تہران،3جولائی: سنجیدہ نوعیت کی دو تحقیقاتی رپورٹروں کی جانب سے تحریر کی جانے والی کتاب The Exileمیں 2001سے 2011کے دوران ایران میں روپوش ہونے والے القاعدہ کے اراکین اور ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں معلومات کا انکشاف کیا گیا ہے۔کتاب کے دونوں مصنفوں کے نام Cathy Scott-Clarkاور Adrian Levyہیں۔ برطانوی روزنامے ’’گارڈین‘‘نے ہفتے کے روز کتاب کے بعض مندرجات شائع کیے ہیں جن کو عربی روزنامے ’’الشرق الاوسط‘‘نے بھی نقل کیا ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ موریتانیہ سے تعلق رکھنے والے محفوظ ولد الوالد عُرف ابو حفص الموریتانی نے تقریبا دس برس تک القاعدہ تنظیم کی شریعہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ 11ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان سے فرار ہونے پر محفوظ کو کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی۔ محفوظ نے ایرانی حکومت سے رابطہ کیا اور براہ راست ’’پاسداران انقلاب‘‘کے ساتھ معاملات طے کیے۔ اس وعدے کے مقابل کہ القاعدہ ایران کو حملوں کو نشانہ نہیں بنائے گی.. ایران نے آمادگی کا عندیہ دے دیا۔ مارچ 2002میں القاعدہ تنظیم کے بڑے رہ نماؤں اور بن لادن کے متعلقین کی بڑی تعداد نے ایران کا رخ کیا۔
گارڈین اخبار کے تبصرے کے مطابق القاعدہ کی قیادت کے استقبال کے نتیجے میں ایرانی گروپوں کے درمیان عدم اعتماد کی چنگاری پھیل گئی۔ انٹیلی جنس اور سکیورٹی کی ایرانی وزارت کے ذمے داران نے جب ملک مین القاعدہ کے رہ نماؤں کی پاکستان اور افغانستان میں اپنے متعلقین کے ساتھ ٹیلیفون کالوں کی نگرانی کی تو ایرانی سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ان رہ نماؤں کو گرفتار کر لیا اور ان میں سے بعض کو ان کے وطنوں کو واپس بھیج دیا۔ ان فیصلوں کو مات دینے کے واسطے’’پاسداران انقلاب‘‘نے القاعدہ کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ٹیلیفون استعمال نہ کریں۔ایران کے بہت سے ناقدین یہ کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ کے ساتھ ایران کے تعلقات معاندانہ نہیں تھے بلکہ بعض مرتبہ تو تعاون پر مبنی تھے۔
دوسری جانب امریکا کا کہنا تھا کہ ایران دہشت گردوں کو پناہ فراہم کر رہا ہے تاہم اس الزام سے بچنے کے لیے ایران نے ان دہشت گردوں کی گرفتاری کے اعلان میں ہی عافیت جانی۔ القاعدہ کے رہ نماؤں نے تہران کے شمال میں قُدس فورس کی ایک عمارت میں قیام کی۔ اس دوران بن لادن کے بعض متعلقین اسی عمارت کے ایک علاحدہ ونگ میں ٹھہرے جب کہ دوسرا گروپ دیگر محفوظ گھروں میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے علاوہ ایک گروپ کو بدترین جیلوں کا مزہ چکھنا پڑا جس کے نتیجے میں اس گروپ نے بھوک ہڑتال کر ڈالی۔ القاعدہ کے ان تمام اراکین کو کسی بھی وقت ایران سے کوچ کرنے کی اجازت تھی تاہم عراق میں امریکی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لینا وہ واحد صورت تھی جس کے لیے کوچ کی اجازت نہیں تھی۔