دوڑپیچھے کی طرف! از:صادق رضامصباحی

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیاجس تیزرفتاری سے آگے بڑھتی جارہی ہے ،اسی تیزرفتاری سے وہ پیچھے کی طرف بھی بھاگ رہی ہے ۔بظاہرتویہ تضادمحسوس ہوتاہے مگرواقعہ یہی ہے کہ انسانی ترقی ،اب تنزلی بن گئی ہے ۔ گزشتہ ادوارکی بنسبت اب زندگی آسان توہوگئی ہے ،مسائل کاحل توتلاش کرلیاگیاہے مگراس طرزِزندگی نے جوبحران پیداکیاہے اس نے نہ صرف یہ کہ پوری بستیوں کی بستیاں بلکہ ملک کے ملک تباہ کر کے رکھ دیئے ہیں۔دنیاکی چکاچوندھ سے مرعو ب ہم جیسے لوگ کہتے پھررہے ہیں کہ اگلی ربع صدی اورنصف صدی تک بہت سارے حیرت انگیزانقلاب آنےوالے ہیں جوزندگی کارخ موڑدیں گے ۔جاپان  کے کسی سائنس داں نے ایک کتاب تحریرکی ہے جس میں اس نے لکھاہے بلکہ پیشین گوئی کی ہے کہ اگلے سوسالوں میں دنیامیں کیاکیاترقیا ں ہونےوالی ہیں اورانسانی زندگی کس بلندی پربراجمان ہونے والی ہے ۔اس نے دعوی کیاہے کہ اگلے ۳۰،۳۵سالوں کے اندراندرسڑک حادثات کانام ونشان مٹ جائے گااوریوں سڑک حادثات میں لاکھوں مرنے والےزندگی سے ہاتھ نہیں دھوسکیں گے ۔اس کے علاوہ بھی جاپانی سائنس دا ں نے بڑی حیرت انگیزاورانقلابی پیش قدمیوں کی خبردی ہے ۔اب آئیے ذراجائزہ لے لیتے ہیں کہ کیاہم واقعی ترقی یافتہ ہوجائیں گے اورہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟
راقم الحروف اگراس ترقی کامذہبی نقطہ نظرسے تجزیہ کرے توممکن ہے سیکولرلوگ مجھے ’’ملاگیری ‘‘کاطعنہ ماریں اس لئے  مذہب کوفی الوقت الگ رکھیے اورسیکولرسٹ کے نقطہ نظرسے ہی اس کاجائزہ لے لیجئے ۔آپ یقین کیجئے  کہ ان کے فلسفے کی بنیادپربھی اس ترقی کی ہولناکی کم نہیں ہوگی بلکہ اس کی ہولناکی کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا،اس کازہربڑھے گااوراس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے کیوں؟اس کی وجہ بڑی بدیہی ہے ۔جسم کاروح سے رشتہ اتناقوی ہے کہ دونوں کوایک دوسرے سے جداکرکے کوئی بھی سکون سے نہیں رہ سکتا۔ہم جس تہذیب اورترقی کوغیرمعمولی کہتے ہیں وہ دراصل اپنی بنیادمیں مسخ شدہ تہذیب ہے ،وہ عفریت ہے،وہ ناسورہے ۔اس کے سوااسے اور کوئی نام نہیں دیاجاسکتا۔یہ تہذیب انسانوں کی لاش پرکھڑی ہے ،اس کے نیچے نہ جانے کتنوں کے خون کادریابہہ رہاہے ۔سوال یہ ہے کہ جب یہ تہذیب اور ترقی اتنی کھوکھلی اورمسخ شدہ ہے توپھرآج کاانسان اس کااس قدردل دادہ کیوں ہے ؟
وقت کے دجالوں نے دنیاکاسسٹم ایسابنادیاہے(اگرچہ اس میں خیرکے بھی بے شمارپہلوہیں) کہ اب سے راہ فراربھی ناممکن بنتی جارہی ہے اوراس عدم امکان کی بھی کئی وجوہ ہیں جن میں سب سے اہم اور بنیادی وجہ ہم مسلمانوں کااپنی ذمے داریوں سے فرارہے ۔فی الحال مسلمانوں کولیکچردینے کامیراکوئی ارادہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کے سرپراس وقت تک جوں نہیں رینگتی جب تک کوئی اس کی گردن پر تلوار لے کرسوارنہیں ہوجاتااورجب تک اسے کوئی ظلم وتشددسے پامال نہیں کرڈالتا۔مجھے بس اتناہی عرض کرناہے کہ تہذیب حاضرکے منفی اثرات سے بچنے کابس ایک ہی طریقہ ہے :ماضی کاسفر۔ماضی کے سفر کا مطلب : فطرت کی طرف واپسی ۔اسی لیے چودھویں صدی کے سب سے بڑے مبلغ اسلام ،حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ(متوفی:۱۹۵۴)ہمیشہ فرمایاکرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ آگے بڑھو، آگے بڑھو،آگے بڑھویہا ں تک کہ ترقیوں کے بام عروج پرپہنچ جائولیکن میں کہتاہوں کہ پیچھے چلو،پیچھے چلو،پیچھے چلویہاں تک کہ عہدرسالت میں پہنچ جائو۔عہدرسالت عہدفطرت سے عبارت ہے اس لیے میرے سیکولردوستو!مذہب کے نام پراپنے مزاج کاجغرافیہ بگاڑنے والو!اگرتمہیں مذہب کے نام سے چڑہے تووہ تمہارامقدرہے، کم ازکم فطرت سے تومنہ نہ موڑو۔مذہبی زندگی گزارناتمہارانصیبہ نہیں ہے تو تم جانو،کم ازکم فطرت کی توزندگی گزارواوریادرکھوکہ فطرت کے بغیرچارۂ کارنہیں ہے ،کبھی بھی نہیں رہااورکبھی بھی نہیں رہے گا۔ اس لیے دماغ میں بس ایک بات نوٹ کرلوکہ سکون ترقی میں نہیں ہے ،فطرت میں ہے ،سادگی میں ہے اوراسی فطرت اورسادگی کاتونام اسلام ہے ۔فطرت کی طرف واپسی کی تلقین اقبالؔ زندگی بھرکرتے رہے اورانہوں نے تہذیب جدیدکے تعفن کاعلاج یوں تجویزکیا:
ہاں دکھادے اے تصورپھروہ صبح وشام تو
دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو