Sep 16, 2017
مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرکے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان اس ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور انہیں پناہ نہیں دی جاسکتی۔ اس سے قبل اپنے دورہ جموں کشمیر کے موقع پر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نہایت تلخ اور ترش لہجہ میں کہا تھا کہ کہ ہندوستان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ نہیں دے گا۔ انہو ںنے بھی ملکی سلامتی کا حوالہ دیا تھا اگر تمام پناہ گزینوں کے تعلق سے حکومت ہند کارویہ یہی ہوتا تو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی دلیل اور سپریم کورٹ میں حکومت ہند نے جو موقف پیش کیا ہے اسے تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہوتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت ہند نے تبت کے پناہ گزینوں کو بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ہندو اور بدھشٹ چکما پناہ گزینوں کو اور بڑی تعداد میں افغانیوں اور سری لنکا سے آئے ہوئے تمل باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی ہر طرح سے مددبھی کی ہے تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ روہنگیا مسلمانو ںکے ساتھ یہ بے اعتنائی کیو ں؟ کیا وجہ صرف یہ ہے کہ یہ روہنگیا مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اب تک پناہ دی جاتی رہی ہے وہ کم از کم مسلمان نہیں ہیں۔ یہ تو ماضی قریب کی مثالیں ہیں ماضی بعید میں ہندوستان میں زرتشتیوں او ر یہودیوں کو بھی نہ صرف پناہ دی گئی بلکہ ان کو ہندوستانی معاشرہ میں باعزت مقام حاصل کرنے کے تمام مواقع فراہم کیےگئے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں پاکستان سے آئے ہوئے ہندو پناہ گزین موجود ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش سے جو ہندو اور بدھشٹ بھاگ کر آتے ہیں انہیں پناہ گزین کا درجہ دیا جاتا ہے جو مسلمان آتے ہیں انہیں گھس پٹھیا کہا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں سرحد پار کرکے مسلمان بھی ہندوستان آگئے ہیں او رملک کی مختلف ریاستوں میں مقیم ہیں ان کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے اس کے باوجود وہ یہاں مقیم ہیں ملک کی شمال مشرق ریاستوں میںبنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کے خلاف تحریک چل رہی ہے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے بنگلہ زبان بولنے والے ہندوستانی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کو پریشان کیاجارہا ہے۔
روہنگیائی مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ میانمار انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے ا نکار کررہا ہے تمام بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم کیاجارہا ہے اور اس میں گزشتہ کچھ دنوں سے اچانک شدت آگئی ہے لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکار کے باوجود بہرحال عالمی برادری اور ترکی سمیت کچھ اسلامی ملکوں کے دبائو میں بنگلہ دیش نے لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کو قبول کرلیا ہے جو وہاں تمام بنیادی سہولیات سے محرومی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی آبادی کے لیے ایک ایسے جزیرہ کا انتخاب کیاگیا ہے جو انسانوں کے رہنے کے لائق ہیں۔
حکومت ہند کے انکار کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان دارالحکومت دہلی سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں مقیم ہیں او رکبھی کبھی یہاں سے کشیدگی کی خبریں بھی آتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت زیادہ تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ دینا حکومت ہند کے لیے مختلف قسم کے مسائل او رمشکلات پیدا کرسکتا ہے لیکن ہندوستان ان کی طرف سے مکمل طور پر چشم پوشی بھی نہیں کرسکتا کیو ںکہ یہ ہندوستان کی تاریخی روایات ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین اورمعاہدوں کے خلاف ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ عالمی سطح پر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کیا ہے او رہندوستان کی آواز کا وزن بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیاگیا ہے۔ اس لیے ہندوستان روہنگیائی مسلمانوں کے تعلق سے پہلوتہی نہیں کرسکتا۔
جس وقت روہنگیا مسلمان ابتلاء وآزمائش اور تعذیب کے دور سے گزر رہے تھے ٹھیک اسی دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے میانمار کا دورہ بھی کیا تھا اور اس دورے کے موقع پر روہنگیا مسلمانوں کے تعلق سے مودی نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا تھا وہ ہندوستان کی تاریخ اور تہذیبی روایات سے میل نہیں کھاتا حکومت ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف روہنگیائی
مسلمانوں کو پناہ دے بلکہ ان کی باز آبادکاری میں بنگلہ دیش حکومت کی مدد کرے اور بین الاقوامی برادری کو آمادہ کرکے اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرے۔
(آمنا سامنا میڈیا )