افسرا ن کی لاپرواہی سے کمشنری کی پچھڑی اور ملن بستیاں بجلی ،پانی، دوائی ،تعلیم اور صفائی سے محروم کمشنر دیپک اگروال کے سخت اصول اورکارکردگی افسران کیلئے چیلینج !
سہارنپور (احمد رضا ) ہماری کمشنری کودیپک اگروال کی شکل میں یوگی سرکار نے جو کمشنر ہمکو دیاہے وہ سینئر آئی اے ایس افسر بیحد محنت کش انسان دوست اور ملنسار ہونیکے علاوہ اسکول کالجوں میں جانچ کے دوران بچوں کو سبق دینے انہیں پڑھنے پڑھا نیکے گر سکھانے اور اخلاقیات کے معنی بھی سمجھانے کے ہنر سے خوب واقف ہے ایسا کمشنر کاش بیس سال قبل یہاں آیا ہوتا تو آج یہ کمشنری سپر کمشنری کے نام سے پورے ملک میں جانی اور پہنچانی جاتی! نئے کمشنر کو آئے ہوئے تیس دن ہی گزرے ہیں مگر ہرمحکمہ کی جس نظریہ سے انہوں نے جانچ پڑتال کی اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ گاندھی اور حسرت موہانی کے اس عظیم ملک میں آج بھی با مقصد اور ذہین اعلیٰ افسر دیپک اگروال کی شکل وصورت میںآئین کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے موجود ہیں کمشنر دیپک اگروال کے کام کرنے اور کرانیکے انداز سے افسران کی نیند حرام ہے دیپک اگروال کے اصولوں اور کام کرنیکے انداز کو سیکھ پانا یہاں کافی وقت سے تعینات ساٹھ سے زائد افسران کے بس کی بات ہی نہی! اندنوں افسران سویرے آفس میں آکر شکایات سنتے ہیں اور ان شکایتوں کا حسب موقع سہل انداز میں ازالہ بھی کرتے رہتے ہیں مگر کمشبر کے خوف سے کیونکہ آجتک افسران سیاست دانوں کے اعتماد میں رہکر عوام کی شکایات کا ازالہ کرنا بھول چکے ہیں مگر اب کام کرنا لازم ہوگیاہے اسلئے سبھی کے چہرے پیلے ہورہے ہیں قابل کمشبنر کا ایک ہی اصول ہے کہ صاف ستھرا اور شفاف کام آجکی ضرورت ہے بس کام سہی سہی اور وقت پر نپٹایاجائے؟ یہ بھی اہم بات ہے کہ ضلع میں جو کام پچھلے بیس سالوں میں نہی ہوا وہ ۲۰۱۷ میں ہمکو دیپک اگروال کے دور میں دیکھنے کو مل رہاہے غریب لاچار اور مفلس عوام کیلئے یہ قابل اطمینان لمحہ ہے! تیس دن کی مدت میں کمشنر میڈیکل کالج ، مقامی اسپتالوں درجن بھر پرائمری اور انٹر میڈئیٹ سینٹروں کا معائنہ کرکے اپنی ہوشیاری اور لائق مندی کا لوہا منوا چکے ہیں ہر شکایت پر فوری ایکشن اور نظم ونسق پر باز کی طرح نظریں لگائے رکھنا ہی دیپک اگروال کی بہتر تعلیمی لیاقت اور تہذیب کی پہچان بتانے کیلئے بہت کافی ہےً!
ہماری سب سے بڑی اور اہمیت کی حامل سہارنپور کمشنری ( جو سہارنپور،شاملی اور مظفرنگر جیسے تین بڑے حساس اضلاع پر مشتمل ہے) ہماری آبادی بھی بھی کل ملاکر ایک کروڑ ہی آنکی جارہی ہے مگر بد قسمتی کہ سیاسی رسہ کشی کے باعث ہماری کمشنری میں ساٹھ فیصدپچھڑی اور ملن پستیاںآج بھیصفائی، صاف شفاف پینے کا پانی، دوائی، تعلیم اور بجلی کی کمی جیسے بنیادی مسائل سے دو چار ہے صرف سہارنپور ضلع ہی کے سیکڑوں گاؤں میں آباد مسلم آبادی آج بھی گندی بستیوں میں رہنے کو مجبور ہے یہی حال ملن اور پسماندہ بسیتوں کابھی ہے کہ جہاں آجبھی صاف پینے کا پانی، دوائی اور بجلی کی معقول سپلائی بھی ان علاقوں میں پچھلے بیس سالوں سیر نہیں ہے عوامی صحت کے نظر سے بھی یہاں کوئی انتظام نہی ہے سرکاریں آر ہی ہے اور جا رہی ہے ان کمزور اور مزدور پیشہ عوام کا کوئی بھی پرسان حانہی صرف شہر سہارنپور میں ہی کمیلا کالونی ، نصیر کالونی ، حاکم شاہ ، ایکتا کالونی ، بھنگی کالونی ، نور بستی،آزاد کالونی ، پیر والی گلی، حاجی شاہ کالونی فیض علی، پرانا کلسیہ روڈ، اے ون کالونی ، حلال پور ، حسن پور ، مانک مؤ اور شہر کے بیچ کی درجن بھر دیگر بستیاں ایسی ہیں کہ جہاں ہر وقت نالے و نالیوں کا گندا پانی راستوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں بھی بھرا رہتا ہے ان علاقوں میں عوام کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے ، پہچان پتر نہیں ہے صحت کو محفوظ رکھنے کیلئے سرکاری طور پر اسپتالوں کا انتظام تو دور بچوں کی پڑھائی کے لئے سرکاری طور پر سرکاری اسکولوں کا ہی بندو بست نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ علاقہ دلت بستیوں سے بھی دلت ہے تو اسمیں کوئی شک نہیں شہر کے ان علاقوں میں اکثر پانی بھرا رہتا ہے پانی کی نکاسی کا نگر نگم کی جانب سے معقول بنددو بست نہیں ہے ان علاقوں کے ۲۵فیصد گھر آج بھی گندے پانی کے بیچ رہ کر گزر بسر کرنے کومجبور ہیں حکومتوں کے نمائندے اکثر ان علاقوں میں آکر اپنے جلسے اور پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں مگرا فسوس کی بات ہے کہ وقت نکل جانے کے بعد وہد دوبارہ ان علاقوں کا رخ نہیں کرتے کمیلا کالونی کا علاقہ ،حکم شاہ کالونی اور حبیب گڑھ کے علاقہ بیماریوں کا گڑھ بنے ہیں اس جانب حکام نے اور سرکاری عملے نے آج تک کوئی بھی دھیان نہیں دیا ہے ووٹ مانگنے کے لئے بھکاریوں کی طرح سیاسی پارٹیوں کے نمائندے یہاں لگاتار بیس سالوں سے آرہے ہیں لیکن ان مسلم بستیوں کی حالت زار پر آج تک کسی کو بھی ترس نہیں آیا علاقہ کے ذمہ دار مسلم رہبر چودھری حاجی شوکت علی، چچا حنیف ، سماجوادی قائد عرفان بھائی بجلی والے کانگریسی قائد بلال احمد نجمی، جمال احمد نجمی کاکہنا ہے کہ سب سے زیادہ مسلم ووٹ ان ہی علاقوں میں موجود ہے اور سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ ان ہی علاقوں میں آکر مسلمانوں کو سبز باغ دکھاتی ہیں اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد پھر پانچ سال کے لئے غائب ہو جاتی ہیں اپنی بے باکی کے لئے مشہور قابل سیاست داں جناب صابرعلی خان کا کہنا ہے کہ ملک کی آزادی میں جس قوم نے سب سے زیادہ حصہ داری کی اور سب سے زیادہ قربانیاں دی آج وہی قوم ذلیل و خوار ہو رہی ہے اور وہی قوموجودہ حکومتوں میں گندی بستیوں میں اپنی زندگی گزارنے کو مجبور ہے جناب جمال احمد نجمی کا کہنا ہے کہ اگر سرکار کو زرا بھی شرم ہے تو ان علاقوں میں آکر ان علاقوں میں ریاستی سرکار اپنے وزراء کو بھیج کر سروے کرائیں اور بتائے کہ ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے لئے سرکار نے آج تک کون کون سی بنیادی سہولیات اور مراعات دستیاب کرائی ہیں ۔