی کہانی جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے عہد میں آئے دن کئی ایسے رشتے رو نما ہوتے اور وجود میںآتے رہتے ہیں جن میں ایک دوسرے کے مدد کے سہارے سماج و معاشرہ میں نئی روح پھونکنے کی چاہت وخواہش ہوتی ہے۔سلمان عبد الصمد نے کہانی کو جس پیرایے میں ڈھالنے کی کوشش کی اس سے صاف طورپر ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے کس مستعدی اور فنی بصیرت کے ساتھ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا ہے۔ پورے ناول میں چار باتیں خا ص ہیں۔ (1) جمہوریت کاچوتھا ستون یعنی میڈیا۔ (2)گھریلو رشتے اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں (3) سوتنوں کی رقابت کا فلسفیانہ اظہار۔ (4)صنف نازک کو صنف نازک کے حق میں بیدار کرنے کی مہم ۔ ناول نگا ر نے صحافت اور اس سے جڑے افراد کو ان کی ذمہ ادریوں کا احساس دلایا ہے کہ اگر ملک کا چوتھا ستون میڈیا ہی کرپٹ ہو جائے تو پھر سماج کے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے۔ معاشرہ کی ترجمانی کون کرے گا۔لوگوں کو اچھائی اور برائی سے آگاہی کیسے ممکن ہو سکے گی۔ صحافت ہی سے رائے عامہ کی ترجمانی بھی ہوتی ہے اور وہی رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دیتی ہے ۔ یہی تو عوام کی خدمت کا مقدس فریضہ ہے۔ اس لیے صحافت جمہوریت کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ صحافت کے علاوہ ناول میں جس کا مطلع صاف نظر آتا ہے وہ ہے گھریلو رشتہ۔ جب ایک نوجوان اپنے گھریلو مسئلہ میں الجھتاہے تو اس کو بسا اوقات آگے کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف اس کو اپنے مستقبل کی پروا ہوتی ہے تو دوسری طرف ان کو حال پریشان کئے دیتا ہے جس سے نکلنا اس کے لئے کسی مشکل سے کم نہیں ہوتا۔ موجودہ معاشی بد حالی کے دور میں شادی کے بعد بہت سے نوجوان دماغی اعتبار سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایسے میں اگر نوجوانوں کو اپنی شریک حیات سے جو سپورٹ ملنا چاہیے، وہ نہ نہیں مل پا ئے تو وہ مزید ذہنی عارضہ کا شکار ہو جاتا ہے۔گر چہ ناول نگار نے محسن کو پوری کہانی میں ایک جواں مرد اور اولعزم شخصیت کے طور پر پیش کیا ، لیکن کہیں کہیں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات سے بھی دور ہوجاناچاہتا ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’اس نے سوچا زنیرا اس بار دہلی میں ہے ہی ،چلو تنہا ہی گھر چلتے ہیں۔ٹرین میں تنہائیوں کاہی سہار ا رہے گا۔گھر سے نائلہ کو ساتھ دہلی لے آئیں گے۔پھر اگر زنیر اکی موجود گی میں نائلہ کا رہنا مشکل ہو گا تو زنیرا کو گھر چھوڑ آئیں گے۔اسی طرح پھر ایک بار واپسی میں تنہائیوں کا سہارا ملے گا‘‘اور’’وہ اپنے فلیٹ کو تنہائیوں سے آباد رکھنا چاہتا تھا،لیکن یہ ممکن نہیں تھا،بلکہ ایک نئی دعوت کو جنگ دینے کے برا بر…‘‘ ان باتوں کے پس منظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محسن کہیں نہ کہیں اسی ذہنی عارضہ کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک طرف اس پر اپنے والدین کے اخراجات کا بار تو دوسری طرف دو بیویوں کی ذمہ داری۔ ناول نگار نے تیسری چیز جس کو خاص توجہ کے ساتھ بیان کیا وہ ہے صنف نازک میں بیداری پیدا کر نے کا جزبہ۔ ایک ایسا جذبہ جو زمانہ کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا حوصلہ دے۔نسل نو کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ۔ناول کا یہ پہلو اس لیے بھی قابل توجہ ہوگیا ہے کہ صنف نازک کے لیے سوچنے پر صنف نازک کو ہی ابھارا جارہا ہے۔اس لیے ناول کی کردار نائلہ سمجھتی ہے کہ واقعی آج تک صنف نازک نے کسی کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ایسے تمام جذبوں کے ساتھ اگر کوئی خاتون کچھ کرنا چاہتی ہے تو ہمیں ان کا استقبال کرنا چاہئے اور ان کے لئے راہیں ہموار کرنا چاہئے،جس طرح ناول میں نائلہ نے کچھ کر دکھایا۔نائلہ نے اس کہانی میں وہ کچھ کر دکھایا جو اس کا خواب تھا کہ ’’ ہمیں کچھ کرنا چاہئے، اپنے لئے اپنے سماج کے لئے ملک کے لئے ‘‘اور’’ہم لڑکیاں ایک دوسرے کی مدد سے کچھ کیوں نہیں کرسکتے ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے مردوں میں بے شمار مردوں نے دوستی کی بنیاد پر بہت کچھ کیا لیکن ہم لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کچھ کیوں نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔ ناول موضوعاتی اعتبار سے بہت خوب ہے۔’’لفظوں کا لہو‘‘ میں لفظوں کو قید کرنے کی مہم تیزی کے ساتھ چل رہی ہے۔ناروا سلوک سے الفاظ چیں بہ جبیں ہیں۔لفظوں کی زبان گنجلک ہو چکی ہے ۔الفاظ کراہ رہے ہیں ایوانوں میں،بالا خانوں میں ۔الفاظ کراہ رہے ہیں انصاف کی کتابوں میں۔الفاظ کراہ رہے ہیں ذخیرہ خوروں کی دلوں میں‘‘ ایسے وقت میں جب لفظوں کو عنوان مل جاتا ہے تو وہ بنتا ہے لفظوں کا لہو۔جس کی ترجمانی سلمان عبد الصمد نے لفظوں کے پیکر احساسات میں ڈھال کر بڑی خوبصورتی سے کی ہے ۔’’لفظوں کا لہو‘‘ ایک ناول ہی نہیں بلکہ ایک سماجی تجربہ ہے ، جو آج ہر طرف مشاہدہ میں آرہا ہے۔ میڈیا جو صدیوں سے رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا آرہا تھا،آج وہ کس طرح غلام بن گیا ہے۔الفاظ بکنے لگے۔ اس سے وابستہ افراد بکنے لگے۔ یہاں تک سادہ کا غذ میں لکھے حروف بکنے لگے۔ ان سب کا خریدار ایک ایسا طبقہ ہے جس کو انسانوں سے زیادہ جانوروں سے محبت ہے۔ اس کے یہاں انسانی جانیں اور خون کوئی معنی نہیں رکھتا، ایسے لوگ جمہوریت کے چوتھے ستون کے خریدار بن گئے ۔وجہ کوئی خا ص نہیں بلکہ آشنا لوگوں کا ناآشنا بن جانا، بس جمع خوری میں ہمہ تن مصرو ف رہنا یہیں ایک وجہ ہے ورنہ صحافت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے وہ کل تھی۔ناول میں مین کردار محسن ،محسن کی پہلی بیو ی زنیراا ور دوووسری بیوی نائلہ ہیں۔ اس کے بعد ناول میں دوسرے اشخاص کی بھی انٹری ہوتی ہے، مثلاً اخبار مالک اور محسن کا دوست اکمل خان اور نیلا۔اکمل خان ایک ایسا کردار ہے جو قاری کو رونے پر مجبور کردیتا ہے۔ اکمل خان کی پالیسیوں اور محسن کے استحصال کی کارستانیوں سے خود بخود آنکھیں آبدیدہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔جب سے اکمل خان نے اخبار نکالنا شروع کیا تب سے اکمل خان کا تیور بدل گیا اور محسن کو صرف اپنے کام میں استعمال ہونے والا آلہ سمجھ لیا ۔محسن اندر ہی اندر اکمل خان کی حرکتوں سے کرراہ رہا تھا لیکن وہ زبان سے ایک بھی لفظ ادا کرنے سے قاصر تھا۔اس میں چاہے محسن کا بھولا پن ہو یا پھر اس کی مجبوری، مجھے تو اس کی مجبوری ہی شامل نظر آتی ہے۔ نائلہ اور زنیرا جو صرف ایک سوتن ہی نہیں بلکہ دونوں بچپن کی سہیلیاں بھی ہیں۔ بچپن کی قربتیں بھی ہیں۔ پھر جب دونوں کے سامنے ایک شوہر کو دوحصوں میں بانٹنے کا وقت آتا ہے تو پھر وہی کشمکش جس کا تاریخ نے بہت زیادہ حد تک نظارہ کیاہے۔کیا دونوں کے لئے ممکن نہیں تھا کہ دونوں جس طرح بچپن میں ایک سہیلی اور ایک بہن کی حیثیت رکھتی تھی، آج بھی وہ رشتہ ان میں بحا ل رہے؟کیا ان دونوں کو ایسا کرنے یا دوعورتوں کے سہیلی بن جانے سے محسن کو بیر تھا، ہر گزنہیں بلکہ یہ تو دو عورتوں کی رقابت تھی۔ اس میں مردوں کے اعتراض کا دخل نہیں، بلکہ ناول نگار نے فلسفیانہ انداز میں جو کچھ کہا ، وہ سچ کہ اپنے درمیان کی رقابت دور کرنے کے لیے عورتوں کو بھی بہت کرنا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ کرنے کے جذبہ کو پروان چڑھانے کے لیے قوی ہمت ہو نا لازمی ہے۔ ایسی اولعزمی اور قوت ارادی صرف نائلہکے کردار میں نظر آتی ہے۔ اگر نائلہ کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ تمام کردار کچھ کرلیتے یا اپنے خوابوں کوتکمیل تک پہنچاپاتے۔دراصل قوی ہمت کا ہی ہونا بسااوقات ضدی پن بن جاتا ہے ۔ گویا اس ناول میں قوی ہمتی ضدی پن کے ساتھ سامنے آتی ہے۔سلمان عبد الصمد ہمارے ہم عمر اور ہم عصر ہیں ہمیں ان سے بہت سی امید وابستہ ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے معاشرہ کے مسائل کے تئیں سنجیدہ رہیں گے اور انھیں تخیل کے رنگ میں رنگ کر ہمارے سامنے بہترین تخلیقات پیش کرتے رہیں گے۔ناول کے لیے اس نمبر 9810318692پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔