
خوداحتسابی: سیدحسین شمسی
روزنامہ راشٹریہ سہارا ممبئی
اشاعت: جمعہ, 4 اگست 2017
ماہِ صیام سے عین قبل لاؤڈاسپیکر پر اذان کے حوالے سے گلوکار سونو نگم نے ایک ’’دل آزار‘‘ ٹوئٹ کیا۔ اُس پر کافی لَے دَے ہوئی۔ مسلمانوں نے سونو نگم کے اعتراض پر بڑا واویلا مچایا۔ نوجوان طبقہ نے سونو نگم کے گائے ہوئے نغموں کا احتجاجاً بائیکاٹ کا اعلان تک کردیا اور ڈھیر سارے لطائف و کارٹون بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کرکےخوب بھڑاس نکالی، نیز الیکٹرانک چینلز نے حسب روایت اس ایشو کو کیش کرتے ہوئے بحث ومباحثہ کی چوپال لگا ڈالی, ادھر علماء ممبئیام نے بھی اپنے مذمتی بیانات جاری کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، حتیٰ کہ اس اعتراض کو شریعت میں مداخلت قرار دے دیا گیا۔ دونوں جانب سے ترکی بہ ترکی جوابات میں پورا رمضان گزر گیا اور جب عیدِ سعید کا چاند نظر آیا تو مسلمان عیدالفطر کی شادمانیوں سے اس قدر سرشار ہوئے کہ ساری تلخیاں بھلا کر اپنی روز مرّہ کی زندگی میں مگن ہوگئے۔ اُدھر گالم وگفتارکےشکار سونو نگم نےبھی خاموشی میں عافیت سمجھی۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، بحث و مباحثہ کا محور دیگر موضوعات بن چکے تھے اور مسجدوں کے لاؤڈاسپیکرز سے اذان کی صدائیں بھی حسبِ معمول گونج رہی تھیں کہ اسی اثناء میں ایک اور گلوکارہ سچترا کرشنا مورتی کے کان بجنے لگے۔ انہوں نے نہ صرف صبح سویرے لاؤڈاسپیکر پر دی جانے والی اذان کو باعثِ تکلیف قرار دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیاکہ سونو نگم کے اعتراض کے بعد لاؤڈاسپیکر پر دی جانے والی اذانوں کا وولیوم مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ شکر ہے ’’محترمہ‘‘ کےبیان پر مسلمان زیادہ چراغ پا نہیں ہوئے. شاید اسلئے کہ اس دوران مسلمانوں کو "ہجومی یلغار” جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا اور ان واقعات نے قوم کو بحیثیت مجموعی اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
اس موضوع پر گزشتہ دنوں کئی مضامین آئے اور بعض اخبارات میں اداریے تک لکھے گئے۔ اس ضمن میں لکھے گئے مضامین سے انحراف یا انہیں کلی طور پر قبول کئے بغیر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری رائے ذرا مختلف ہے۔ ممکن ہے کہ ہرجگہ جذباتیت سے کام لینے والے حضرات ہماری رائے سے اختلاف ظاہر کریں اور سونو نگم و سچترا کا مداح و طرفدارسمجھ کر چند ایک دشنام ہمارے نام بھی کربیٹھیں، لیکن چونکہ ہر ایک کو ایکدوسرے سے اختلاف کا مکمل اختیار ہے سو ہمارا یقین ہے کہ بنا تأمل اپنی بات رکھنی ہی چاہئے۔ بہ زبانِ قتیل شفائی ؎
اُن کےماتھےپرشکن توآئےگی لیکن قتیل
ہم کہاں لے جائیں اپنی جرأتِ اظہار کو
ڈَگر سے ہٹ کر اپنی یہ فکر اور سوچ کو بے باکی سے پیش کرنے کی ہمت ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ (ستمبر 2002) میں شائع شدہ جسٹس مفتی تقی عثمانی کا ایک پُر مغز مضمون پڑھنے سے ہوئی۔ مذکورہ مضمون کے اہم ترین جزئیات اور دلائل کو بحوالہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ "قیل و قال” کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہر زبان پر یہی کلمہ ہو ’’آمنّا وصدقنا‘‘۔
لاؤڈ اسپیکر کا’’ظالمانہ‘‘ استعمال
مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں، ’’ایذا رسانی کی بے شمار صورتوں میں ایک انتہائی تکلیف دہ صورت لاؤڈ اسپیکر کا ظالمانہ استعمال ہے۔ جب کوئی شخص کہیں لاؤڈ اسپیکر نصب کرتا ہے تو اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کی آواز کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھا جائے اور آس پاس کے ان ضعیفوں اور بیماروں پر رحم کیا جائے جو یہ آواز سننا نہیں چاہتے۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان کی آواز دور تک پہنچانا تو برحق ہے، لیکن مسجدوں میں جو وعظ اورتقریریں یاذکر و تلاوت لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہے ان کی آواز دور دور تک پہنچانے کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ گاؤں اور قصبوں کو چھوڑ کر بڑے شہروں کے مسلم علاقوں کی بات کریں تو اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مسجد میں بہت تھوڑے سے لوگ وعظ یا درس سننے کیلئے بیٹھیں ہیں، جن کو آواز پہنچانے کیلئے لاؤڈ اسپیکر پوری قوت سے کھلا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ آواز محلے کے گھر گھر میں اس طرح پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔‘‘ بعض مسلم اکثریتی علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں ہرگلی مسجد ہوتی ہے اور جمعہ کے دن ایک ہی وقت میں لاؤڈ اسپیکر پر ان مساجد سے وعظ کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے تو کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ ایک تو لاؤڈ اسپیکر کا فُل وولیوم، اس پر سے ’’خطیبان اعظم‘‘ کی انتہائی جارحانہ (چیخ کی حد تک) تقریریں مقابلہ آرائی کا سماں کچھ ایسا باندھتی ہیں کہ گھروں میں بیٹھی خواتین اور گلی کوچوں سے گزرتا مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر کس ’’دہاڑ‘‘ پر کان دھرے۔ ذرا سوچئے! جب ایک مسلمان کی یہ حالت ہوتی ہے تو برادرانِ وطن اس ’شور‘ سے کس قدر کوفت محسوس کرتے ہوں گے۔
دین کا صحیح فہم رکھنے والے اہلِ علم، خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کبھی یہ کام نہیں کرسکتے, لیکن ایسا ان مسجدوں میں ہوتا ہے جہاں کا انتظام علم دین سے ناواقف حضرات کے ہاتھ ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ حضرات پوری نیک نیتی سے یہ کام کرتے ہیں۔ وہ اسے دین کی تبلیغ کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسے دین کی خدمت قرار دیتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں ’’انّما الاعمال بالنیات‘‘کی رو سے یہ اصول بھی بہت غلط مشہور ہوگیا ہے کہ نیت کی اچھائی سے کوئی غلط کام بھی جائز اور صحیح ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ لاؤڈ اسپیکر کا ایسا ظالمانہ استعمال نہ صرف یہ کہ دعوت وتبلیغ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس کے منفی نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ ہم یہاں یہ کہنے کی قطعی کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ خدا نخواستہ مسلمان کسی کو ایذا پہنچانے کی نیت سے لاؤڈ اسپیکر لگاتے ہیں یا اس کی آواز بلند کرتے ہیں، لیکن ہاں، ہم یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے اس عمل میں سمجھداری کا مظاہرہ نہ کرنے سے، دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے یا پہنچ سکتی ہے۔
شرعی جزئیات و نکات
اس سلسلے میں ناک بَھوں چڑھانے والوں کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے مفتی تقی عثمانی چند نکات پیش کرتے ہیں۔
(الف) مشہور محدث حضرت عمر بن شبہ ؒ نے مدینہ منورہ کی تاریخ پر چار جلدوں میں بڑی مفصل کتاب لکھی ہے، جس کا حوالہ بڑے بڑے علماء محدثین دیتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے ایک واقعہ اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ ایک واعظ صاحب حضرت عائشہ ؓ کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا نہیں تھا، لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی اور اس سے حضرت عائشہ ؓ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا۔ یہ زمانہ حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے شکایت حضرت عمر ؓ تک پہنچائی کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کہتے رہتے ہیں، جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حضرت عمر ؓ نے ان صاحب کو پیغام بھیج کر وہاں وعظ کہنے سے منع کیا, لیکن کچھ عرصہ بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے خود جاکر ان صاحب کو پکڑا اور ان پر تعزیری سزا جاری کی۔ (اخبار المدینہ لعمر بن شبہ15/1)
(ب) امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ کو وعظ و تبلیغ کے آداب تفصیل کے ساتھ بتاتے ہوئے فرمایا: اپنی آواز کو انہی لوگوں کی حد تک رکھو جو تمہاری مجلس میں بیٹھے ہیں اور انہیں بھی اُسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ جب تک ان کے چہرے تمہاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرے پھیر لیں تو تم رک جاؤ اور ایسا کبھی نہ ہونا چاہئے کہ لوگ آپس میں بات کررہے ہوں اور تم ان کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردو، بلکہ ایسے موقع پر خاموش رہو پھر جب وہ تم سے فرمائش کریں تو تم انہیں دین کی بات سناؤ۔
(ج) مشہور واقعہ ہے کہ حضور اکرم ؐ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے پاس سے گزرے۔ وہ تہجد کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے آپ ؐ نے ان سے پوچھا کہ وہ بلند آواز سے تلاوت کیوں کرتے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ میں سوتے کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: اپنی آواز کو تھوڑا پست کردو۔
(د) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐ جب تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو اپنے بستر سے آہستگی کے ساتھ اُٹھتے (تاکہ سونے والوں کی نیند خراب نہ ہو)۔ انہی احادیث وآثار کی روشنی میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر بلند آواز سے تلاوت کرے جب کہ لوگ سو رہے ہوں تو تلاوت کرنے والا گناہ گار ہوگا۔
مذکورہ بالا گزارشات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت نے دوسروں کو تکلیف سے بچانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور وعظ ونصیحت جیسے مقدس کاموں کے بارے میں بھی شریعت کی ہدایت ہے کہ آواز ضرورت کے مقامات سے آگے نہیں بڑھنی چاہئے۔
کاش پہنچےیہ صدائیں تیرےگوشِ ہوش تک
اب ذرا اپنا محاسبہ کریں کہ کیا ہم اپنے دینی عمل کے ذریعہ لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچا رہے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ ہماری ایذا رسانی پر اگر کوئی اُف یا آہ کرتا ہے تو ہم آگ بگولا ہوجاتے ہیں اور ان کے اعتراض کو (جس کی جمہوری ملک میں اجازت ہے) اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئےاسلام کو خطرہ بتانے لگتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سونونگم اور سچترا کرشنا مورتی کے ٹوئٹ کو ہم اسلام مخالفت پر محمول قرار دینے کے بجائے انہیں سنجیدگی سے سمجھانے کی کوشش کرتے تاکہ ہمارے اس حسنِ عمل سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کی بدگمانی کم ہوجاتی۔
ہر چند کہ یہ بات چونکا نے والی ہے کہ اذان پر اعتراض کرنے والوں کا تعلق گلوکاری کے شعبے سے ہے۔ گلوکار ہر صدا میں، ہر آواز میں، ہر شور میں سُر تلاش کرتا ہے, اُسے مؤذن کی صدا اور مندر کی گھنٹیوں میں ’گرو‘ کی آواز سنائی دیتی ہے، انہیں تواس سے تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔ آخر مسجدوں کے میناروں سے بلند ہونے والی آواز انہیں”صوتِ صُور” کیوں لگنے لگی؟ خاص طور پر سونو نگم اور سچترا کو کہ یہ دونوں ہی بلند سُروں (اونچے نوٹس) پر گانے کیلئے مشہور ہیں پھراذان کے حوالے سے ان کا یہ رویہ کیوں ہے؟ ایئر کنڈیشن کمروں میں اذان کی اتنی تیز آواز کیسے پہنچتی ہے؟ انہیں اذانِ فجر پر ہی اعتراض کیوں ہے؟ اس کا احوال تو وہ خود جانیں، لیکن بہرحال ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے کہ "ظلم” صرف یہ نہیں کہ کسی کا مال چھین لیاجائے، یا اسے جسمانی تکلیف پہنچانے کیلئے اس پر ہاتھ اٹھایا جائے، بلکہ عربی زبان میں ’’ظلم‘‘ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ کسی چیز کو بے جگہ، بے محل استعمال کرناظلم ہے۔ چونکہ کسی چیز کا بے محل استعمال یقیناً کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کاموجب ہوتا ہے اس لئے ہر ایسا استعمال ’’ظلم‘‘ کی تعریف میں داخل ہے اور اگر اس سے کسی انسان کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ شرعی اعتبار سے گناہ کبیرہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے گناہ کبیرہ اس طرح رواج پاگئے ہیں کہ اب عام طور سے ان کے ’گناہ‘ ہونے کا احساس اور تصور بھی باقی نہیں رہا۔ ایسے لوگوں کیلئے علامہ علامہ اقبال اپنے درد کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
کارواں کےدل سےاحساسِ زیاں جاتارھا