عدم رواداری کے باعث مسلمان خود کوغیر محفوظ سمجھنے پرمجبور!

سہارنپور( تجزیاتی رپورٹ احمد رضا) لکھنؤ میں آج حصہ داری مشن، پچھڑا سماج مہاسبھا اور دستور بچاؤ سوشل گروپ کے سربراہان کی ایک اہم میٹنگ شیو نارائن کشواہاکی زیر سرپرستی عمل میں آئی جسمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوشل قائدین نے شرکت کی اس اہم مومقع پر سابق صدر جمہوریہ کے بیان کو بھر پور حمایت دیتے ہوئے گزشتہ تین سالوں سے لگاتار ملک کی آب وہوا کو زہر آلودہ بنائے جانیکی سازشوں کی بھر پور مزمت کی! اس موقع پر سوشل قائد اے ایچ ملک، ایڈوکیٹ محمد شعیب، مسلم اسکالر جمال احمد، نریندر پٹیل ، ایڈوکیٹ دیوندر سنگھ اور سونیل یادو نے کہا کہ جس طرح ۲۰۰۲ میں اس وقت کے قابل قدر صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائن نے گجرات سرکار کے وحشیانہ رویہ پر زبردست رد عمل دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیاتھا اسی انداز میں ممتا بینرجی، قابل قدر سابق صدر جمہوریہ ہند برنو مکھرجی اور گزشتہ روز حامد انصاری نے بھی جس درد کو باہر نکالا وہ سیاسی اسٹنٹ نہی بلکہ حق گوئی اور بیباکی کا شاندار نمونہ ہے ہمیں ان خیالات کی بھر پور تائید کرنی چاہئے!شیونارائن کشواہا اور ایڈوکیٹ دیوندر سنگھ نے بیباک انداز میں کہاکہ ملک کا مسلمان عدم رواداری کے چلتے آج گھروں سے باہر نکلتے ہوئے خد کو غیر محفوظ ماننے لگاہے اسکے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جا رہا ہے ملک میں ہماری مسجدیں ، مدارس اور خانقاحیں محفوظ نہیں ہے جو مراعات اکثریتی فرقہ کو دی جا رہی ہے اسکا دس فیصد حصہ بھی آج تک مسلمانوں کو نہیں ملا ہے ہمارے اکابرین اور علماء نے اس ملک کو اپنے خون سے سینچا ہے آج اسی ملک میں ہمارے ساتھ حق تلفی کی جا رہی ۱۵گست پر جبریہ طریقہ سے وندنا کرنے اور تقریبات کی ویڈیو گرافی کرانیکی ہدایات جاری ہورہیہیں یہی تو عدم رواداری کی مثال ہے جو باعث شرم عمل ہے!
قابل تعظیم ماہر تعلیم سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری نے جو کچھ بھی اپنے بیان میں واضع کیا وہ قطعی سچ اور قابل قبول ہے پورا عالم مسلم قوم کی تباہ حالی سے واقف ہے گزشتہ مئی ۲۰۱۴ سے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنانے کیلئے کے لئے ہم صرف بھگواجماعتوں، بھاجپا اور آر ایس ایس کو ہی ذمہ دار نہی ٹھراسکتے کیونکہ گزشتہ عرصہ ۲۰۱۴ مئی سے قبل ملک میں دس سال تک مرکزی تخت پر منموہن سنگھ کی سرکار قابض رہی تب بھی مسلم اقوام کے ساتھ بڑے پیمانہ پر سوتیلا برتاؤ کیاگیا ملکی خفیہ یونٹ نے بیقصور اور مظلوم مسلمانوں پردہشت گردی کے بے تحاشہ فرضی الزامات لگائے اور انکو جیلوں میں ٹھونسا عدالتی کاروائی میں لمبے عرصہ بعد ججوں کے سامنے سچ آیاکہ جبریہ طور پر کسی اہم سازش کے تحت ہی بیقصور مسلم افراد کو جیل میں ٹھو نساگیاہے تو معزز عدالتوں نے اپنے لمبے چوڑے فیصلوں میں پولیس کے خلاف بیڈ ریمارکس دیتے ہوئے اس حرکت کی مذمت کی اور اب چودہ سال، دس سال، نو سال اور چھ سال کے لمبے عرصہ بعد عدالتی کاروائی مکمل ہو جانیکے بعد ملک کی معزز عدالتیں ان مسلم افراد کو باعزت بری کر رہی ہیں گزشتہ روز ہی حیدرآباد کے دس مسلمانوں کو دس سال جیل کی مشکلات اور جبر برداشت کرلیکے بعد قابل عدالت نے باعزت بری قرار دیا سہی معنوں میں بلاوجہ مسلمانوں کو آدھی زندگی جیل میں ٹھونسنے والوں کے خلاف مجرمانہ دفعات میں کرمنل معاملہ درج کئے جاناآئینی طور پر جائز ہیں!
ملک میں قابل رحم اور قابل غور حالات پر اپنے اہم خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سوشل قائد اے ایچ ملک، ایڈوکیٹ محمد شعیب، مسلم اسکالر جمال احمد، نریندر پٹیل ، ایڈوکیٹ دیوندر سنگھ اور سونیل یادو نے کہا کہ مگراس وقت اور آج کی موجودہ سرکار اس سچ سے نظریں چرائے ہو ئے ہیں وہ صرف اسلئے کہ یہ مسلم طبقہ کا معالہ ہے اور مسلمانوں کا درد ہے اسی لئے سبھی خاموش ہیں؟ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب رہبرقوم ایچ ملک، ایڈوکیٹ محمد شعیب، مسلم اسکالر جمال احمد، نریندر پٹیل ، ایڈوکیٹ دیوندر سنگھ اور سونیل یادو جیسے حق پسند اور دلت مسلم اتحاد کیلئے لمبے عرصہ سے کوشاں ذمہ داران نے کہا کہ جس طرح حامد انصاری ، پرنب مکھجرجی اور ممتا بینرجی جیسے لوگ اکثر بیس سال قبل سے اور آج بھی مسلمانوں کی حمایت میں کھلے طور پر سہی اور حق پر مبنی بیان دے رہے ہیں یہ ذمہ دار قائد جہاں مسلم اقوام کی حالت میں سدھار کی بات کرتے ہیں وہیں بیروزگار مسلم نوجوانوں کو باروزگار بنانیکی زبردست وکالت کرنے کیساتھ ساتھ ا ردو کی کھلے عام حمایت کر رہے ہیں جبکہ مسلم طبقہ کے ووٹ حاصل کر کے پچھلے ۲۶ سالوں سے اقتدار کا مزہ لوٹنے والے ہمارے نام نہاد سیکولر مرکزی اور صوبائی وزر ا ممبران لوک سبھا اور قانون سازاسمبلی کے ممبر ان خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اس ملک کو نقصان اس ملک کے نام نہاد قومی سیاست دانوں سے ہی پہنچا ہے اورمسلمانوں کو سب سے زیادہ نام نہاد اور دینی تعلیم سے نا بلد نام نہادمسلم سیاسی قائدین اور سیاسی علماء نے تو اس قوم کی درمیانی نسل کو فساد اور فرقہ پرستی کی آگ میں جھلستا جھوڑ کر تباہ و برباد ہی کر دیاہے۔ قابل غور بات ہیکہ کسی بھی مسلم وزیر ، ممبر لوک سبھا اور ممبر اسمبلی نے پچھلے۷۰ سالوں سے ملک میں ہونے والے دنگوں پر یا پھر بابری مسجد کی شہاد ت پر اپنے عہدوں سے استفعی تکٰ نہی دیا سبھی اپنے اپنے مفاد کی طرح اپنے اپنے عہدو ں پر قائم رہے یہ مسلم سیاسی ذہن ٹھیکیدار آج بھی اسی پرانی روش پر قائم رہکر امن پسند قوم کو سیاسی جماعتوں کیلئے استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں کو روشن اور مسلم اقوام کے گھروں کو تاریک کر رہے ہیں اگر یقین نہ ہوتو گزشتہ ۷۰ سالہ سرکاری ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں مسلم قوم کی وفاداریاں اور بھاجپائی نظریہ والے مفاد پرست مسلم قائدین کی قلابازیاں خد بہ خد ظاہر ہوجائیں گی!