جگر مراد آبادی کا یومِ وفات Sep 09, 1960 یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے اک آگ کا دریا ھے اور ڈوب کے جانا ھے
آج 09 ستمبر شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا یومِ وفات ھے ۔
تاریخ پیدائش : 6 ۔ اپریل 1890ء
تاریخ وفات : 9 ۔ سپتمبر 1960ء
مشاعرے کا ذکر جب بھی آتا ہے تو جگر مراد آبادی کا نام آنا ضروری ہے۔ کیونکہ آج تک کسی شاعر کو مشاعروں میں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی جو جگر کو حاصل تھی۔ مرتضیٰ برلاس کا یہ لکھنا درست ہے کہ ’جگر جس شہر میں وارد ہوئے اس بستی کی راتیں جاگنے لگیں، اور لوگوں کے نظام الاوقات تبدیل ہو گئے۔‘
جگر کاپیدائشی نام علی سکندر تھا اور وہ چھ اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ شاعری کا چسکا انہیں 12، 13سال کی عمر سے ہی لگ گیا تھا۔ لیکن ان کے اس جذبے کو سب سے زیادہ اصغر گونڈوی نے مہمیز دی تھی اور اس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں:
”میں مختلف مذہبی عقائد سے گزرتا رہا ہوں۔ ایک زمانے میں دہریت مجھ پر حاوی رہی۔ میں شیعیت کی جانب بھی رحجان رکھتا تھا۔ ان دنوں میں لاہور میں چشمے کی ایک فرم میں ملازم تھا جس کے ڈائرکٹروں میں شیخ عبد القادر بھی تھے۔ یہ زمانہ میرا دکھ اور روحانی اذیتوں کا تھا۔ آخر ایک روز میں حضرت اصغر گونڈوی کے پاس ان سے ملنے کے لیے گیا جو ایک صاحب سے بحث کر رہے تھے۔ میری دلچسپی نے دور ہی سے مجھے اس بحث کو سننے کے لیے روک دیا۔ میں قریب کھڑا اس طرح، کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکیں، تمام بحث سنتا رہا۔ عجیب بات یہ تھی کہ حضرت اصغر سمجھا رہے تھے اسے، اور میرے دل میں کانوں کے ذریعہ ہر ایک بات اترتی جا رہی تھی ایسا بھی وقت آیا کہ جوشبہات میرے دل میں تھے میں نے سوچے اور تھوڑی دیرکے بعد ہی وہاں سے جواب ملا۔ وہ وقت مجھے یاد ہے جب میں تھوڑی دیر میں راسخ العقیدہ حنفی ہو گیا۔“
ہمایوں لاہور، مارچ سنہ 1991صفحہ۔ 258
حالانکہ جگر 15،16 سال کی عمر میں ہی مے نوش ہو گئے تھے۔لیکن اصغر کی باتوں کا ان پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ انہوں نے شراب ترک کر دی اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔
جگر کی زندگی میں بہت سے انقلابات آئے۔ ان کی زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزری۔ لیکن اپنی شاعری کے لیے انہوں نے جو روش طے کر لی تھی یعنی محبت۔ اس سے وہ کبھی الگ نہیں ہوئے۔
دنیا کی جفا یادنہ اپنی ہی وفا یاد
اب کچھ بھی نہیں مجھ محبت کے سوا یاد
جگر کی پوری شاعری غزل سے عبارت ہے۔ اگرانہوں نے کچھ نظمیں کہی بھی ہیں تو ان پر بھی تغزل کا رنگ حاوی ہے۔ لیکن ان کا اصل رنگ غزل ہی ہے جس کے بارے میں وہ خود ہی کہتے ہیں:
” میری شاعری غزل تک ہی محدود ہے۔ اب چونکہ حسن و عشق ہی میری زندگی ہے اس لیے بعض مستزاد کو چھوڑ کر کبھی دوسرے میدان میں قدم رکھنے کی جرات نہ کر سکا۔“
جگر کے تین شعری مجموعے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ پہلا شعری مجموعہ سنہ 1922 میں ”داغِ جگر“ کے نام سے شائع ہوا جسے اعظم گڑھ کے احسان احمد وکیل نے مرتب کر کے شائع کیا تھا۔ اس پر مولانا عبد السلام ندوی نے تعارفی نوٹ لکھا تھا۔
دوسرا شعری مجموعہ ”شعلہٴ طور“ کے عنوان سے 1932ء میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس کے نام کی شانِ نزول یہ تھی کہ مین پوری میں ایک طوائف شیرازن تھیں، جو بہت ہی مہذب اور باذوق خاتون تھیں۔ جگر کا قیام ان دنوں مین پوری میں تھا ان کی ملاقات شیزان سے ہوئی اور جلد ہی گہرے تعلقات ہو گئے۔ وہ جگر کی شاعری کی دلدادہ تھیں اور اپنی مخصوص محفلوں میں زیادہ تر جگر کا ہی کلام سناتی تھیں۔ جگر اکثر ان کے گھر پر ہی پڑے رہتے تھے۔ ان کے لیے بالائی حصے پر ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا، جسے جگر صاحب”طور“ کہا کرتے تھے۔ اسی لیے جب اس زمانے میں ان کا مجموعہ شائع ہونے لگا تو انہوں نے اس کا نام ”شعلہٴ طور“ رکھ دیااور سر ورق پر یہ شعر لکھا:
ہجومِ تجلی سے معمور ہو کر
نظر رہ گئی شعلہٴ طور ہو کر
ان کا تیسرا شعری مجموعہ ”آتشِ گل“ 1954ء میں ڈھاکہ سے شائع ہوا تھا۔ اس میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کا طویل مضمون ”جگر میری نظر میں“اور پروفیسر آل احمد سرور کا دیباچہ بھی شامل ہے۔ 1958ء میں دوبارہ اسے انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا اور اس پر انہیں ساہتیہ اکاڈمی انعام بھی ملا۔
جگر کی شاعری عشق سے عبارت ہے۔ وہ عشق سے شروع ہو کر عشق پر ختم ہو تی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
کتابِ عشق کا مشکل ترین باب ہوا
وہ ایک دردِ محبت جو صرفِ خواب ہوا
کس قدر جامع ہے میرا عالمِ تصویر بھی
حسن کی تشریح بھی ہے عشق کی تفسیر بھی
تفسیرِ حسن و عشق جگر مصلحت نہیں
افشائے رازِ قطرہ و دریا نہ کیجیئے
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
یہ ہے عشق کی کرامات یہ کمال شاعرانہ
ابھی منہ سے بات نکلی ابھی ہو گئی فسانہ
کیا کشش حسنِ بے پناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا
جگر مراد آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے کر لی تھی جو دوسرے شعرا سے الگ ہے۔ وہ خود ہی لکھتے ہیں:
”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں۔“
سہ ماہی اردو، کراچی، جولائی۔ سنہ 1959صفحہ۔145
جگرمراد آبادی کا انتقال نو ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا تھا اور وہیں انہیں محمد علی پارک میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن جگر کی موت کی خبر دو دو بار اخبارات میں شائع ہوئی اور ریڈیو سے بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ پہلی بار چارمئی سنہ 1938ء کو جب ان کے موت کی خبر شائع ہوئی تو بعض اخبارات نے خاص نمبر تک شائع کر دیے۔ ہر جگہ تعزیتی جلسے ہوئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں تو تعزیتی جلسے کے ساتھ ساتھ نمازِ غائبانہ بھی ادا کی گئی۔
لیکن چند دنوں بعد لوگوں کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جگر بقید حیات ہیں۔ سنہ 1958ء میں جب جگر کو دل کا شدید دور پڑا تواس وقت بھی ان کے انتقال کی خبر ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور اور کراچی میں متعدد تعزیتی جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت احسان دانش نے کی تھی۔ اس خبر کی تردید ہونے کے بعد مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ ”جنگ“ میں لکھا تھا کہ پہلی خبرکے بعد جگر صاحب کی عمر بیس سال بڑھ گئی تھی اوراب اس خبر کے بعد پھر کم از کم بیس برس کے اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا نو ستمبر 1960ءکو ان کو دل کا دورہ پڑا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتابیات
٭٭٭٭٭٭٭٭
داغِ جگر ، 1922۔۔۔۔۔
شعلۃ طور ، 1932۔ ۔۔۔
آتشِ گل ، 1954 ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
٭٭٭٭٭٭٭
شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے ماراپرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے ماراستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارامیں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے ماراستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے ماراموت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے ماراجو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے ماراشکوۂ موت کیا کریں کہ جگر
آرزوئے حیات نے مارا
٭٭٭٭٭٭٭٭
طبیعت ان دنوں بیگانۂغم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ، اے حسن دو عالم! ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شادباش کہ تنہا ہمیں رہے
یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیء مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے