میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

 

خوداحتسابی: سید حسین شمسی :مدیر: ممبئی

روزنامہ راشٹریہ سہارا
اشاعت: جمعہ, 18 اگست 2017
معروف شیعہ عالم دین اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کلب صادق صاحب کا بابری مسجد کی قطعہ اراضی سے متعلق یہ بیان کہ ’اگر مسلمان یہ مقدمہ ہار جائیں تو احتجاج نہ کریں، اور اگر زمین کا مقدمہ جیت جائیں تو وہ زمین ہندوؤں کو دے کر ان کا دل جیت لیں۔’

میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اے کاش کہ ہندوستان کا عام مسلمان بھی کلب صادق جتنا ہی پُر امید ہوتا، وہ مسلمان کہ دورانِ سفر جس کی داڑھی اور حلیے پر تو طعنے دیئے ہی جاتے تھے، لیکن ماضی قریب ترین میں اس ملک کے کٹر ہندوؤں نے گئو رکشا کے نام پر (جواس سے وابستہ تمام تر عقائد کے باوجود ایک ’جانور‘ ہی ہے) درجن بھر سے زائد مسلمانوں کو ’عبرت ناک انجام‘ تک پہنچایا۔
عام مسلمان یہ کیسے یقین کرلے کہ مد مقابل دوسرا فریق بھی اتنا ہی بردبار اور سادہ مزاج ہے جتنا کہ ہمارے کلب صادق صاحب کہ جنہیں نہ جانے کیوں یہ یقین ہوچلا ہے کہ مسلمان بابری مسجد کی قطعہ اراضی ’ہندوؤں‘ کو دے کر ان کا دل جیت سکتا ہے ،جبکہ تقسیم ہند کے بعد آج تک مسلمانوں سے گاہے بہ گاہے اپنی حب الوطنی کا ثبوت پیش کرنے کو کہا جا تا ہے۔ یوگی کے ‘تغلقی فرمان’ کی مثال تازہ ترین ہے اور وہ بھی ان ہندوؤں کا کہ جنہوں نے اس معاملے کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے ریاستی حکومت کی جانب سے عدالت عالیہ کو یقین دہانی کرانے کے باوجود ہزاروں مسلح افراد کو بابری مسجد کے گنبد وفصیل پر چڑھا کر پولس کی آنکھوں کے سامنے اسے ’شہید‘ کر دیا۔ اور جوکہتے ہیں کہ بابری ہی نہیں بلکہ کاشی و متھرا کی مساجد بھی ان کے نشانے پر ہیں، جو کہتے ہیں تاج محل، تاج محل نہیں بلکہ مندر ہے، جو اعظم گڑھ کو آریم گڑھ اور شبلی کالج کو شیو بلی کالج کہتے ہیں، نیز جن لوگوں نے ہندوستان کی سیکڑوں قدیم مساجد پر دعویٰ کیاہے۔ ایک بات یاد رکھنے کی اور بھی ہے: ہندوستان کے عام ہندو اور زہر آلود راست باز ہندو کا ذہن یکساں نہیں ہے۔ اگر آپ ذہن پر زور دیں تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک کا عام انسانیت پسند ہندو مسلمانوں کی جدوجہد میں شانہ بہ شانہ شریک رہا ہے، جہاں عام ہندو انتہائی ملنسار اور بردبار ہے، وہیں ’رام مندر نرمان‘ گئو رکشا وغیرہ جیسے آندولنوں سے وابستہ ہندوؤں کے ذہن کو مسلمانوں کے خلاف ایک خاص نہج پر تیار کیا گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف انتہائی غلیظ زبان اور انتہائی غیر مہذب زبان میں زہر افشانی کرتے ہیں۔ سو ایسی صورت میں کلب صادق صاحب کو آخر یہ یقین کیونکر ہے کہ راست باز ہندوؤں کا ایجنڈا صرف ’رام مندر‘ تک محدود ہے؟ ان کے ایسا سمجھنے کی کوئی وجہ تو ہوگی؟
دروغ بر گردن راوی، حضرتِ محترم کو علم نجوم پر بھی کافی عبور حاصل ہے۔ سیاروں کی گردش پر ان کی دقیق نظرہے، جس کے نتیجے میں عیدین کے چاند سے متعلق ان کی پیش گوئیاں بھی اکثر صادق آتی ہیں، لیکن حیرت ہے کہ ملک کے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں کہ جہاں چہارجانب سے مسلمانوں پر ’یلغار‘ ہورہی ہے، مسلمانوں کاعرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ان کی شناخت مٹانے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے، مساجد و مدارس خاص نشانے پرہیں، ایسے میں وہ یہ کیسے سمجھ بیٹھے کہ ہماری فراخ دلی اور بردباری فرقہ پرستوں کے ذہنوں کواس قدربدل دے گی کہ دیگر معاملات میں یہ ہمارے ممدو ومعاون ثابت ہوں گے۔ یادرہے اگر آپ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بابری مسجد کی زمین دے بھی دیتے ہیں تو یہ آپ کی جانب قدمِ التفاتی بڑھانے کے بجائے اسے چور سے ضبط شدہ مسروقہ مال کہیں گے۔ ماضی میں دئے گئے ان کے بیانات کی روشنی میں یہ بتلانے کیلئے کسی علم نجوم کی ضرورت نہیں کہ وہ کہیں گے، جو سِرے سے تمہارا تھا ہی نہیں اسے دینے کا حق کیسا؟ اور یہ بھی جان لیں کہ جب چور ایک واقعہ میں بہ رضا و رغبت چوری کا اعتراف کرلیتا ہے تو پھر دوسرے واقعات میں بھی اس کی پٹائی ہوتی ہے اور کوئی اس کی ہمدردی کرنے کیلئے آگے نہیں آتا۔ آنجناب کے مشورہ کواخلاقی رواداری کا سودا بھی کہاجاسکتا ہے۔ ایسا سودا کرنے سے قبل یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس سودے بازی کا اختیار ہمیں قطعی نہیں۔ اللّٰہ کے حقوق بندے معاف نہیں کرسکتے۔ آپ ایک عالم دین کی حیثیت سے یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نماز و روزہ جیسے فرائض ترک کرنے والے گنہگار کو اگر اللّٰہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، لیکن بندہ ان گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔ موصوف نے اپنے مشورے کے حوالے سے ’عوام الخاص‘ کی رائے ظاہرکرتے ہوئے کچھ یوں کہا ‘میں ابھی لندن سے آرہا ہوں میں نے لندن سے یہاں تک جس سے بھی بات کی اس نے یہی کہا کہ آپ کا ایپروچ صحیح ہے، یہی ہونا چاہئے۔‘ ایک شخص دورانِ سفر زیادہ سے زیادہ کتنے لوگوں سے ملاقات کر سکتا ہے؟ غرض یہ کہ مسجد کا یہ ایسا سودا ہوگا جسے تصورکرکے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ یعنی غیرسودمند فراخ دلی و اخلاقی رواداری کے بدلے سجدہ گاہ اور خانہ خدا کا سودا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ یہود کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے ’’ویشترون بآیاتِ اللّٰہ ثمناًقلیلا‘‘ کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے بدلے بابری مسجد کو بیچنا شاید اسی زمرے میں آئیگا۔
بالفرض ہمیں اس کے عوض کوئی قطعہ اراضی دے بھی دی جائے تو وہاں اس مسجد کو منتقل کرنا کسی بھی صورت درست نہیں ہوگا، کیونکہ فریقِ مخالف خانہ خدا کی جگہ بت خانہ بناناچاہتاہے۔ بابری مسجد کی جو صورتِ حال ہے، ایسی صورت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک اس سے دست برداری جائز نہیں ہے۔ کیونکہ سوال صرف اتنا نہیں کہ کسی مسجد کو اپنی اصلی جگہ سے ہٹایا جاسکتا ہے یا نہیں، بلکہ بابری مسجد قضیہ سے متعلق ایک استفتاء جو مطالعہ میں آیاہے وہ یہ کہ’ کیا مسجد کو ہٹاکر اس کی جگہ پر بت خانہ اور مندر بنایا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب تمام فقہ میں نفی کا ہے۔‘
بابری مسجد سے دست برداری مسلمانانِ ہند کے لئے نہ صرف یہ کہ ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ ہوگا بلکہ شریعت کے منافی بھی ہے، جسے نظیر بناکر دوسری درجنوں مساجد پر قبضہ کیلئے یہ فرقہ پرست اتاؤلے ہوجائیں گے۔ اس طرح مسلمانوں پر مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ان کے اس حربہ کو مزید تقویت ملے گی کہ ’مسلمانوں کو ہراساں کرو اور اپنی ہربات منوا لو۔‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مدارس پر ’دیش دروہی‘ کا الزام عائد کرکے ہم کو جشن آزادی کی تقاریب ’پُرجوش‘ طریقے سے منانے پر مجبور کیا گیا۔ اور اْس ’جوش‘ کی عکاسی کرتی ہوئی ویڈیو بنا کر جمع کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ ہر چند کہ مسلمانانِ ہند ہمیشہ سے یومِ آزادی پُروقار انداز میں مناتے آئے ہیں اور منانا بھی چاہئے، کیونکہ ان کے اکابرنے حصول آزادی کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں پیش کی ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہماری گردن پر چھری رکھ کریہ عمل کروایا جارہا ہے۔
موصوفِ محترم نے اپنے بیان پر مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہا ’جو جاہل ہیں وہ میری بات نہیں مانیں گے، لیکن جو تعلیم یافتہ ہیں وہ میری بات مانیں گے۔‘ پھر اپنی تھوڑی تعریف بھی کی، کہنے لگے ’ہماری بات اگر آج نہیں مانی جائے گی تو لوگ ہمارے مرنے کے بعد کہیں گے کہ ہم نے یہ بات سچ کہی تھی۔‘ احتراماً عرض ہے کہ آئندہ وقتوں میں کون سا عمل سرخرو ٹھہرے گا یہ صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہم سبھی لوگ عام فانی بشر ہیں۔ ہماری دور بینی یا دوراندیشی بھی بس اتنی ہی سی ہے، اگر کسی ’صاحب نظر‘ نے بہت آگے دیکھ بھی لیا تو سَو پچاس برس سے زیادہ کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اسلئے ہمیں چاہئے کہ آنے والے وقتوں کے معاملے اور خاص طور پر وہ معاملے کہ جن کے خراب کرنے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں، آنے والی نسلوں پر ہی چھوڑ دیں۔ مولانا محترم کی رائے کے رد میں مزید اختلافی شقیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن چونکہ راقم ان کا ہم مکتب و ہم مشرب نہیں اسلئے اجتناب و احتیاط لازم ہے۔
آخر میں ایک بات یہ کہ کلب صادق صاحب بہرحال مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ہیں، سو مسلم طبقہ اس شش وپنج میں مبتلا ہے کہ کہیں یہ موقف بورڈ کا بھی تو نہیں؟ کیونکہ موصوف کے بیان کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے تادم کوئی بھی تردیدی بیان جاری نہیں ہوا، کہ چند سطری اسٹینڈرڈ وضاحتی بیان ہی آجاتا کہ ’مذکورہ بیان کلب صادق کی ذاتی رائے ہے، اس بیان سے بورڈ کااتفاق ضروری نہیں۔‘