اقلیتی فرقہ پر ظلم وستم کی بھر مار پولیس اور انتظامیہ کی خاموشی مشکوک جانوروں کے تحفظ کے نام پر فرضی گؤ رکشک بنے ہیں حاکم !

سہارنپور( احمد رضا) ریاستی اے ڈی جی پی(پولیس) آنند کمار جن پر ویسٹ یوپی کے نظم ونسق کا ذمہ ہے وہ بھی فرضی گؤ رکشکوں کو نکیل کسنے کے معاملہ میں شاید اپنے ہاتھ کھڑے کئے ہوئے ہیں ضلع کے کانگریسی اور بسپا قائدین کا الزام ہیکہ گؤ کشی کے نام پر اقلیتی فرقہ کے خلاف ایک گھنونی سازش کی جارہی ہے پولیس تماشائی بنی ہے، اسمیں کوئی دورائے نہی کہ آنند کمار ایک با صلاحیت اور با اخلاق سینئر افسر ہیں مگر مقامی پولیس اسکے بعد بھی منصفانہ کاروائی سے کیوں بچ رہی ہے یہ خد میں بڑا سوال ہے؟ گاؤ کشی کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے نتیجہ میں سہارنپور کمشنری میں گزشتہ دوماہ کی مدت میں ابھی تک درجنوں مختلف تھانوں کے درجنوں علاقوں میں درجن سے بھی زائد افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں ایسے واقعات نے ضلع کو بہت حساس بنا دیاہے بات بات میں عوام مذہبی جنون کا شکار ہونے لگتے ہیں جس وجہ سے پولیس کپتان اور کلکٹر کو بہت دقعت اٹھانا پڑتی ہے مگر اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہماری مقامی پولیس بھگوا غنڈوں کے سامنے تماشائی بنی رہتی ہے ضلع میں آئے نئے ایس ایس پی ببلو کمارکے خوف سے مقامی پولیس نے فرسٹ ٹائم گاؤکشی کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں پر لاٹھیاں دکھاکر موقع پرست عناصر کو بھگا تے ہوئے بڑھتے جھگڑے کو فوری طور پر کنٹرول کر دکھایا جبکہ یہ معاملہ بھی بھینس کے گوشت کا ہی نکلا ہے نئے ایس ایس پی ببلو کمار نے کھلے الفاظ میں کہاکہ اب اس ضلع میں قانون ہاتھوں میں لینے کا یہ غیر قانونی رویہ برداشت نہی ہوگااور لاپرواہ پولیس اسٹاف کو بھی معاف نہی کیا جائیگا پولیس چیف نے سبھی واقعہ کی سہی جانچ کے ساتھ ساتھ قصور واروں کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کئے ہیں !
فرضی گؤ ر رکشا دل کے کارکنان کمشنری میں پچھلے تین ماہ سے چندپولیس انسپکٹروں اور روڈ پر ڈیوٹی کرنیوالے اسٹاف سے ساز بازرکھتے ہوئے کروڑوں کی رقم اینٹھنے اور امن پسند سیدھے سادے عوام کو بری طرح سے زرد کوب کر نے میں کامیاب رہے ہریانہ اور بنجاپ سے آنے والی سیکڑوں گاڑیوں کو ان نامنہاد گؤ رکشک دل کے افراد نے جہاں پولیس سے ساز بازرکھتے ہوئے کروڑوں کی رقم سیدھے سادے عوام سے لوٹی ہے وہیں زیادہ تر مسلم ہیلپروں، ڈرائیوروں اور بھینسوں کا کاروبار کرنے والے افراد کو بھی جانوروں کی طرح پیٹنے اور کاٹنے میں بھی یہ شاطر سیاسی اثر ورثوخ والے درندے کامیاب رہے بھاجپاکی سرکاروں والی اسٹیٹ میں ان کا اثر اور جبر کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو مل رہاہے! عید سے دو دن قبل یعنیگزشتہ دس دنوں کے درمیان بھگوا تنظیموں کے کارکنان نے تین تھانہ علاقوں کے کتنے ہی گا ؤں میں بھینس اور بیل سے لدی گاڑی کو جبریہ طور سے اپنے قبضہ میں کرلیا اور مسلم ڈرائیور و و ہیلپر سے مارپیٹ کی ن غنڈوں نے گاڑی میں موجود سواریوں کوبھی بری طرح سے زرد کوبکرتے ہوئے جانوروں کو کھلے عام لوٹ لیا اور سڑک پر غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اسی طرح تھانہ بہاری گڑھ میں تو انکی غنڈہ گردی آج بھی عروج پر ہے کل بہاری گڑھ اور مرزاپور کے مقامی ہند کارکنا اور ایک ہندو تنظیم کے رہبر پرمود کمار اور پون کمار سینی نے صاف دھمکی دی ہے کہ دس دن قبل جانور کو مارکر سڑک کنارے اسکی ہڈیوں کو پھینکنے والوں اور گؤ کے قاتل کو گرفتار کیا جائے اگر پولیس ایسا نہی کرتی تو ہم مہاپجچایت بلاکر گؤ ہتیاروں کو خد سزا سنائیں گے مرزاپور، تھانہ سرساوہ اور تھانہ چلکانہ کے ارد گرد بھی ان نام نہاد گؤ رکشکوں کے ذریعہ دودھ کیلئے لائے جارہے جانوروں کے مالکان کے ساتھ ا بھی تک درجن بھر شرمناک وارداتیں انجام د ی جاچکی ہیں مگر پولیس ان ملزمان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کو راضی ہی نہی جبکہ بے قصور افراد کو گوشت کے نام پر جیل بھیجے جانے کا مشکل ترین مسئلہ اب مقامی پولیس اور انتظامیہ کیلئے عام بات بن کر رہگیاہے عام چرچہ ہیکہ بھگوا بریگیڈ کو خوش رکھنے کیلئے پولیس یہ کام کر رہی ہے، مندرجہ بالا دھمکیوں اور بہتان تراشی کی بابت بہٹ تحصیل سے سرکل آفیسر اندوسدھارتھ کا کہناہیکہ ایسا کچھ بھی نہی ہے پولیس ملزمان کی جانچ کر رہی ہے اسکے بعد ہی سہی ایکشن لیا جائیگا سی او پولیس اندو سدھارتھ کا یہ بھی مانناہے کہ بے قصور وں کا کسی صورت نہی پھنسایا جائیگا اصل ملزمان کے خلاف ہی ایکش کیاجانا طے ہے !
پچھلے ایک ماہ سے تو اس گروپ نے پولیس کی موجودگی ہی میں دودھ دینے والے دوتین جانوروں کو پالنے کیلئے لیجارہے ہندو اور مسلمانوں کو بھی اپنے ظلم کا شکار بنانا شروع کردیاہے پنجاب ، ہریانہ اور یوپی کے تیس کے قریب تھانوں میں اس گروپ کی داداگری چلتی ہے جسکو چاہیں مارے پیٹیں اور جانوروں سے بھرے جس کسی بھی ٹرک کو لوٹیں اور جانوروں کو نکال کر ٹرک کو آگ کے حوالہ کردیں مخالفت کرنیوالوں پر لوہے کہ سریوں سے زبردست وار کریں اور جانوروں کے امن پسند مالک کو مرا ہوا جان کر خاموشی سے جائے واردات سے بھاگ جائیں یہ سبھی کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوتا آرہاہے گؤ رکشکوں کو ایسا کرنے میں پولیس کا کچھ بھی خوفٖ نہی ہے جانوروں کے لوٹ کے علاوہ یہ گروپ ابھی تک گائے کے نام پر بکرے، مرغے اور بھینس کے گوشت کا کاروبار کرنیوالے قریب چاردرجن افراد کو بری طرح سے زرد کوب کرتے ہوئے بیہوش تک کر چکے کرچکے وہیں تعجب تو یہ ہے کہ ہماری مستعد پولیس بے قصور پٹنے والے ان زخمی افراد کو اکثر علاج کرانے کی بجائے جیل بھیجنے میں سرگرم رہتی ہے کوئی حق دیکھنے اور سن لینے والانہیجس وجہ سے ان فرضی گؤ رکشکوں کے حوصلہ کافی بلند ہیں اب تو حالات یہ ہیں کہ مقامی افراد اور پولیس کے زیادہ تر تھانیدار اور ملازمین بھی سچ پر پردہ ڈالتے ہوئے لگاتار بے قصوروں کو جیل بھیجنے میں مگن ہیں روز بہ روز ہونے والے اس تماشہ سے تنگ آکراب عوان سڑکوں پر اتر نے کو تیار کھڑاہے اگر ان فرضی گؤ رکشکوں کو قابو نہی کیا گیا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں؟
سب سے اہم بات یہاں یہ بھی بتانی ضروری ہے کہ ہمارے نئے کلکٹرپرمود کمار پانڈیہ اور نئے پولیس چیف ببلوکمار کی سخت محنت اور کوششوں سے اس وقت ضلع کے حالات پوری طرح سے پر امن بنے ہیں مگر گاؤں کے علاقوں میں پولیس گشت بڑھادیگئی ہے، یہاںیہ بھی قابل غورہیکہ ویسٹ یوپی میں جس طرح کے جرائم سے اکھلیش یادو سرکار پبلک کی نظر میں نا کام اور بے وزن ثابت ہو رہی تھی اندنوں بلکل ویسے ہی سخت حالات ہمارے سامنے ہیں اور وزیر اعلیٰ یوگی جی کے احکامات بھی آج یہاں بے اثر نظر آرہے ہیں؟ضلع کے سوشل کارکنان ، دانشور اور باضمیر سیاسی طبقہ نے ان وارداتوں کی زبردست مذمت کرتے ہوئے سیدھے الفاظ میں کہا ہے کہ یوپی میں سیاسی سرپرستی کے رہتے غنڈہ راج چل رہا ہے، تمام غنڈے سیاست دانوں کے عزیز و اقارب ہیں اور مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں اسلئے غنڈوں اور مافیاؤں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ کسی بھی صورت پولیس سے ڈر ہی نہیں رہے ہیں اور جرائم پر جرائم انجام دینے سے قطعی بھی ڈر نہی رہے ہیں،آجکل ویسٹ یوپی میں پولیس کے مقابلہ غنڈہ گردی اور مافیائی گروہ کار اج کاج لگاتار ہاوی ہوتا جا رہا ہے۔ اہم اورقابل ذکر مسئلہ یہ بھی ہے ہے ہمارے موجودہ ڈی جی پی سلکھان سنگھ ایماندار ، بے لوث اور محنتی سینئر پولیس افسرآج ریاستی پولیس کے مکھیا ہیں مگر جب تک سیاسی اثر اور دباؤ پولس افسران پر رہے گا تب تک اکیلے سلکھان سنگھ بھی کرائم پر اپنی پولس سے کنٹرول نہیں کرا سکتے ہیں سہی کام کیلئے سیاسی دباؤ نہی بلکہ آزادی چاہئے ؟