سنجے گرگ کی حقیقت پر مبنی تقریر سے بھاجپائی بگلیں جھانکنے لگے؟ ۱۸۵۷سے ۱۹۴۷تک ہماری وطن پرستی کی بیباک داستانیں امر ہیں!
سہارنپور( خاص رپورٹ احمد رضا) ملک آج جن حالات سے دوچار ہے اور ملک کا عوام جس قدر تنگی ، مہنگائی ، بیروزگاری، عدم رواداری اور صحت بچانے کیلئے فکر مند ہے ان قابل غور اور قابل تشویش مسائل کو مرکزی سرکار اور یوپی سرکار لگاتار نظر انداز کرتی آرہی ہے اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی اور انکی کابینہ کے وہ لوھ کہ جنکے پرکھوں نے کبھی جنگ آزادی کی کہانیاں بھی نہی پڑھی ہیں آج وہ ہمارے وطن پرست مدارس کے علماء کرام اور طلباء کے خلاف این ایس اے کے تحت کاروائی کی دھمکی دیتے ہیں یہ انکے لئے قابل شرم عمل ہے ہمارے مدارس ، خانقاہیں اور مساجد انسانیت ، اخلاقیات اور وحدانیت کا درس دیتے ہیں ہمارا دین بد امنی اور شر کو سخت ناپسند کرتاہے سہی معنوں میں ہم ہی وطن پرست ہونیکے سبھی تقاضہ پورے کرتے ہیں؟ بھاجپاکے منھ چڑھے بے وزن لیڈر، چند مرکزی قائد، سادھوی پراچیہ اور یو گی سرکار کے کچھ وزیر مدارس کے خلاف شر انگیز الفاظوں کا استعمال کر رہے ہیں اور راشٹریہ گان تک نہی گاپارہے ہیں وہیں ہمارے مدارس جشن جمہوریہ بڑی آن وشان سے منانے میں مشغول ہیں مدارس پر جہاں ترنگے لہرائے جارہے ہیں اور قومی ترانے بھی گائے جارہے ہیں بھاجپائی قیادت اس عمل سے جل بھن رہی ہے اور طرح طرغ کی من گھڑت باتیں ہمارے مدارس کے خلاف بنارہی ہے یہ انکی کم ہمت اور کم عقلی کے سوائے کچھ بھی نہی!
ملک کی جنگ آزادی کی ناقابل فراموش تحریک میں مجاہدین حریت کی عظیم خدمات اورقربانیوں سے نئی نسل کو متعارف کرانے کیلئے مقامی مسلم انڈسٹریل گرلز انٹر کالج محلہ آتش بازان سہارنپور میں ایک تاریخ ساز سیمنار منعقد ہوا جس میں معزز علماء کرام دانشوران قوم سرکردہ سماجی شخصیات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی، پروگرام کا آغاز جامعہ رحمت گھگرولی کے استاذقاری محمد وسیم کے قومی ترانہ سے ہوا، پروگرام کے مقررین میں سے سنجے گرگ ایم۔ایل۔ اے۔ شہر سہارنپور نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنگ آزادی چند لوگوں یا چند دن پر محیط نہیں ہے اس میں بے شمار لوگوں کی جانیں گئیں ،لاکھوں سہاگ اجڑے، اکابرین علماء اور برادران وطن نے وطن عزیز کی خاطر قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ملک و ملت کیلئے اپنے جان کی قربانی دی ہے اور اس ملک کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے، انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء سے لیکر آج تک جس طبقہ کے لوگوں نے اپنے دفتروں میں قومی ترنگے کو کھبی نہیں پھہرایا وہ آج اقلیتی طبقہ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اداروں میں قومی ترنگے کے ساتھ ترانہ پڑھیں جبکہ تاریخ شاہدہے کہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک اقلیتی طبقہ نے جس حب الوطنی اور زندہ قومیت کا ثبوت فراہم کیا ہے وہ سنہرے حرفوں میں ہر سیکولر انسان کے دل میں مندہ ہے اور امٹ ہے249 آصل انڈیا ملی کونسل کے بینر تلے ہونے والے اس شاندار جشن جمہور پروگرام میں بولتے ہوئے سابق وزیر سنجے گرگنے کہا کہ اس سے پہلے ملک دشمن عناصر اپنا مکمل پنجہ جمالیں اسے اکھاڑ پھینک نے کی ضرورت ہے ورنہ بصورت دیگر ہمارا یہ آزاد دیش پھر غلام بن جائے گا اور یہ ہماری نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی، مولانا ریاض الحسن ندوی ترجمان جامعہ مظاہر علوم وقف سہارنپور نے کہا کہ ہم نے مجاہدین کی قربانیوں کو بھلادیاہے، وطن عزیز کی آبرو کے تحفظ کیلئے اپنی جان اور مال کو قربان کرنے والوں کی یادگاروں کے تحفظ کیلئے ہم نے کیاقدم اٹھائے ہیں اس پر گفتگو تو ہوتی ہے اور دعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر ہی ہوتا ہے، کم از کم ہم اپنی نسلوں کو اپنے وطن پر قربان ہونے والے شہیدان وطن کے ناموں سے تو آگاہ کراسکتے ہیں ہمیں ایسا کرنا بھی چاہئے کیونکہ یہ وہ زریں اوراق ہیں جنہیں آب زر سے لکھاجانا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہواجو بڑے افسوس کی بات ہے، چودھری جاں نثار احمد ایڈو کیٹ نے کہا کہ جنگ آزادی کی بڑی طویل داستان ہے جو متفقہ طورپر لڑی گئی اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہمارے ملک کو پنجۂ محکومی سے نجات ملی اور کندھے سے کندھا ملاکر لڑی گئی اس جنگ میں انگریزوں سے سخت مقابلہ کیا اور اس کیلئے کسی قسم کی قربانی دینے سے ہندوستانیوں نے گریز نہیں کیا، لیکن ایک مسئلہ پیداہوگیا جو بہت پیچیدہ ہے اقلیت اور اکثریت جو خطرناک شوشہ انگریز اس ملک میں چھوڑ گئے تھے وہ آج ناسور بن گیا، جو ملک کیلئے اور اس کی تعمیرو ترقی میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے، انہو ں نے کہا کہ یوم آزادی ہندوستان کی تاریخ میں بیحد اہمیت رکھتاہے آج کے دن بھارت برطانوی اقتدار سے آزاد ہوکر ایک خود محتار ملک بنا تھا ، انہوں نے کہا کہ جب کبھی بھی بھارت کی آزادی کی بات ہوتی ہے تو مسلم معاشرہ میں بھی چند نام سامنے آتے ہیں، جبکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ عظیم میں تقریباً ۵۶ہزار علماء شہید ہوئے ، لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو ہم ان محبان وطن اور سچے مجاہدین آزادی کے ناموں کو یاد کرائیں، سیمینار کنوینر مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی ضلع صدر آل انڈیاملی کونسل سہارنپورمہتمم جامعہ رحمت گھگرولی نے پروگرام کی نظامت کے دوران اپنی گفتگو میں کہا کہ پہلی جنگ آزادی کے عظیم سپوت علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا تھا اور پھر بہادرشاہ ظفر کے ساتھ مل کر ایک محاذ کھولا اور ایک عظیم لڑائی ہوئی اس میں ہزاروں علماء کرام پھانسی اور سینکڑوں کو طوپ سے اڑاکر شہید کردیا گیا اور علامہ کو کالے پانی لے جاکر شہید کیا گیا، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے آزادی کا بگل مسلمانوں نے بجایا پھر رفتہ رفتہ برادران و طن کو اس میں شامل کیا گیا ، مولانا نے کہا کہ یہ بھارت کی مٹی جس میں ہمارا خون شامل ہے ہمیں اس سے بے پناہ محبت ہے ہم پہلے بھی اس کے لئے سرکٹا چکے ہیں اور آئندہ بھی تیار ہیں، لیکن ملک کو خطرہ میں دیکھنا گوارہ نہیں ،انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے اس ملک کی آبیاری اور استحکام و ترقی کے لئے قربانیاں دی تھیں، تاکہ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کی جان مال عزت آبرو محفوظ رہے، لیکن چند شرپسند عناصر اس خوشگوار فضاء کو زہر آلود کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ان سے ہوشیار رہناہے اور اپنے اس چمن کی حفاظت کرنی ہے اور ان کے ناپاک منصوبوں کو کامیاب ہونے نہیں دینا ہے اور اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور آئین کے تحفظ کیلئے ہمیں متحد ہوکر آگے آنا ہوگا، آخر میں قاضی ندیم اختر نائب قاضئ شہر سہارنپور نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنگ آزادی میں جن اکابرین نے قربانیاں دی ہیں ہمیں انکو یاد رکھناہے اور اپنی نوجوان نسل کو ان سے واقف کرانا ہے تاکہ ہماری تاریخ نسل در نسل منتقل ہو دماغوں اور ذہنوں میں محفوظ رہ سکے ، اور انکی عظیم قربانیوں اور ان کے کارناموں سے ہماری نسل اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنائے یہی ان شہیدان وطن کو خراج عقیدت ہوگا۔ان کے علاوہ مولانا محمد شاہد مظاہری صدر جمعیۃ علماء شہر سہارنپور ’مولانا اطہر حقانی ندوی سکریٹری تنظیم دعوۃ الحق ‘مفتی عطاء الرحمان نانکہ، مولانا شمشیر الحسینی، شیرشاہ اعظم، صابر علی خاں شہر صدرملی کو نسل، مولانا احمد سعیدی ‘چودھری مظفر نے بھی خطاب کیا ، شرکاء میں حافظ صالح احقر، شیخ حیدر رؤف صدیقی ، اظہار الحسن، مولانا مختار، مولانا عبدالماجد مغیثی، سید حسان،ڈاکٹر عبدالستار، حافظ سعید‘نوید عالم ، شیخ شاہد صدیقی، چودھری ہاشم، حاجی شہزاد سیفی، یعقوب ٹیلر‘حاجی محمد الیاس تیاگی وغیرہ موجود رہے۔اس سیمینار کا اختتام قاضی ندیم اختر کی پرمغز دعاء پر ہوا۔