روہنگیا معاملہ۔ حقائق اور مسئلہ کی یکسوئی

از:عبید باحسین( ناندیڑ، مہاراشٹر۔ 9420014590)

آٹھویں صدی کے قریب روہنگیا جنوب مشرقی ایشیاء سے ہوتے ہوئے اراکان نام کی ایک آزاد ریاست میں مقیم ہوئے تھے۔ اس ریاست کو آج رکھائین کہا جاتا ہے۔ بعد ازیں ان کے روابط عرب سے آئے ہوئے تاجروں سے ہوئے، جن سے متاثر ہوکر چودھویں صدی کے اختتام پر ان میں سے بیشتر افراد نے اسلام قبول کرلیا۔
برطانوی حکمرانی
1784ء ؁ میں برما کے ایک راجا نے اراکان کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ جس کے بعد ہزاروں روہنگیا بنگال کی طرف جانے پر مجبور ہوگئے۔ پھر ایک برطانوی سفیر کی ثالثی کے بعد بنگلہ دیش میں انہیں ’’ کاکس بازار ‘‘ نام کی بستی میں بسایا گیا۔ اس جگہ آج بھی بہت سارے روہنگیا آباد ہیں۔ یہ نام اس سفیرکے نام ’’ ہی رام کاکس‘‘ پر رکھا گیا۔ بعد ازیں برطانیہ نے اراکان پر حملہ کرتے ہوئے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ 1824ء سے لیکر 1942ء تک برما پر برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ کچھ مورخ بتاتے ہیں کہ برطانوی 1935ء کے قریب بنگال۔ میانمار کے سرحدوں پر بسے روہنگیاؤں کو میانمار کے آرکھائین علاقہ میں لے گئے۔ جہاں کی زمین بڑی زرخیز تھی۔ روہنگیاؤں سے برطانونیہ کے افسران زرعی مزدوری کام لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی برطانیہ کے افسران نے برما کے مقامی رہائشیوں پر ہمیشہ دوسرے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر قبائل کو ترجیح دیتے تھے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1942ء میں جاپان نے برما پر تسلط جمانے کے بعد برما کے شدت پسندوں نے اقتدار کی تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روہنگیائی مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ وہ یہ تصور کرتے تھے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برطانوی حکومت میں ان سے زیادہ اہمیت دی گئی۔
روہنگیا بغاوت
1945ء میں برطانیہ نے برما اور روہنگیا کے لڑاکوؤں کی مدد سے جاپان کو برما سے کھدیڑ دیا۔ برما کے جنگجوؤں کی قیادت اونگ سان کررہے تھے۔ لیکن یہاں پھر سے کشیدہ صورتحال کا آغاز ہوا۔ روہنگیا ریاست اراکان کے لیے خود مختاری چاہتے تھے جو انہیں نہیں دی گئی۔ اونگ سان کو 1946ء میں ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا۔ دوسری طرف روہنگیا اراکان کو خود مختاری نہ دینے پر برہم تھے۔ اس لیے انہوں نے مغربی پاکستان ( بنگلہ دیش) میں شمولیت کے لیے پیشرفت کی اور محمد علی جناح سے ملاقات کرتے ہوئے اپیل کی کہ اراکان کے مسلم غالب علاقوں کو پاکستان میں شامل کرلیا جائے۔ تاہم جناح نے یہ کہتے ہوئے اس مطالبہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ یہ برما کا داخلی معاملہ ہے۔ بعد ازیں ان لوگوں نے برما کی نئی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اراکان کے کچھ علاقوں کو سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ برما کی نئی حکومت نے اس مطالبہ کو بھی نظر انداز کردیا۔ 1948ء کے قریب اس کا بدلہ لیتے ہوئے حکومت نے کئی روہنگیا جو سرکاری ملازمین تھے انہیں ملازمتوں سے برخواست کردیا۔ 1950ء میں کچھ روہنگیائی افراد نے حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار اٹھالئے اور ’’ مجاہد‘‘ نام کی ایک تنظیم تشکیل دی۔ اس تنظیم کے جنگجو برما کی فوج پر حملے کرتے رہے۔ ابتداء میں انہیں کامیابی ملی، لیکن جب پوری طاقت سے برما نے ان پر جوابی حملہ کیا تو ان میں سے بیشتر جنگجو خود سپردگی کر بیٹھے۔ 1960ء کے اختتام تک یہ بغاوت پوری طرح سے ختم کردی گئی۔
آرمی کا کردار
لیکن 1960ء کے بعد عبوری جمہوری حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برما کی فوج نے جمہوری حکومت کو برخواست کردیا اور برما پر فوجی حکمرانی کا اعلان کردیا۔ 1977ء میں ایک آپریشن کے تحت برما میں ’’ غیر ملکیوں کی آبادی ‘‘ کو کم کرنے کے نام پر برما کی فوج نے روہنگیاؤں پر ظلم و زیادتی شروع کردی۔ تقریباً دو لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش ہجرتکرنے اور وہاں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ بنگلہ دیش نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ بعد ازیں ہوئے ایک سمجھوتے کے باعث بیشتر روہنگیا واپس برما چلے گئے۔ اسی طرح ہر ایک نئے آرمی جنرل برما کا حکمراں بنتا گیا اور روہنگیاؤں پر ظلم و ستم کی نئی داستاں رقم کرتا گیا۔ انتہا یہ ہوئی کہ 1982ء میں برما کے ڈکٹیٹر فوجی حکومت نے ملک کی شہریت کے لیے ایک نیا قانون مرتب کیا۔ اس کے مطابق روہنگیاؤں کو سرے سے برما کا شہری ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب برما روہنگیاؤں کو اپنے ملک کا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا تب انہیں میانمار کے دستور کے تحت کوئی اختیارات اور تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ 1989ء میں برما کی فوج نے اپنے ملک کا نام تبدیلی کرتے ہوئے میانمار رکھ دیا۔ جمہوریت فوجی ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہونے اور ملک کا نام تبدیل کئے جانے کے باوجود روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی۔
ناکامی کی پردہ پوشی
1991ء میں برما کی فوج نے پھر ایک مرتبہ روہنگیائی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، بالجبر مزدوری کروانی شروع کی۔ ان کا حکم نہ ماننے پر روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف تشدد برپاکیا گیا۔ ان مظالم سے عاجز ہوکر پھر ایک مرتبہ روہنگیاؤں نے ہجرت کا سلسلہ شروع کردیا۔ 1992ء میں ایک بین الاقوامی سمجھوتے کے بعد میانمار کو مجبوراً روہنگیاؤں کو واپس اپنے دامن میں لینا پڑا۔
لیکن بودھ غالب آبادی والے اس ملک میں فوج کی جانب سے کئے جانے والے تشدد کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے روہنگیاؤں پر ظلم کرتے ہوئے فوج نے اپنے ملک کی ناکامی کی پردہ پوشی میں کامیابی حاصل کرلی۔ آج میانمار کی صورتحال جنوب مشرقی ایشیاء کے سب سے غریب ملک کی ہے۔ ایک ہندوستانی روپئے کے عوض میانمار کی 21کرنسی ’’ کیات‘‘ ملتی ہے۔ جبکہ ایک روپیہ خرچ کرنے پر پاکستان، بنگلہ دیش اورنیپال میں بھی ایک روپیہ ساٹھ پیسے تک ہی ملتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے میانمار کے حکمرانوں نے منصوبہ بند طریقے سے سارے ملک میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ روہنگیا ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی، کیونکہ روہنگیا وہاں پر ایک فیصد بھی نہ تھے۔ اسی بے بنیاد پروپیگنڈے کا اعادہ وہاں کے انتہا پسند بودھ دھرم گرو بھی ملک کی عوام کے سامنے کیا کرتے تھے۔ میانمار کے ایک بودھ مذہبی قائد جن پر الزام ہے کہ انہوں نے روہنگیا کے خلاف تشدد کا ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کیا، انہی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بودھ طبقے کے ’’ 80-98 فیصد‘‘ لوگوں کو روہنگیا سے کوئی چیز نہیں خریدنی چاہئے، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کی رقم سے روہنگیا مسلمان پیسہ بنائیں گے اور بودھ لڑکیوں سے شادیاں کریں گے، ان کی آبادی بڑھے گی تو یہ ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔
چند افراد کے ذریعے 2012ء میں یہ افواہ پھیلادی گئی کہ ایک روہنگیا نے کسی بودھ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے اس کا قتل کردیا۔ اس کے بعد تو تشدد و دہشت گردی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ دونوں گروہ باہمی طور پر متصادم ہوئے۔ آتشزدگی کے واقعات پیش آئے۔ جس میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ روہنگیائی مسلمانوں اور سینکڑوں بودھ طبقے کے افراد کو بھی اپنی جان بچانے پناہ گزیں کیمپوں میں جانا پڑا۔ روہنگیا مسلمانوں پر صرف وہاں کے شدت پسند بودھ طبقے کے لوگوں نے ہی حملے نہیں کئے بلکہ وہاں کی فوج بھی ان حملوں میں پوری طرح شامل تھی۔
پناہ گزیں کیمپ
پناہ گزیں کیمپوں میں رہائش پذیر لوگوں کو نہ صاف پانی، غذا او رنہ دواؤں کی سہولت میسرہے ۔ بلکہ ان کیمپس میں رہائش پذیر روہنگیا کو کسی بھی کلینک اسپتال میں علاج کی اجازت نہ تھی۔ انہیں اپنے کیمپس میں ہی تڑپ تڑپ کر جان دینا پڑتاہے۔ کیمپس کو چاروں طرف سے فوج نے گھیر رکھا ہے۔ پناہ گزینوں کے آنے جانے، ملازمت کرنے پر امتناع عائد کیا گیا ہے۔ جو حقوق انسانی تنظیمیں اور سماجی تنظیمیں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں انہیں وہاں کی حکومت ایسے فلاحی اقدامات کرنے سے روکتی ہے۔ ان کی آمدورفت پر بھی امتناع عائد کیا جاتا ہے اور ان پر مختلف طرزدباؤ ڈالے جاتے ہیں۔
تھائی لینڈ
انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہ نے جب یہ دیکھا کہ روہنگیا اپنے ہی ملک میں پناہ گزیں کے طور پر رہ رہے ہیں تو اس گروہ کے افراد نے روہنگیا کو ورغلا کر ملازمت دلوانے اور بہتر زندگی کا خواب دکھلاکر تھائی لینڈ پہنچا نے کے لئے ان سے پیسے لئے گئے۔ان کو تھائی لینڈپہنچا دیا گیا۔ جہاں ان کے ساتھ فریب کیا گیا اور جنگلاتی علاقوں میں انہیں قید کردیا گیا۔ ان سے رقومات طلب کی گئیں اور رقومات نہ دینے پر انہیں مار دیا گیا۔ جب کئی دنوں تک پیسہ نہ ملا تو یہ دیکھ کر یہ انسانی اسمگلر بھی وہاں سے فرار ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد کئی دنوں سے بھوکے پیاسے لاتعداد روہنگیائی مسلمانوں نے اس جنگل میں ہی اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔ کچھ بچ کر دوسری طرف چلے گئے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب تھائی لینڈ کی پولیس نے جنگل میں اجتماعی قبریں دریافت کی۔ تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک بین الاقوامی انسانی اسمگلروں کی ٹولی اس میں ملوث ہے۔ یہ ٹولی اس قدر بااثر تھی کہ انسانی اسمگلنگ کی تحقیقات کررہے تفتیشی آفیسر کو بھی تھائی لینڈ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ اس ٹولی کی سرپرستی تھائی لینڈ سے لیکر میانمار تک کے اعلیٰ افسران اور حکومت میں موجود بااثر شخصیتیں کررہی تھیں۔ بالآخر عالمی دباؤ کے چلتے اس سال جولائی کے ماہ میں وہاں کی عدلیہ نے اس میں چند افسران اور اسمگلرس کو موت کی سزاء سنائی ہے ۔
اقوام متحدہ
اقوام متحدہ بھی اس معاملہ میں پوری طرح ناکام ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے افسران جو میانمار میں موجود ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب بھی وہ روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تب وہاں کے افسران اور فوج انہیں ایسے اقدامات کرنے سے روک دیتی ہے۔ جب انہوں نے اقوام متحدہ کے مقامی اعلیٰ افسران کو اس بارے میں بتایا تو انہیں ملازمت سے برخواست کردیا گیا۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ نے بھی میانمار کی حکومت کو پناہ گزینوں اور متاثرین سے زیادہ ترجیح دی ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کا یہ رویہ اور طرز عمل خود اس کی اپنی پالیسیوں اور بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔آنگ سان سوکوئی
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوکوئی نے 2015ء میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میانمار کے وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کیا۔ ان کے بیرونی سفر کے موقع پر بی بی سی نے ان سے ایک انٹرویو لیا۔ انٹرویو میں جب بھی بی بی سی کی صحافی میانمار کی وزیر اعظم سے سوال کررہی تھی کہ وہاں کے مسلمانوں کو مارا جارہا ہے اور ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟ تو خاتون صحافی کے ہر سوال کے جواب میں وزیر اعظم آنگ سان سوکوئی یہ کہتی رہی کہ وہاں کے بودھ بھی ان سب مسائل کو جھیل رہے ہیں۔ جب ان پر واضح کیا گیا کہ بودھ طبقے کا فیصد متاثرین میں بہت کم ہے تو وہ اس سے متفق نہیں ہوئی اور کہنے لگی کہ روہنگیا کے بارے میں بودھ طبقے میں خوف ہے اس لیے وہ ان پر حملے کررہے ہیں۔ لیکن ان حملوں کی روک تھام ڈر اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم میانمار آنگ سان سوکوئی نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ ان کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ فوج روہنگیا کے ساتھ جو رویہ اپنارہی ہے وہ درست ہے اور وہ اس سے اتفاق کرتی ہے۔ میانمار کی کوئی بھی اپوزیشن جماعت روہنگیا کے بارے میں کچھ بولنا نہیں چاہتی۔ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی میسر نہیں۔
حرکاہ الیقین
اکتوبر 2016ء میں میانمار کے ایک مقامی انتہا پسند گروپ ’’ حرکاہ الیقین‘‘ نے سرحد پر واقع فوجی چوکی پر حملہ کردیا۔ میانمار کے 9 فوجیوں کو اس حملے میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ فوج نے اس کا جواب دیا ، جس کی لپیٹ میں معصوم روہنگیا بھی آگئے۔ تقریباً 25 ہزار روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ کئی دنوں تک فوج روہنگیاؤں پر حملے کرتی رہی۔ میانمار کا اکثریتی طبقہ بھی فوج کی اس کارروائی کو غلط تسلیم نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا میں جو تصاویر اور ویڈیو آتے ہیں روہنگیا پر ظلم کی انتہاء کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک کمزور دل انسان ایسے لرزہ خیز ویڈیو اور تصاویر دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
بنگلہ دیش
رواں سال کے ماہ اگست میں رکھائین ریاست کے 15 شہروں میں اقوام متحدہ اور سماجی تنظیمیں جو روہنگیا مسلمانوں کی مدد کررہی ہیں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ میانمار حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے سابق جنرل سیکریٹری کوفی عنان کی صدارت میں ایک بین الاقوامی کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ کچھ دن پہلے ہی سامنے آئی۔ جس میں میانمار حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر روہنگیا مسلمانوں کا حل نہیں نکالا گیا تو حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے عام ہونے کے بعد تشدد بھڑک اٹھا اور فوج کی کارروائی میں صرف دو ہفتوں کے اندر 400 سے زیادہ روہنگیا ہلاک کردئے گئے۔ ر یاست رکھائین جو بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ہے اور روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش سرحد کی سمت جارہے تھے تب بنگلہ دیش نے بھی انہیں اپنے ملک میں اپنی سرحد عبور کرنے نہیں دی اور اپنی پناہ میں لینے سے انکار کردیا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 27 ہزار پناہ گزینوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔ لیکن اب بنگلہ دیش حکومت نے بھی اپنی سرحد کو سل کردیا ہے اور سرحدوں پر سخت نگرانی شروع کردی ہے۔
چین
چین میانمار کی پوری طرح مدد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار کے خلاف اس کی غیر اخلاقی حرکت پر دباؤ ڈالنے اور سلامتی کونسل میں اس کے خلاف امتناع عائد کئے جانے جیسی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ چین نے 2006ء میں امریکہ کے توسط سے اقوام متحدہ میں میانمار کے خلاف پیش کردہ تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ویٹو کردیا تھا۔ میانمار میں ہونے والی سرمایہ کاری کا تقریباََ نصف ہر سال چین خود کرتا ہے۔ چین کی نیت یہ ہے کہ وہ میانمار حکومت سے قربت بڑھاکر ان سے اپنے اہم ترین پروجیکٹ کو مکمل کرلے۔ چین جنوب مغربی ایشیاء میں اپنا دبدبہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
بھارت
حکومت ہند بھی روہنگیا کو میانمار واپس بھیجنا چاہتا ہے۔ جس کے خلاف دو روہنگیا پناہ گزینوں نے پرشانت بھوشن جیسے ماہر وکیل کے توسط سے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے حکومت سے استفسار کیا ہے کہ وہ روہنگیا کو کس لئے واپس بھیجنا چاہتی ہے؟ سپریم کورٹ نے حکومت کو جواب دینے کے لیے 11؍ستمبر تک کا وقت دیا ہے۔ حکومت کا یہ موقف ہے کہ ان پناہ گزینوں کی وجہ سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ ساتھ ہی ان کے ملک میں رہنے سے ملک کے وسائل پر زائد بوجھ پڑے گا۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں صرف روہنگیا اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے طو رپر نہیں رہتے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق چین کے ایک لاکھ دس ہزار، سری لنکا کہ 64 ہزار 208 پناہ گزیں بھی ہندوستان میں رہائش اختیارکئے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ سری لنکن تامل پناہ گزینوں کو بھی بھارت نے پناہ دے رکھی ہے۔ ان میں ’’ ایل ٹی ٹی ای ‘‘ جیسی دہشت پسند تنظیم کے حمایتی بھی شامل ہیں۔ اور انہی پر سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ہلاک کرنے کا الزام بھی ثابت ہوا ہے۔ لیکن ہندوستان نے بین الاقوامی ضوابط اور اقوام متحدہ کے اہم رکن ہونے کی بنیاد پر حقوق انسانی کے تئیں اپنے عہد کی پاسداری کو نبھاتے ہوئے ان سب کو پناہ دے رکھی ہے۔ ہندوستانی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے کچھ خاص نہیں کرتی۔جبکہ افغانستان اور دیگر ممالک سے آئے پناہ گزینوں کو اسکالرشپ اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ میانمار کے یہ پناہ گزیں روہنگیا دہلی، جموں اور حیدرآباد میں بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں جن کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔ وہ یہاں سائیکل رکشہ چلانے جیسے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے اپنی گذر بسر کرتے ہیں۔ کوئی بھی ملک میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے پڑوس میں بھی امن اور سکون قائم نہ ہو۔ اس کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ امریکہ کے دو پڑوسی ہیں، ایک کینیڈا، دوسرا میکسیکو۔ دونوں بھی خوشحال اور دولت مند ملک ہیں۔ لیکن بھارت کو اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ امن اور برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔
دلائی لامہ
ایسا نہیں ہے کہ دلائی لامہ نے روہنگیا کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔ انہوں نے کئی بار اس معاملے میں روہنگیا کی حمایت کی ہے۔ اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہے۔ اگر چین اپنے ہارڈ پاور کا استعمال کرکے میانمار کو مدد کررہا ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی دلائی لامہ جیسے سافٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے دلت اور روہنگیا مسلمانوں میں موجود نفرت کو کم کرنے کے لیے پہل کریں۔ ہر سال میانمار کے ہزاروں بودھ عقیدت مند بھارت میں بودھ گیا کے درشن کے لیے آتے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ میانمار معاملے میں مداخلت اور میانمار کو کوئی خصوصی سفیر بھیج کر مسئلہ کی یکسوئی کے لیے پیشرفت کریں۔ اگر میانمار میں امن و بھائی چارگی قائم رہتی ہے اور وہاں کشیدگی کم ہوتی ہے تو یہ ہمارے ملک کی معاشی اور سماجی اعتبار سے بہتر بات ثابت ہوگی، کیونکہ ملک کے شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والی بغاوت اور تشدد کو میانمار کی سرحد میں بھاگ جانے والے دہشت گردوں پرنکیل لگائی جاسکتی ہے۔
بین الاقوامی برداری
اس معاملے میں ترکی کو چھوڑ کر کسی دیگر ملک نے روہنگیا مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور کوئی پہل نہیں دکھائی۔ یہ معمول سا ہوگیا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کی حکومت کے نمائندے اس مسئلہ پر میڈیا کے سامنے روایتیے طرز پرایک مذمتی بیان جاری کردیتے ہیں اس سے آگے بڑھ کر اگر کچھ مدد کی جاتی ہے تو عرب ممالک اور ایران روہنگیائی پناہ گزینوں کو مدد کے طور پر چند ملین ڈالر فراہم کرتے ہیں۔ لیکن بجز ترکی کے کسی بھی ملک کے وزیر اعظم یا وزیر نے روہنگیا سے میانمار پہنچ کر ملاقات نہیں کی۔ اور نہ ہی ان کے لیے اقوام متحدہ یا دیگر کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر صدائے احتجاج بلند کی۔ اگر واقعی دنیا یہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کی یکسوئی ہو تو سبھی ممالک کو چاہئے کہ وہ باہمی طور پر مل کر روہنگیا کو کسی اور ملک میں آباد کروانے اور میانمار پر اخلاقی دباؤ ڈال کر دیگر ممالک میں رہ رہے پناہ گزینوں کا رجسٹریشن کرواکر میانمار میں انہیں پورے عزت و احترام سے واپس طلب کر شہریت کے اختیار سے انہیں سرفراز کریں۔
مسئلہ کی یکسوئی
(۱) اس معاملے میں بین الاقوامی برادری کا کوئی بھی ملک یا گروہ اپنی فوج کو بھیج کر اس ملک کے روہنگیا پر حکومت میانمار اور اکثریتی فرقے کی جانب سے ڈھائے جارہے ظلم و زیادتی سے روک نہیں سکتا۔ اگر ملک پر حملہ ہوگا تو اس سے ملک کی جمہوری حکومت کمزور ہوگی اور میانمار کی فوج کو پھر سے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینے کا موقع مل جائے گا۔
(۲) اگر ترکی یا دیگر کوئی ملک اس مسئلہ کی یکسوئی کے لئے میانمار پر فوج کشی میں تلاش کررہا ہے تو یہ میانمار میں رہنے والے روہنگیا کے لیے انتہائی غلط بات ثابت ہوگی۔ کئی برسوں سے وہاں کے حکمراں اور مذہبی قائدین ایک دوسرے کی ملی بھگت سے اکثریتی طبقے کے دلوں میں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ روہنگیا قابل نفرت ہیں ، اگر بالفرض فوجی کارروائی ہوتی ہے تو اس کی لپیٹ میں میانمار کے وہ معصوم بدھسٹ بھی آئیں گے جو اب تک کے شدت پسندوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
(۳) بین الاقوامی برداری کو چاہئے کہ میانمار کے سب سے بڑے معاون چین پر دباؤ بنائیں۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش باہمی تعاون سے میانمار حکومت پر اخلاقی دباؤ بنائیں اور میانمار حکومت اور وہاں کی فوج پر زور دیں کہ روہنگیا کو وہ اپنے ملک کا شہری تسلیم کریں اور ان کی سلامتی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
(۴) دلائی لامہ اور مسلم جماعتوں کے تعاون سے حکومت ہند کو پہل کرنی چاہئے کہ وہ میانمار میں اکثریت اور اقلیتی طبقے کے دلوں میں موجود باہمی نفرت کو دور کرنے کے لیے ایک امن کاکارواں ہندوستان سے میانمار روانہ کریں۔
(۵) بین الاقوامی برداری کو چاہئے کہ میانمار کے روہنگیا طبقے کے ساتھ ساتھ بودھ طبقے کے نوجوانوں کو اپنے ملک میں تعلیم اور روزگار کے لیے اسکالرشپ اور ویزا دے کر انہیں مرکزی دھارے سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ بین الاقوامی برداری پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے مسلسل بات چیت کے مواقع تلاش کریں تاکہ کسی بھی طرح وہاں کی حکومت اور حکومت کے اہم نمائندے بااثر مذہبی قائدین اور سماجی سطح پر کام کرنے والی رضاکارانہ تنظیموں کے ساتھ بات چیت ہوسکے۔ ان کے ساتھ مسلسل رابطہ بنا رہے تاکے مسلسل بات چیت کا دور چلتا رہا تو مستقبل قریب میں اس معاملے کا حل ممکن دکھائی دیتا ہے۔
ساتھ ہی روہنگیا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ تشدد کے خلاف جوابی تشدد اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ گاندھی کے عدم تشددانہ رویہ سے ہی بڑی سے بڑیطاقت کو زمین پر لایا جاسکتا ہے۔ جو بھی حکومت کسی فرقے کے خلاف تشدد کرتی ہے تو اس کی بزدلی کا اظہار ساری دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔ لیکن جب وہی گروہ اس تشدد کا جواب تشدد سے دیتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ پہل کس نے کی اور پھر حکومتوں کو اخلاقی قوت حاصل ہوجاتی ہے پھر وہ تشدد کا جواب تشدد سے دے۔ حکومت کے خلاف کچھ لوگوں کے ہتھیار اٹھالینے کی سزا معصوم اور بے گناہ افراد کو بھی ملتی ہے۔ عدم تشدد ہی وہ راستہ ہے جو آپ کی جدوجہد کو مضبوط اور طاقتور بناتا ہے۔ بھلے ہی آپ کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہو۔