کشمیرمیں کوئی اپنا ایمان بیچنے کے لیے تیارنہیں:فاروق عبداللہ

سری نگر8ستمبر:نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وادی کشمیر میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے علیحدگی پسندوں اور تجارت پیشہ افراد کے گھروں پر جاری چھاپہ مار کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں قومی جانچ ایجنسی اور حکومت ہندوستان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کتنا ہی ظلم کرے یہاں (کشمیر میں) کوئی اپنا ایمان بیچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے 10 ستمبر کے مجوزہ دورہ کشمیر پر کہا کہ انہیں اس دورے کے مثبت نتائج سامنے آنے کی کوئی توقع نہیں ہے۔انہوں نے صحافی گوری لنکیش کے قتل کو المناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں فرقہ وارانہ رجحانات ابھر رہے ہیں۔ فاروق عبداللہ نے جمعہ کو نیشنل کانفرنس کے بانی مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے35 ویں یوم وصال کے سلسلے میں سری نگر کے مضافاتی علاقہ نسیم باغ میں واقع اُن کے مقبرہ پرمنعقدہ ایک جلسہ عام کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر این آئی اے کے ذریعے جاری چھاپوں کے سلسلے کا مقصد صرف ڈرانا ،دھمکانا اور جھکانا ہے تو حکومت ہند کو یہ بات ذہین نشین کر لینی چاہیے کہ وہ کتنا ہی ظلم کرے یہاں (کشمیر میں) کوئی اپنا ایمان بیچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا میں تب این آئی اے کی چھاپہ مار کاروائیوں کو صحیح مانوں گا جب یہ جانچ ایجنسی کچھ سامنے لیکر آئے گی۔ اگر یہ صرف ان (علیحدگی پسندوں)کوتنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، کہ وہ اِن کے سامنے جھک جائیں گے تو میں این آئی اے اور حکومت ہندوستان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کتنا ہی ظلم کرے یہاں کوئی اپنا ایمان بیچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ نے این آئی اے سے کہا کہ وہ حریت لیڈران کی رہائی عمل میں لائے اور اُن رقومات کی تحقیقات کرے جو حکومت ہندوستان نے نیشنل کانفرنس کو کمزور کرنے کے لئے صرف کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسی کے چھاپوں کا مقصد پہلے سے ہی بے چینی کی شکار وادی کے حالات کو مزید دگرگوں کرناہے۔انہوں نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے دورہ کشمیر پر کہا کہ انہیں اس دورے کے مثبت نتائج سامنے آنے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مجھے اسے دورے سے کوئی توقع نہیں ہے۔ وہ آئیں گے اور وفود سے ملاقات کریں گے۔ وہ تو ممبران پارلیمنٹ کی وفد لیکر یہاں آئے تھے۔ اس وفد کی سفارشات کا کیا ہوا ؟ میرا ماننا ہے کہ ان کا دورہ کرنے سے کچھ نیا نہیں ہوگا۔ اگر آپ یہاں کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں تو اُن لوگوں کو رہا کردو تاکہ وہ اپنی بات سامنے رکھ سکیں۔ فاروق عبداللہ نے صحافی گوری لنکیش کے قتل کو المناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا ملک میں فرقہ وارانہ رجحانات ابھر رہے ہیں۔ وہ ان رجحانات کے خلاف لکھ رہی تھیں۔ہم ان تمام لوگوں کی حمایت جاری رکھیں گے ، جو ملک میں فرقہ وارانہ عناصر کے خلاف لڑرہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس صدر نے برما کے مسلمانوں کی حالت زار پر انہوں نے افسوس اور تشویشناک کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی غفلت شعاری کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ اگر اب بھی ان اداروں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی تو کب کھلیں گی۔بین الاقوامی برادری کو برما کے مسلمانوں کے تحفظ کے لئیبروقت اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جو مظالم ان روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ہیں اُن سے انسانیت شرمسار ہورہی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دم بھرنے والے بڑے بڑے سپر پاوروں کے دعوے بھی سراب ثابت ہورہے ہیں۔فاروق عبداللہ نے برما کی صدر آنگ سان سوچی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موصوفہ کو دُنیا کا سب سے بڑا مانا جانے والا نوبل امن انعام دیا گیا ہے ۔ اگر موصوفہ اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہورہے ان انسانیت سوز مظالم پر روک نہیں لگا سکتیں تو اس نوبل انعام کی حصولیابی پر خود بہ خود سوالیہ لگ جاتا ہے۔ انہوں نے فلاحی اداروں سے اپیل کی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے چندہ جمع کریں اور اس رقم کو نئی دلی میں قائم یونائیٹڈ نیشن کے دفتر کے سپرد کرے تاکہ یہ رقوم مستحق افراد کی راحت کاری کے لئے خرچ کئے جاسکے۔ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے کے خلاف جاری سازشوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان کویہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کشمیریوں نے نہ تو ماضی میں غلامی پسند کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں وکشمیر کا بھارت کے ساتھ مشروط الحاق اس لئے کیا تھا کہ یہاں کے عوام کو اس الحاق سے انصاف ملے لیکن اس کے بجائے ہمیں ہر وقت تشدد کا شکار بنایا گیا۔ ہمارے جمہوری ، آئینی اور سیاسی حقوق چھین لئے گئے۔ مرکزی کی بار بار غلطیوں ،وعدوں خلافیوں اور بار بار مرکزی قوانین نافذ کرنے سے آج ریاست کے حالات دن بہ دن بدتر ہوتے جارہے ہیں، حالات سدھرنے کی کوئی بھی کرن دکھائی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔مہاراجہ نے اُس بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا جس ہندوستان ہند، مسلم ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ اپنی اپنی مذہبی آزادی اور آزادء اظہارِ رائے کے ساتھ بودباش کرسکیں لیکن اس وقت بھارت میں اقلیتیں خصوصاً مسلمانوں عدم تحفظ کی شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 35اے پر حملہ براہ راست جموں وکشمیر کی پہچان پر حملہ ہے اور ہم سب کو اپنی ریاست کے تقدس اور عزت و آبرو کے دفاع کیلئے متحد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 35اے سے متعلق جس طرح کی افواہیں پھیلا جارہی ہیں، کہ یہ کسی مخصوص مذہب اور علاقے کے لئے سود مند ہیں، سفید جھوٹ ہے۔انہوں نے کہاکہ دفعہ 35اے سے ریاست کے ہر خطے اور ہر مذہب کے رہنے والوں کو اپنی شناخت اور پہچان کی ضمانت بخشتاہے۔