انٹرنیشنل ریڈکراس سوسائٹی نے میانمار میں روہنگیا باغیوں کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو مثبت پیش رفت قرار دیا متاثرین کی امداد کے لیے محفوظ رسائی ملنے کی امیدجتائی

ینگون10ستمبر:بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے میانمار میں روہنگیا باغیوں کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو ‘بڑی مثبت پیش رفت’ قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے متاثرین کی امداد کے لیے محفوظ رسائی مل سکے گی۔یہ بات آئی سی آر سی کے اہلکار جوئے سنگہال نے اتوار کو گفتگو میں کہی۔خیال رہے کہ گذشتہ روز روہنگیا مسلمان باغیوں نے ریاست رخائن میں جاری بحران کو کم کرنے کے لیے ایک ماہ کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
ارکان روہنگیا سیلویشن آرمی (آرسا)نامی تنظیم نے میانمار کی فوج سے بھی کہا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں تاہم میانمار کی فوج نے اب تک کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔آرسا کی جانب سے 25اگست کو ایک پولیس چوکی پر حملے کے جواب میں میانمار کی فوج وسیع پیمانے پر آپریشن کر رہی ہے۔تب سے لے کر اب تک کچھ اندازوں کے مطابق تقریباً تین لاکھ روہنگیا نے رخائن چھوڑ کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی تنظیموں کو میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا کی مدد کے لیے فوری طور پر سات کروڑ ستر لاکھ ڈالر درکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خوراک، پانی اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں. ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں۔ حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ میانمار میں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں. ریاست رخائن میں 2012سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے۔اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں،انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا بغیر دستاویزات کے بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی فوج کی طرف سے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے کی تصدیق کی ہے۔تنظیم نے عینی شاہدین اور اپنے ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم ایک شہری ہلاک اور دو بچوں سمیت تین افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ریسپانس ڈائریکٹر تیرانہ حسن کا کہنا ہے کہ اپنے جانیں بچا کر بھاگنے والے نہتے افراد کے خلاف اس انتہائی گھناونی حرکت کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔بنگلہ دیش کے حکام نے بھی میانمار فوج کی طرف سے سرحد پر بارودی سرنگیں بچانے کے اقدام پر احتجاج کیا ہے۔میانمار کی فوج کے ایک اعلی اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کو بتایا کہ یہ بارودی سرنگیں نوے کی دہائی میں بچھائی گئی تھیں اور حال میں فوج نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔دریں اثنا عالمی امدادی ایجنسی ریڈ کراس میانمار میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہی ہے کیونکہ اقوام متحدہ پر میانمار کی حکومت کی طرف سے روہنگیا باغیوں کی امداد کرنے کے الزام کے بعد اسے اپنی کارروائیاں کم کرنی پڑ رہی ہیں۔