ہمارے ہندوستان میں جہاں سیاست کی تعریف بدل گئی ہے وہیں بھائیچارے کی تعریف بھی اچھی خاصی متاثر ہوئی ہے۔کہتے ہیں ، کافر بھی درگاہوں کو جاتا ہے،مسلمآن بھی مندر جاتا ہے یہ بھاءیچارا نہیں تو اور کیا ہے! کافر مسجدوں کو چندہ دیتے ہیں مسلمان مندروں میں دان کرتے ہیں،کافر نیاز اور افطاری میں شرکت کرتا ہے تو مسلمان پرساد کھالیتا ہے اور اگر اسکے بر عکس کوئی کرے تو اسے کمیونل قرار دیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں جہاں کئی ایک شقافتیں ہیں وہاں اتہاد اور بھاءیچارا ہونا ہی چاہئے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم ہمارے دین پر عمل کرو ہم تمہارے دین پر عمل کریں،اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو یہ ایک نیا مذہب بن جائیگا جس میں سارے مذاھب کی چیزوں کو اکٹھا عمل میں لایا جاتا ہے۔حالانکہ قرآن مجید میں یہ صاف فرما دیا گیا ،پارہ ۳۰،سورہ کافروں میں ہے۔
لكم دينكم ولي دين
” تمھارے لئے تمہارا دین ہمارے لیے ہمارا دین”
اگر مسلمان یا غیر مسلم شخص ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ، غیر مسلم درگاہوں کو اور مسلمان مندروں کو جاتے ہیں تو یہ انکی ذاتی پسند ہوگی، اسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی آءین ہندوستان سے۔اگر مسلمان ایک خدا کو بھی مانے اور ساتھ میں شرک کرکے بتو کے آگے بھی سر جھکائے یا انکا چڑھاوا کھائے تو وہ یکتا پرست ہی نہ رہا بلکہ مرتد ہو گیا ، غیر مسلم اگر کروڑوں دیوتاؤں کو بھی مانے اور ساتھ میں مسلمانوں کے خدا کو بھی مان لے تو اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑےگا کیونکہ ان کے مذہب میں یکتا پرستی نہی۔
بات یہ ہے کہ اتہاد کے معنا يہ نہیں کے ہم ایک دوسرے کے مذہب کو مان لیں یا ایک دوسرے کے مذاہب میں دخل اندازِی کریں۔سیکڑوں شقافتو و تہذیب کے پروردہ ملک میں ہونا یہ چاہئے اور صحیح بھی یہی ہےکہ ہر کسی کو کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کا اختیار ہے۔تم اپنے دین پر عمل کرو ہم اپنے دین پر عمل کریں بس اس وجہ سے آپس میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔مذہب ذاتی ہے اور اتحاد آفاقی ہے۔