
گزشتہ سال اگست کے اوائل میں وزیر اعظم نریندر مودی گؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی پرپہلی باراس وقت بھی برسے تھے جب ان ’جیالوں‘ کی بھیڑنے گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں یا گائے کا ذبیحہ کرنے کے مبینہ الزام میں یا پھر مردہ گائے کی کھال نکالنے کی پاداش میں ملک کے مختلف مقامات پر کئی مسلمانوں اور دلتوں کو ہلاک کر ڈالا تھا یا انہیں بری طرح مارا پیٹا تھا۔وزیر اعظم نے کہا تھا کہ70-80فیصدگؤ رکھشک نقلی ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے، یہ اپنے کالی کرتوتوں کو چھپانے کے لئے گؤ رکھشک کا چولہ پہن لیتے ہیں اور گؤ رکھشا کے نام پر سماجی ہم آہنگی میں زہر گھول رہے ہیں۔آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا تنظیموں نے 70-80فیصد گؤ رکھشکوں کو سماج دشمن عناصرقرار دینے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور وزیر اعظم مودی پر ایسا لگام لگایا کہ اس بیان کے تیسرے ہی دن انہوں نے اپنی تقریر میں نقلی گؤ رکھشکوں کی تعداد 70-80 فیصد سے گھٹا کر ’مٹھی بھر‘ کردی تھی۔
یہ تلخ سچائی ہے ہمارے مضبوط اور بااثر وزیر اعظم مودی کی جن کو انکے مداح سردار پٹیل کے بعد ملک کا دوسرا مرد آہن قرار دیتے نہیں تھکتے ۔ لیکن حقیقی صورتحال یہ ہیکہ آر ایس ایس کی طے کردہ لائن سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ بہر حال نقلی اور تشدد برپا کرنے والے گؤ رکھشک مٹھی بھر ہی سہی، وزیر اعظم کے انتباہ یا گزارش کے بعد انہیں اپنی غنڈہ گردی ترک کردینا چاہئے تھا یا قانون اور نظم و نسق قائم رکھنے کی ذمہ دار ایجنسیوں کو ان مٹھی بھر گؤ رکھشکوں پر ایسی نکیل کسنی چاہئے تھا کہ وہ خواب میں بھی گؤ رکشا کے نام پرقانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں کرتے ۔ لیکن ہوا اسکے برعکس کیونکہ گؤ رکھشکوں تک یہ پیغام بحوبی پہنچ گیا تھا کہ وزیر اعظم نے محض سیاسی مصلحت کی بنا پر صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے اور اصل میں تو خود وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس کا ایجنڈا پورے طور پر لاگو ہو۔
چنانچہ وزیر اعظم کی باتوں کا گؤ رکھشکوں پر کوئی اثر ہوا اور نہ پولس محکمہ نے تدارک کی کوئی کارروائی کی۔نتیجہ یہ ہوا کہ گؤ رکھشا کے نام پر تشدد ، مار پیٹ، قتل و غارتگری، ایذا رسانی کے واقعات اتنے تواتر سے ہونے لگے کہ اسکی مخالفت میں ان دنوں ملک بھر کے متعدد شہروں میں ہزار ہا لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔وہ گؤ رکھشا کے نام پرہجوم کے بڑھتے حملوں، مسلمانوں اور دلتوں کے قتل اور سماج میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ نعرے لگا رہے ہیں کہ مودی تمہارا کھیل نہیں چلے گا، پورا ملک گجرات اور اتر پردیش نہیں بنے گا ۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہجوم کے ذریعہ ہلاکت کو جائز قرار دیا جا رہا ہے، کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے اس کا فیصلہ زعفرانی ٹولہ کر رہا ہے، ہر ہندوستانی کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے احتجاج اور مخالفتوں کی وجہ سے شاید سیاسی مصلحت کی بنا پر وزیر اعظم مودی نے ایک بار پھر گؤ رکھشکوں کے خلاف لب کشائی کی ہے ۔ انہوں نیگزشتہ دنوں کہا ہیکہ گؤ رکھشا کے نام پر ہلاکت ناقابل قبول ہے۔سمجھا جا سکتا ہیکہ یہ محض خانہ پُری ہے۔ پچھلے سال انہوں نے ایسی ہی لب کشائی کی تھی لیکن الٹا گؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی بڑھتی ہی گئی جو ابھی بھی پوری قوت سے جاری ہے۔
آر ایس ایس اور مودی حکومت کی سرپرستی اور پشت پناہی میں گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کااصل نشانہ کون ہیں، اس سے پورا ملک واقف ہے لیکن حال ہی میں ایک غیر سرکاری صحافتی ادارے نے اس کا بھر پور تجزیہ پیش کیا ہے ۔انڈیا اسپینڈبنیادی طور پر قومی و صوبائی سیاست، معیشت، تعلیم، صحت، زراعت، سیکورٹی جیسے موضوعات پرحقائق اور اعداد و شمار اکٹھا کرتا ہے اور انکی روشنی میں حکومت وقت کی پالیسیوں پر تجزیہ پیش کرتا ہے۔ اعداد وشمار کی بے پایاں معتبریت کی وجہ سے ’دستاویزات کی ایجنسی‘ کے بطور مشہور اس ادارے نے بہت ہی واضح طور پر کہا ہیکہ گؤ رکھشکوں کے97فیصد حملے مودی کے دور حکومت میں ہی ہوئے ہیں۔ اس تعلق سے25 جون 2017تک کے جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں انکے مطابق ہندوستان میں گزشتہ آٹھ برسوں،2010تا2017،کے دوران بیف اور گؤ رکھشا کے معاملے پر ہونے والے 51فیصد تشدد کا نشانہ مسلمان رہے ہیں۔ تشدد کے 63واقعات میں 28افراد ہلاک ہوئے جن میں86فیصد مسلمان تھے۔ان میں 97فیصد سے زائد حملے وزیر اعظم نریندر مودی کے مئی 2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد ہوئے ہیں اور گؤ رکھشک نصف دہشت گردی یعنی 63کے منجملہ 32واقعات اُن ریاستوں میں پیش آئے ہیں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے۔
سات سال کے عرصہ میں ہلاک 28افراد میں سے24 مسلمان تھے۔ ان حملوں میں،جن میں نصف سے زائد حملے محض افواہوں پر کئے گئے، 124سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔بہر حال گؤ رکھشک دہشت گردی کے حوالے سے 2017بدترین سال ثابت ہوا۔ ابتدائی چھ ماہ میں اس طرح کے 20حملے کئے گئے جو 2016کے مقابلے 75فیصد زیادیہ ہیں۔2010 کے بعد سے یہ گؤ رکھشک تشدد کا بدترین سال رہا۔ ان حملوں میں ہجوم کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر قتل کر دینا، گؤ رکھشکوں کے حملے، قتل اور اقدام قتل،قتل، ہراسانی، تذلیل؟ اور اجتماعی عصمت ریزی جیسے جرائم شامل ہیں۔ دو واقعات تو ایسے شرمناک ہیں کہ ان میں مقتولین اور متاثترین کو باندھا گیا، برہنہ کر کے پیٹا گیاجبکہ دو دیگر واقعات میں درختوں سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ ملک کی 19ریاستوں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں اتر پردیش میں 10، ہریانہ میں 9، گجرات اور کرناٹک میں 6-6، مدھیہ پردیش، دہلی اور راجستھان میں4-4 واقعات پیش آئے۔ اسی طرح گؤ رکھشک دہشت گردی کے 63میں سے 32واقعات اُن ریاستوں میں پیش آئے جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ گؤ رکھشکوں کی دہشت گردی کا اصل نشانہ مسلمان ہیں اور انکی نوعیت فرقہ وارانہ ہے۔ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہیکہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے بیشتر واقعات میں قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور ظلم کے شکار افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انصاف کے تقاضو کو پامال کیا۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے اقتدار والی ریاستوں کی حکومتیں بھی نہ صرف گؤ رکھشک تشدد سے نمٹنے میں ناکام رہیں بلکہ انہوں نے بھی اس طرح کی دہشت گردی کے خلاف کوئی سخت قانون بنایا اور نہ ہی موجودہ قوانین کے تحت مجرموں کے خلاف کوئی مناسب کارروائی کی۔
بات دراصل یہ ہیکہ بی جے پی کی سیاسی فصل مسلمانوں کے لہو سے ہی لہلہاتی ہے۔ یہ آر ایس ایس کا آزمودہ نسخہ ہے۔ گائے اور بیف کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف مظالم پچھلے سال بھی ہوئے تھے۔ تجزیہ کار اندازہ لگا رہے تھے کہ ان مظالم کا بی جے پی پر منفی اثر اتر پردیش کے الیکشن میں پڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حکومتی سطح پر تمام ناکامیوں اور عدم رواداری کی کھلی حوصلہ افزائی کے باوجود بی جے پی نے اتر پردیش میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ اب 2019کا پارلیمانی الیکشن جیتنے کے لئے بی جے پی کو اپنے آزمودہ حربوں کو اور بھی شدت سے استعمال کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اس بات کے امکانات بہت معدوم ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ فضا قائم ہو جائیگی یا گؤ رکھشا کے نام پر غنڈہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔
(مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اورآل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)