شیخ الحدیث مولانایونس جونپوریؒ کی زندگی پر مبنی کتابچہ( درّے بے بہا) کا روایتی انداز میں رسم اجراء شیخ الحدیث مولانایونس جونپوریؒ کی علمی ا ور دینی خدمات سنہرا باب !

سہارنپور ( احمد رضا) ابھی گزشتہ دنوں عالم اسلام کے عظیم محدث اورفرید العصر حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ شیخ الحدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپوراس دارفانی سے داربقاء کی طرف رحلت فرماگئے، حضرت شیخ الحدیثؒ کی شخصیت اوران کے علمی مقام ومرتبہ کے تعلق سے بہت سارے مضامین ،دستاویزات اور علمی تبصرات منظر عام پر آرہے ہیں اورانشاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہیگا کل ہی میرے سامنے مفتی محمد صادق مظاہری کا مرتب کردہ کتا بچہ (درے بے بہا) رسم اجراء کے چند منٹ بعد ہی مطالعہ کیلئے میرے سامنے آیا تو معلوم پڑا کہ ہمارے شیخ الحدیثؒ کی علمی حیثیت ایک کرشمائی درجہ رکھتی ہے آپ کی خدمات بھی ایک سنہرا باب ہے جسکو تا حیات بھول جانا ممکن ہی نہی اپنے قابل قدر شیخ الحدیثؒ ؒ کی دینی ،شرعی اور علمی مہارت اور تجربات پر مبنی ایک پر وقار کتابچہ کاگزشتہ روز مقامی مہندی سرائے میں درجنوں معزز افراد کی موجودگی میں بدست راحیل رضا ( طالب علم ایل ایل بی) کے دست مبارک سے اجراء عمل میں آیا شیخالحدیثؒ کی خدمات اور صلاحیتوں پر مبنی یہ پچاس صفحات پر مبنی کتابچہ آپکے ایک ۲۴ سالہ شاگرد اور عمدہ خطیب مفتی صادق مظاہری کی زیر ادارت و نگرانی شائع ہوا ہے یہ کتابچہ علمی رسالوں میں ایک علیحدہ پہچان کا حامل ہے ! رسم اجراء کی شاندار محفل میں موجود علاقہ کے سیکڑوں افراد کو یہ کتابچہ مطالعہ کیلئے پیش کیاگیا سبھی افراد نے اس تحریر کو خوب سراہاہے!
ایسے اسلاف سے ملتا ہے ہمارا شجر
جن کے قدموں میں دوچار تاج پڑے رہتے ہیں

قابل قدر کتابچہ ( درّے بے بہا) کی چند علمی جھلکیاں آپکے سامنے اکابرین کی اعلیٰ صلاحیتوں کے مقصد سے عوام الناس کی جانکاری کیلئے پیش کر رہاہوں جسکا علم ہم سبھی کیلئے لازم ہےآج ایک خصوسی گفتگو میں اس کتابچہ پر مفتی صادق مظاہری نے بتایاہیکہ مربی ومخدومی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام جن کی شبانہ روز کی محنتوں اورنصیحتوں نے اس کندۂ ناتراش کواس قابل بنایا اوردل ودماغ میں خدمتِ دین کا شوق وولولہ پیداکیا ،مولانا مفتی محمد صادق تھانوی مظاہرعلوم سہارنپور میں طالب علمی کے دورسے ہی علمی اشتغال میں منہمک رہنے والے ،اساتذہ کے منظور نظر،محنتی اور ذہین طالب علموں میں سے تھے، تقریری مسابقاتی پروگراموں میں کامیاب اورپوزیشن لانے والوں میں ان کا شمار ہوتارہا ہے،تقریروخطابت میں اچھااثر و علم مہارت رکھتے ہیں،کتابچہ میں نے ازاول تا آخردیکھا ہے،یہ کوئی مستقل سوانح حیات نہیں ہے بلکہ ایک شاگرد رشید کے اپنے محسن ومربی استاذ محترم کے حضور گلہائے عقیدت ہیں جوان کے قلم سے صفحۂ قرطاس پراپنی خوشبو بکھیررہے ہیں، اس میں الفاظ وتراکیب اورحسنِ استعارات کا ایسا مرقع پیش کیاگیا ہے کہ یہ کتابچہ جاذب نظربن گیا ہے الفاظ کی شوکت، استعارات کا استعمال، تراکیب کی بندش نے اس کتابچہ کوایک نیارنگ وآہنگ دے دیاہے بطور کتابچہعظیم محدث اورفرید العصر حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ شیخ الحدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور علامہ زماں علیہ الرحمہ پہلے چھوٹے تھے ،علم میں چھوٹے تھے، جاہ میں چھوٹے تھے،لیکن دورِ موجود میں بڑے بن چکے تھے،اپنے ہم چشموں ،ہم عصروں ،ہم زادوں سب میں سب سے بڑے ہوچکے تھے، حقیقۃً کون بڑا ہے اللہ کے علم میں ہے لیکن ظاہراً یہ بڑے تھے،دنیا کے علاقوں میں خطوں اور ملکوں میں اونچے ہوچکے تھے،اورقدت کی عجیب کارفرمائی ہے چندپیسوں کے لئے جسکاباپ دن بھر کڑی دھوپ اور ببولوں کے کانٹوں میں پھرنے پرمجبورکرتا،جنگل جنگل بھینس چرانے کو کہتا، خیال آتا کہ یہ سب سے نیچا ہے،دورِ موجود میں سبھوں سے اونچا کردیاتاکہ ثابت ہو بڑے پن کو چاہنے والے اوراسکے لئے زمین کے قلابے آسمانوں سے ملانے والے بڑے نہیں بنتے بلکہ بڑاوہی ہوتا ہے اورصرف وہی ہوسکتاہے جس کوبڑا وہ ذات بنائے جس کے ہاتھ میں لوگوں کی امیری بھی ہے غریبی بھی ،عزت بھی ہے ذلت بھی، توجب یہ بڑا ہے تو ان کے علمی کارناموں کا باب بھی وسیع سے وسیع تر ہے ،چنانچہ ان کے شاگردوں کی فہرست میں چمکتے دمکتے ہوئے آفتاب ومہتاب بھی ہے جواپنے اپنے علاقوں میں میدان علم وفن کے ہیروں ہیں، جن کولوگ بڑی عزت وعظمت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جن کی زیارت کو خوش نصیبی و خوش قسمتی سمجھتے ہیں،اورفخر یہ لہجے میں اسکواپنی زبان سے بیان کرتے ہیں ہزارہا ہزار اہل علم شاگردخدمتِ دین کیلئے اپنے تن من دھن کو وقف کئیہوئے ہیں ،جورشدوہدایت کے چراغ کا کام کررہے ہیں، عقائد حقہ سے امت مسلمہ کے دلوں کوروشن وتابناک بنارہے ہیں،اورعقائد باطلہ کی ظمت وتاریکی کا خسارہ ونقصان ان کے سامنے بتلارہے ہیں،کوئی منبر ومحراب کی زینت بنکر اہل اسلام کو نماز جیسے مقدس فریضہ سے سبکدوشی حاصل کرارہا ہے تو کوئی وعظ ونصیحت کے ذریعہ سے خوابیدہ احساسات کوجگارہاہے ،کوئی فقہ وفتاویٰ کے توسط سے اہل ایمان کو راہِ راست دکھارہاہے توکوئی مکاتب دینیہ میں ننہے ننہے بچوں کے قرآن کریم کی آیات سینے میں اتارنے کی کوشش کررہاہے،کوئی مسندتدریس سے قال اللہ قال الرسول کا پیغام عام کررہاہے،توکوئی خانقاہوں میں بیٹھ کر تعلق مع اللہ قائم کرارہاہے، ظاہر ہے ان میں مخلصین بھی ہوں گے ،خاص بات یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دورمیں معمولی تنخواہ پر اللہ اور رسول کی محبت میں لگے ہوئے ہیں، اورفتنوں کے اس ماحول میں دینی وضع قطع کے ساتھ خدمت دین میں مشغول ہیں،راہِ الٰہی میں مجاہدات کررہے ہیں جو حضرت کاایک مقبول ترین اوربڑاکارنامہ ہے،دورانِ درس بارہا فرمایا :دنیائے تصنیف میں میں چاہت کے باوجود زیادہ کچھ نہ کرسکا بیماری نے گھیرے رکھا ،لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ حضرت کا ایک ایک تلمیذ ایسا بھی ہے جوخود اپنے آپ میں ایسی کتاب ہے جب اس کو کھول کر پڑھنا شروع کیا جائے، توروحانیت ٹپکتی ہے نورانیت جھلکتی ہے، علم ولولہ مارتاہے، عمل موجوں کی طرح لہراتا ہے ،سمندروں کی طرح بہتاہے،شریعت وتصوف کی بہاریں آتی ہیں، پڑھنے والے کی زندگی بدلتی ہے، جامِ وحدانیت پینے کو ملتا ہے، جس کو پینے سے سرورآتا ہے، پیغام شریعت معلوم ہوتاہے، جس سے جینے کا سلیقہ اور شعور انسانیت آتاہے، ویسے حقیقت یہ ہے کہ دنیائے تصنیف میں بھی بڑا کارنامہ ہے یہ الگ بات ہے کچھ پردۂ خفامیں ہے اور کچھ منظرعام پر آنیوالیہیں چنانچہ احادیث کے تعلق سے علماء کبارنے جوسوالات کئے سفرمیں کئے یا حضرمیں کئے حضرت نے ان کے محققانہ جوابات قلمبند کئے مولانا ایوب سورتی کی سعی وکوشش سے وہ کتابی شکل میں کتب خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں،اوراہل علم اُن سے استفادہ کررہے ہیں، اسی طرح تخریج احادیث مجموعۂ چہل حدیث ،فیوضِ سبحانی، وغیرہ نے کتابوں کی دنیامیں اضافہ کیا ہے اورالعناقیدالغالیہ ،تعلیقات نبراس الساری الی تعلیق البخاری ،کتاب التوحید ،تقاریر بخاری حضرت مولانا ایوب سورتی نے ان سب کو مرتب کرکے علماء کیلئے ایک قیمتی سرمایہ جمع کردیا، اورمقدمۂ ہدایہ،مقدمۂ بخاری، الیواقیت والآلی جزء حیات الانبیاء، تخریج احادیث اصول الشاشی ،مقدمۂ مشکوٰۃ مقدمۂ ابوداؤد، جزء معراج، جزء المحراب،جزء رفع الیدین، جزء قرأت ،ارشاد القاصدالی ماتکرر فی البخاری واسنادٍ واحدٍ یہ کارنامۂ عظیم پردۂ خفامیں ہے اورمولانا نورالحسن راشد کا ندھلوی ،حضرت کے علمی افادات پرروشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں پچاس سال تک حضرت کاقلم عنوانات کے تحت سرگرم سفررہاہے یہا ں کس کس کا تذکرہ کیا جائے اورکس کس کی بات کی جائے شیخ نے صحیح مسلم کے مقدمہ پر دوکتابیں علیحدہ لکھیں، حضرت امام بخاری کے احوال اور ان کی کتاب کے منہج پرایک بسیط تالیف بھی شیخ نے فرمائی اس کے علاوہ زیرمطالعہ کتب پرکثرت سے حواشی، افادات، تصحیحات،تخریج روایات، اغلاط ومندرجات کی تصحیح ،گویا ایک دائمی عمل تھا جوآخری دنوں تک جاری رہا! موصوف لکھتے ہیں مختلف موضوعات وعنوانات پرچھوٹی بڑی تصنیفات ،اجزاء ورسائل، تحریرکئے ،ان کی مجموعی تعداد میرے اندازے کے مطابق ۴۵۔۵۰ کے درمیان ہوگی یہ تحقیق وتصنیف حضرت کا دائمی معمول تھا !حضرت نے زاہدین کی دنیا کا دیدارکیا ،مجاہدات کی باڑکو برداشت کیا،نفسانی خواہشات کو پیروں تلے روندا، اوردنیا زہد کی حلاوت ومٹھاس کوچکھا،مزہ آیا، دنیا کی زیب وزینت کوکوسوں دورکردیا، دنیا ان کے پیچھے بھاگتی ،وہ اسکے آگے دوڑتے ،مال ودولت کا انباربھی لگا،عہدے ومنصب بھی پیش کئے گئے،طرح طرح کی اشیاء لاکر دی گئیں،لیکن کسی چیز کی چاہت ظاہر نہ کی یہ وہ لوگ ہیں جن کے خیالات کی منظر کشی کرتے ہوئے شاعر نے خوب ہی کہا ہیکہ۔۔۔۔
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں جنکے دیدار سے اللہ کی یاد آتی تھی!
موت تو اسی کی ہے جسکا کرے زمانہ افسوس یوں تو سبھی آئے ہیں دنیا میں جانیکے لئے!
شیخ الحدیث کے گزرجانیکے بعد ہمکو رسول ﷺ کے پیارے حضرت صدیق اکبرؓ کا زہد یا دآیا کہ آں حضرت نے سب کچھ راہِ خدا میں لٹایااسی کی پیروی ہمارے پیارے استاد قابل قدرشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس ؒ صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے کی کل کائنات اللہ کے راستے میں صرف کرڈالی کرڑوں روپیہ کامکان مظاہرعلوم کی نذرکردیاکہنے والے نے کہا لاکھوں روپیہ کابینک بیلنس اورکروڑوں کی پراپرٹی چھوڑکرگئے لیکن یہ بندۂ خدا جیسا غریب آیاتھا ویسا ہی غریب لوٹا، فرق یہ ہے کہ پہلے حقیقۃً غریب تھا اب ظاہراً غریب تھا لیکن حقیقۃً مالدارتھا،اسلئے کہ جوکچھ آتا وہ سب صدقات خیرات کے ذریعہ خرچ کرڈالتے، مال ودولت سے اس بے رغبتی کو دیکھ کر مجھے کہنا پڑا کہ اس مرد قلندر جیسا دل کا بادشاہ میں نے اپنی ۲۳؍سالہ قلیل عمرمیں شہنشاہوں ،حاکموں،سرمایہ داروں میں سے کسی کونہیں دیکھا، زہد کے اس عالم نے استغنائیت خودداری وغیرت مندی کی یہ شان پیدا کردی تھی،کہہ بڑے بڑے امراء، رؤساتجار آتے، اورنظر بے وقعتی سے دیکھے جاتے ان کی حاضری صرف اور صرف ناصحانہ کلمات سننے اور دعا کے لئے ہوتی ،غلاموں ،خادموں کی طرح آتے اور طالبانہ حاضری دیکر چلے جاتیہیں ایسی ہی شخصیات علمی پر ہمیں ناز ہے اور تا قیامت رہیگا!