"امروز فردا”
سید حسین شمسی
روزنامہ راشٹریہ سہارا ممبئی
انگریزی کا ایک لفظ کرُوک (Crook) اپنے آپ میں کئی معنی سمیٹے ہوئے ہے: فریبی، بد دیانت، بے ایمان، دھوکے باز، ضدی، ٹیڑھا۔ اکثر کسی ایک شخص پر ان تمام الفاظ کا اطلاق ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے اس روایتی معاشرے میں ’اتنی ساری خوبیوں کا حامل‘ ایک شخص ملنا بہت مشکل ہے۔ لیکن پھر نظر بابا رام رحیم پر جا ٹھہرتی ہے اور لفظ کرُوک اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتا نظر آتا ہے۔ مناسب ہے کہ راقم شروع ہی میں اس بات کی وضاحت کر دے کہ اسے اس مصدقہ زانی اور ٹھگ کو ’بابا رام رحیم‘ کہتے ہوئے کراہیت محسوس ہوتی ہے، لیکن چونکہ اس قسم کے لوگ سارا سوانگ بہت سوچ سمجھ کر رچاتے ہیں، اسلئے یہاں ہندوستانی معاشرے کی جامعیت کے پیش نظر بابا ’رام رحیم‘ کا لقب اختیار کرنا مجرم کی انتہائی سفاکانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
اس قسم کے لوگ ہمیشہ کسی اور ہی اسپیس میں رہتے ہیں۔ اور یوں بھی جب کوئی شخص شرم کی لکیر پار کر دیتا ہے تو پھر اس سے ’امید‘ یہی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔
بابا رام رحیم کا وجود ہندوستانی اکثریت کے سادہ لوح ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ یہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتا ہے کہ ایک عام پریشان حال ہندوستانی، کہ جسے اپنی حکومت سے کوئی امید نہیں، وہ بڑی آسانی سے، باباگیری کی مارکیٹنگ کرنے والے ان بے ایمان ’آسمانی اوتاروں‘ کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔گرمیت رام رحیم جیسے تقریباً درجن بھر مشہور و مقبول بابا ان دنوں کم و بیش ’جنسی بے راہ روی‘ کے سبب جیلوں میں آسن جمائے ہوئے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ جنم کیسے لیتے ہیں؟ 2017 کےہندوستان میں گیروا دھاریوں کا عوامی ووٹ لیکر پارلیمنٹ تک پہنچنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے آگے آئے ہیں، لیکن یہ کس کے عمل یا بے عملی کا نتیجہ ہیں۔
بجائے اس کے قاری کو ماضی میں لے جا کر چندرا سوامی سے لیکر آسارام تک جیسے لوگوں تک کی ’بداعمالیوں‘ کو اجاگر کریں، اگر قاری کو صرف گزشتہ دو دن کے واقعات وبیانات اور انتظامیہ و سیاسی راہ نماؤں کے ’قول و فعل‘ کا جائزہ ہی لے لیں تو سمجھ میں آ جائے گا کہ معاشرے میں اس قسم کے لوگ کیونکر وجود میں آتے ہیں۔
اب ذرا دل تھام کر سنیں کہ اس بابے کو زیڈ پلس سیکیورٹی حاصل تھی, کیوں؟ نہیں معلوم, ایک ایسے شخص کو زیڈ پلس سیکیورٹی دینے کی کیا ضرورت پیش آ گئی جس کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت ’سیواداروں‘ (ذاتی غنڈوں) کا ایک جتھا ساتھ چلتا ہو۔
جس وقت یہ شخص ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنی سَو سے زائد گاڑیوں کے قافلے (بعض چینل گاڑیوں کی تعداد 800 تک بتلاتے ہیں)کے ساتھ عدالت کی جانب روانہ ہوا تو معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی ہندوستانی راجہ فتح روم کے بعد ملک میں داخل ہو رہا ہو۔ عدالت کے سخت حکم کے باوجود، عدالت کے اطراف 144 نافذ ہونے کے باوجود ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ جمع ہوئے۔
اور پھر عدالت نے بابا ’رام رحیم‘ کے زانی ہونے کی تصدیق کر دی۔
خبر باہر آئی اور ڈیرہ دار بھکتوں نے میڈیا کی اوبی وین سمیت ہر دستیاب ’ذی روح‘ کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا۔ این ڈی ٹی وی کے (جوہندوستان کا ایک انتہائی معتبر چینل ہے) اعداد و شمار کے مطابق اس ہنگامے میں30 لوگ مارے گئے۔
اب اصل کہانی شروع ہوتی ہے: ہر یانہ کے وزیر اعلی کھٹر کہتے ہیں ’’اس بھیڑ میں کچھ شر پسند/غنڈے گھس آئے تھے. گویا بابا کے پیروکاروں نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے انتہائی غصے میں (ہر چند کہ کسی سادھو کیلئے غصہ حرام ہے، لیکن یہ ساری فصلیں غصے ہی کے سبب وجود میں آئی ہیں) عدالت کو ہی للکار دیا، کہنے لگے ’’رام رحیم کے خلاف صرف ایک عورت نے الزام عائد کیا ہے۔ عدالت نے صرف اس خاتون کی بات سنی اور ان لاکھوں لوگوں کے جذبات واحتجاج کو نظر انداز کر دیا جو انہیں ’بھگوان‘ مانتے ہیں۔‘‘ ساکشی جی نے کہا کہ اگر اس ضمن میں کوئی بڑا حادثہ رو نما ہوا تو اس کا ذمہ دار ڈیرہ نہیں، عدالت ہوگی۔ ساکشی صاحب کی بے سر پیر کی باتیں سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب رکن پارلیمنٹ بننے کیلئے کسی بھی قسم کی لیاقت کی قطعی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔
کل پنچ کلا میں واقعات قیامت خیز تھے۔ جو حکومت کسی ’سازش‘ کے عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی سازشی ٹولے کو پکڑ لیتی ہے، اسے بھلا یہ خبر کیوں کر نہ ہوئی کہ ڈیرے کے معتقدین لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو گئے ہیں۔ عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل کو انتہائی سخت جملوں میں پھٹکار لگاتے ہوئے سیدھے وزیر اعظم مودی کو ہی رگید دیا۔ وکیل کے یہ کہنے پر کہ لا اینڈ آرڈر ریاست کا معاملہ ہے، معزز عدالت نے فرمایا، ’’وہ بی جے پی کے نہیں، ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔‘‘ پھر مزید رگڑا لگاتے ہوئے کہا ’’تم لوگوں نے سیاسی فائدے کیلئےپنچ کلا شہر کو آگ میں جھونک دیا۔‘‘
اصل میں سارا کھیل یہی ہے۔ ہندوستانی وزرائے اعظم و اعلی کی باباؤں کے ساتھ تصویر، باباؤں کے پیروکاروں کو یہ باور کرانے کی غرض سے وائرل کی جانے والی تصاویر کی کمی نہیں ہے کہ ’وہ بابا سے کتنے قریب ہیں۔‘ چشم فلک نے ووٹوں کے حصول کیلئے ہندوستان کے سیاسی لیڈران کو مذہبی، نیم مذہبی اور لا دینی ٹولوں کے ہاتھوں پر بیعت کرتے، ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے، ان کے اداروں اور مَٹھوں اور ڈیروں کو لاکھوں کا چندہ اور کروڑوں کی زمین ’دان‘ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بات صاف ہے، یہ بابے کوئی آسمانی مخلوق تو ہیں نہیں۔ (ان میں سے بیشتر تو اپنی انتہائی ادنیٰ سی بشری جنسی ضرورت پوری کرنے کے ہاتھوں عاقبت خراب کربیٹھے) انہیں بھی مال و دولت، زر، (زن) زمین درکار ہے۔ تو جب سیاست دان ان سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں، تو بدلے میں وہ بھی ان سے ’دان‘، زمین اور انتظامیہ کے ہاتھوں ’ناقابل تسخیر‘ ہونے کا وعدہ مانگ لیتے ہیں۔
راقم یہاں بلاخوف تردید یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہے کہ پنچ کلا میں ہونے والے واقعات ’منظم‘ تھے۔ پیروکاروں اور قتل ہونے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے یہ اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں لگتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا ڈیرا کے پیروکاروں کو ’فساد برپا کرنے کی اجازت‘ دی گئی تھی؟ کیا انہیں اپنا غصہ نکالنے کا موقع دیاگیا تھا؟‘ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے پرتشدد ماحول میں پولس کی ایک بھی گولی نہیں چلی. اور یہ مہلوکین پولس کی گولی سے نہیں بلکہ شرپسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے, ظاہر ہے سب کے سب بے گناہ اور عام لوگ ہوں گے.
آخر میں ذہن میں ابھرنے والی ایک بات کہہ دینے کو دل چاہتا ہے: اگر پنچ کلا کی سڑک پر قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرنے والے یہ پیروکار ’مسلمان‘ ہوتے، تو کیا تب بھی انتظامیہ، حکومت اور فوج اُن پر اِتنا ہی ہلکا ہاتھ رکھتی؟