چین کے خطرناک عزائم اورملکی حالات

مولانا اسرار الحق قاسمی

(مضمون نگارممبرپارلیمنٹ اورآل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)
جب اندرون ملک امن و سکون کا ماحول نہ ہو تو بیرونی خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان کو اس وقت کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ اگریہ صورتحال تا دیرقائم رہی جس کے قوی امکانات موجود ہیں تو ملک کو کسی بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مزید بدقستی کی بات یہ ہے کہ اندرون ملک امن و سکون کی غارتگری کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ موجودہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ گروہوں کے وہ لوگ ہیں جنہیں آج ہم بھکت کے نام سے جانتے ہیں اور وہ حکمراں جماعت کی خیرخواہی کا دعوی کرتے ہیں۔دوسری طرف حکومت بھی اپنے ان خیر خواہوں کی خاموش تائید و حماحت کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں یا خانہ پُری کرکے کارروائی مکمل کرلیتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ حالات دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہی شورش بیرونی خطرات کو دعوت دیتی ہے۔ وہ بیرونی خطرہ آن پہنچا ہے۔ جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے امرناتھ یاتریوں پر حملہ کے بعد ریاست میں امن و قانون کی صورتحال پردارالسلطنت دہلی میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے تبادلہ خیال کے دوران، اور پھر بعد میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کے دوران ملک کو یہ بری خبر سنا دی ہے کہ چین جموں و کشمیر میں آدھمکا ہے جس کے نتیجہ میں اب ریاستی حکومت کو چینی مداخلت سے بھی نبردآزما ہونے کے چیلنج کا سامنا ہے۔مفتی نے صاف لفظوں میں تسلیم کیا کہ کشمیر میں قانون و انتظام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہم غیر ملکی طاقتوں سے جنگ لڑرہے ہیں اور اب تو چین نے بھی درمیان میں آکر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک پورا ملک اور تمام سیاسی جما عتیں ساتھ نہیں دیتیں، تب تک یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے سلسلے میں پچھلے ایک ماہ سے دونوں ملکوں کی فوجیں سکم میں جہاں ہند،بھوٹان اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں ، چین کی دراندازی کی وجہ سے آمنے سامنے ہیں، اور چینی میڈیا جو چینی حکومت کی ترجمانی کرتا ہے، ہندوستان کو بار بار جنگ کے لئے للکار رہا ہے اورکہہ رہا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے بیچ جنگ ہوئی تو ہندوستان کو بڑی تعداد میں لاشیں اٹھانا پڑیں گی۔ اس نے ہندوستان کو یہ بھی یاد دلایاہے کہ وہ 1962 کی جنگ فراموش نہ کرے جس میں ہندوستان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہندوستان کی فوجی استعداد 1962کے مقابلے اب بہت زیادہ ہو گئی ہے تو چین بھی اب پہلے سے کہیں زیادہ تونگر ہو چکا ہے۔ اسی بیچ اس نے گزشتہ ہفتہ ہی کشمیر میں دخل اندازی کرنے کی کھلی دھمکی بھی دی تھی جسے ایک ہفتہ کے اندر ہی اس نے عملی جامہ پہنا دیا ہے جس سے اب ہم سب آگاہ ہو چکے ہیں۔
چین جموں و کشمیر میں مداخلت کے لئے ہی شاید چین۔ پاکستان اکنامک کوریڈور کی تعمیر کررہا ہے۔ وہ بحر ہند میں بھی اپنے آبدوزوں اور جنگی بحری جہازوں کے ساتھ آبی حدود کی خلاف ورزی کرتارہا ہے اورجیسا کہ محبوبہ مفتی نے انکشاف کیا ہے، اب وہ کشمیر میں بھی گھس آیا ہے۔ کشمیر پہلے سے ہی پاکستان کی مداخلت، علاحدگی پسندوں کی تحریک، دہشت گردی کی کی وجہ سے ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ رہاہے ۔اس مسئلہ کو حل کرنے کی مخلصانہ کوششوں کا فقدان رہا ہے اورجوکوششیں کی گئی ہیں وہ بھی ناکام ہو چکی ہیں۔ کئی ملکوں بشمول امریکہ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی ہے لیکن ہندوستان کا مستحکم موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا دو فریقی معاملہ ہے اور ان دونوں ملکوں کے بیچ راست بات چیت سے ہی مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔ اب چین کی عملی مداخلت کی وجہ سے اس مسئلہ کی پیچیدگی اور سنگینی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔اب یہ ایک مشکل ترین چیلنج ہے جس سے جلد از جلد اور مضبوطی سے نمٹنابہت ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ مرکزی حکومت کو اندرون ملک جن مسائل کا سامنا ہے انہیں بھی جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ورنہ بیرونی خطرات میں مزید اضافے کا امکان اور اندیشہ ہے۔ بی جے پی نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے، پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔ایک ہندوستانی فوجی کی جان کے مقابلے دس پاکستانی فوج کے سر کاٹ لانے کا شور مچایا گیا تھا اور یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ مضبوط اور آہنی قوت ارادی کے مالک مودی ملک کے ہر مسئلہ کو حل کردیں گے۔ لیکن تین سال کی انکی حکومت کے بیچ مشاہدے میں تو یہ آرہا ہے کہ اندرون ملک جو مسائل تھے وہ حل تو نہیں ہوئے ، البتہ کئی نئے مسائل ان میں اور شامل ہو گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مودی جی نے پاکستان سے دوستی کی کوشش کی، لیکن پاکستان کی جانب سے الٹا دشمنی میں اضافے کی کوشش ہوتی رہی۔ کشمیر اور پنجاب میں فوجی اڈوں پر پاکستانی دہشت گردوں نے حملے کئے اور ہمیں شدید نقصان سے دوچار کیا۔لیکن ہندوستان کی جانب سے کسی مضبوط پالیسی کا فقدان محسوس کیا گیا۔ اب پاکستان کی ایما پر یا اپنے طور پر چین کا کشمیر کے تنازعہ میں عملی طور پر دخل انداز ہو جانا بھی ایک نیا مسئلہ ہے ۔اسی طرح سکم میں چین کے ساتھ موجودہ تنازعہ اگرچہ کافی پرانا ہے لیکن اس میں جو شدت آئی ہے وہ سنگین ہے۔
ہندوستان میں اندرون ملک جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ حملوں کا ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ باعث تشویش ہے۔ صرف بیف اور گائے کے معاملے پر ہی درجنوں مسلمانوں کوپیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا چکا ہے، مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، اور درجنوں لوگوں کو زدو کوب کیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ قاتلوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انہیں سزا نہیں مل رہی ہے۔ مسلمانوں کے روزگار کے ذرائع کو بھی گائے کے ہتھیار سے ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی لگاتار کوششیں ہو رہی ہیں، اور مسلمانوں کو شدت سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف مظالم تو ہو ہی رہے ہیں، انصاف بھی نہیں ہو رہاہے ۔ان حالات پر پوری دنیا نگاہ رکھ رہی ہے۔شاید انہی حالات کو پیش نظر رکھ کر امریکی تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائزز انسٹی ٹیوٹ نے مودی حکومت کوانتباہ دیا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ حملوں سے القاعدہ کو فائدہ ہوگا کیونکہ ظلم اور ناانصافی کے شکار لوگوں کو ورغلانہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دہشت گردی بھی ظلم اور ناانصافی کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے۔ ہندوستانی مسلمان مظالم کا شکار ہونے کے باوجود ابھی تک گمراہ نہیں ہوئے ہیں اور انہوں نے دہشت گردی سے ناطہ نہیں جوڑا ہے۔ اس کا اعتراف موجودہ حکومت نے بھی کئی موقعوں پر کیا۔ گنتی کے چند مسلمانوں کو داعش سے ہمدردی رکھنے کے الزام میں ضرور پکڑا گیا ہے لیکن ایسے اکا دکا واقعات سے پوری مسلم قوم کو نہیں جوڑا جا سکتا۔ لیکن اگر مظالم برقرار رہے تو آئندہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے، کہنا مشکل ہے۔البتہ ایک بات طے ہے کہ جب آپ ملک کی ایک بڑی آبادی کو ٹارگٹ بنا ئیں گے تو امن و سکون پورے ملک کا خراب ہوگا۔ لیکن موجودہ حکمرانوں کو ابھی یہ بات شاید سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ انہیں ملک کو ایک رنگ میں رنگنے کی سنک ہے ۔ اس سنک سے سب پر ایک رنگ تو نہیں چڑھ سکتا البتہ چمن ضرور تباہ ہو سکتا ہے۔ کاش کہ مودی حکومت یہ معمولی سی حکمت سمجھ سکے کہ صرف نفرت کے ذریعہ ہی ووٹ اور اقتدار حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ صالح اور منصفانہ حکومت سے بھی لوگوں کے دل جیت کر بھی انتخابی جیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر اندرون ملک ہی ہندوستانی قوم متحد نہیں رہی تو چین اور القاعدہ کے خطروں سے آخر کیسے لڑا جائے گا؟