۔ایک ہی کمشنری میں اربوں کی وقف جائیدادیں ادھر سے ادھر۔ ویسٹ یوپی میں پچھلے ۲۵سالوں سے جاری ہے وقف املاک پر حملے!
سہارنپور ( آمنا سامنا میڈیاخاص رپورٹ احمد رضا) ہمارے مرکزی وزیر اوقاف مختار عباس نقوی، چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور ریاستی وزیر اوقاف محسن رضا کچھ بھی بیان دیں اور اپنی جانب سے کتنی ہی سخت سے سخت ہدایت جاری کریں ان مافیاؤں کا کچھ بگڑنیوالا نہی کیونکہ اب انکے سفارشی انکی پارٹی کے ہی ذمہ دار لوگ بنے ہوئے ہیں، اہم سوال یہ ہے کہ سہارنپور، میرٹھ اور مراد آباد اور بریلی کمشنری کی وقف املاک پورے اتر پردیش کی کل وقف املاک کا قریب قریب ۴۵ فیصد کے آس پاس ہے اسلئے یہاں پر ہی وقف املاک کی تباہی سب سے زیادہ ہ کی جارہی ہے یہاں پرہی مسجدوں کی جائیدادوں، قبرستانوں کی زمینوں، وقف مکانات، وقف دکانات اور دیگر قیمتی وقف املاک کو گزشتہ ۲۵ سالوں سے اس زون میں جس بے دردی کے ساتھ لوٹا اور خرد برد کیاگیا مگر مرکز کی سرکار نے تین سال کی مدت میں اور یوگی سرکار نے سو دن کی مدت میں ایک بھی جانچ یا رپورٹ کا جز عوام کے سامنے پیش نہی کیا اور کسی بھی ایک اصل مجرم کا چہرہ ملک کے عوام کو نہی دکھایا ہے خالی ایف آئی آر کرنے سے اوقاف کی جائیدادیں واپس ملنے والی نہی ہیں اگر ہمت ہے تو منصفانہ کارکردگی کا مظاہرہ ضروری ہو گیاہے ؟ آخر یہ کیساتماشہ اس کارکردگی کی مثال ملنا بہت مشکل ہے مرکز اور ریاست میں اندنوں بھاجپا کی سرکاریں اقتدار میں ہیں پھر بھی یہی کھیل آج بھی انہی متولیان، وقف ملازمین اور ذمہ داران کی سرپرستی میں دلیری کے ساتھ جاری ہے دوسری جانب مسلم قوم روزی روٹی اور مکان کے لئے تنگ ہے رہنے کو مکان نہی کھانے کو روٹی نہی کوئی ذریعہ معاش بھی نہی جبکہ وقف سے جڑے ہزاروں افراد، وقف ملازمین اور وقف کے قائدین کے لاکھوں عزیرو اقارب اور کارکنان کے پاس بھاری بھر کم دولت اور جائیدادیں موجود ہیں جنکی مکمل تفصیلات یکجا کرائی جانی انصاف کیلئے اہم کڑی مانی جارہی ہے دیگر وقف برڈ لکھنؤ میں گزشتہ سالوں میں وقف املاک کو خرد برد کرنیکی بد نیتی سے جو ہزاروں فائلوں کو آگ کے حوالہ کیا گیاہے اس شاطرانہ ،ظالمانہ، جابرانہ اور مجرمانہ حرکت کی بھی سہی تصویر عوام کے سامنے لایا جانا بیحد ضروری ہوگیاہے ؟
بھاجپائی سرکار کے بارے میں مٹھی بھر سیاسی قائدین کچھ بھی کہیں مگر یہ سچ ہے کہ موجودہ مودی سرکار اور یوگی سرکار نے شیعہ اور سنی وقف بورڈ میں پھیلی بد عنوانی کے خلاف جو سنجیدہ ایکشن لیاہے وہ صد فیصد وقف املاک کی بہتری کیلئے اچھا رہیگا مگر صرف ایف آئی آر اور ہدایت دینے سے کام چلنے والا نہی بھاری بھرکم مچھلیوں کو جکڑنا اتنا سہل نہی ہے ہم بتادیں کہ جب یوپی میں راجناتھ سنگھ چیف منسٹر تھے تب بھی وقف املاک کو مکمل تحفظ ملاتھا اور ہمارے چیف منسٹر راجناتھ سنگھ نے کافی ایماندارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقف کی املاک کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکاتھامگر بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی سرکاروں میں ہمیشہ ہی وقف املاک کو تباہ وبربادکیا گیاہے وقف سربراہ، ملازمین اور وقف متولیان کی ملی بھگت سے اربوں کی املاک بڑے صفاکانہ انداز میں ہڑ پ کرادیگئی ہیں آج ان سبھی کی تفصیلات یکجہ کی جانی چاہئے تاکہ یہ رقم غریب مسلم اقوام کی حالت سدھار نے میں کام آسکے! آج ریاست میں پھر سے بھاجپا سرکار میں آئی ہے تو یوگی سرکار نے بھی وقف کے تحفظ کا جو پرچم اٹھایاہے اسکے بہتر نتائج ضرور ہم سبھی کے سامنے آئیں گے اصل میں یہ املاک ہمارے بزرگوں کی ہے اسکا تحفظ بیحد ضروری ہوگیاہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وقف بورڈ کے جو چیئر مین بسپاکی حمایت سے بنے تھے سماجوادی سرکار بن جانیکے بعد پھر سے وہی شخص اکھلیش کے وفادار بنگئے اور وقف کے اسی اہم عہدے پر فائز ہوگئے کسی نے یہ تک نہی پوچھا کہ کل تک جسکی خدمات بہوجن سماج پارٹی کیلئے تھیں آج پھر وہی سماجوادی کا وفادار کیوں بن بیٹھا یہاں بھی سارا کا سارا کھیل کی وقف املاک کی بندر بانٹ کاہے جو جتنا فیض پارٹی قائدین اور وقف ملازمین کو پہنچائیگا وہ اتناہی وفادار کہلائیگاپچھلے دس سالوں سے شیعہ اور سنی وقف بورڈ میں یہی چل رہاہے ہماری کمشنری میں سنی اور شیعہ وقف کی بہت بڑی جائیدادیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیگئی ہیں اربوں کی جائیدادیں خردبرد کئے جانیکے بعد بھی انکو سکون نہی یہی وقف مافیا ؤں کا گروہ اب بھاجپاکے ارد گرد گھوم تے نظر آرہے ہیں سچ یہی ہے کہ ۲۰۰۷ میں بہوجن پارٹی سرکار میں اسکے بعد ۲۰۱۲ میں سماجوادی پارٹی کی پانچ سال کی مدت والی پچھلی سرکار میں صرف کمشنری کی وقف املاک کوجو بڑا نقصان ہوا ہے اسکی تالافی آنے والے بیس سالوں تک بھی ممکن نہی آج کمشنری کے سالہاسال پرانے قبرستانوں کو مسمار کرکے وہاں دکانات ، تجارتی مرکز، ہوٹل اورمکانات بنے ہوئے ہیں قبروں کو بے دردی کے ساتھ نیست ونابود کیاجاچکاہے ان قبرستانوں کو شادی بیاہ اور دیگر تقاریب کیلئے استعمال کیا جارہاہے ریاستی وقف بورڈ، مقامی لیڈران، اوقاف کی مقامی ملازمین اور ریاستی وقف بورڈ کے آڈیٹر ماہ اپریل ۲۰۱۲ کے بعد سے نئی وزارت قائم ہوجانیکے بعد ہی وقف مافیاؤں سے ملکر سہارنپور ، میرٹھ، مراد آباد اور بریلی کمشنری میں قائم وقف کی اربوں کی املاک کو خرد برد کرنیکا کا جو شرمناک پلان بنایاتھا ریاستی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے عملہ اور وزارت اوقاف کی مدد کے ماہ فروری ۲۰۱۷ تک اس پلان کے تحت اربوں کی املاک کو خرد برد کرتے ہوئے مافیاؤں نے اپنا نشانہ بہ آسانی مکمل کر لیاہے جو قوم کیلئے ایک بڑا زخم ہے؟ آپکو بتادین کہ سماجوادی سرکار کے سابق چیف سیکریٹری آلوک رنجن نے اپنی تعیناتی کے درمیان ایک سال کی مدت میں اتر پردیش کے سبھی ضلع مجسٹریٹ کو بار بار وقف املاک پر کڑی نگاہ رکھنے کی سخت ہدایت دی تھی آلوک رنجن نے صاف الفاظوں میں کہا تھاکہ صوبے میں کسی بھی طرح سے سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ وقف اور قبرستان کی زمینوں پر ناجائز قبضے نہیں ہونے دےئے جائیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ر یاستی وزارت اوقاف ،سنی سینٹرل وقف بورڈ لکھنؤ کے صدر اور انکے عملہ کے چند ملازمین و ذمہ دار اپنی سیاسی طاقت کے نشہ میں گزشتہ۲۵ سالوں سے مغربی یوپی کے تیس سے زائد اضلاع میں اربوں روپیوں کی وقف املاک کو خرد برد کرکے ناجائز قبضے اور ناجائز تعمیرات کرا چکے ہیں گزشتہ سپا سرکار میں ایک نہی بلکہ تین سابق چیف سیکریٹری گزشتہ عرصہ میں لگاتار غیر قانونی طور سے وقف کی املاک کو خرد برد کردینیکے غیرقانونی عمل کو فوری طور سے بند کرائے جانے پر زور دیتے رہے ہیں اور سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ وقف اور قبرستان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ جلد از جلد ختم کرائے جانیکے حق رہے ہیں مگر اسکے بعد بھی علاقائی محکمہ اقلیتی امور، مقامی تحصیلدار اور وقف ملازمین کے ساتھ ساتھ سماجوادی پارٹی کے چند با اثر قائدین اس غیر قانونی کام سے خد کو علیحدہ نہی کر پائے ہیں وقف املاک کو تباہ کر نے کا یہی وہ شرمناک عمل ہیکہ کہ جسکے نتیجہ میں وقف املاک کو بڑا خسارہ پہنچاہے گزشتہ پچیس سالوں سے کسی بھی ضلع مجسٹریٹ نے لاکھ شکایتوں کے بعد بھی ان وقف مافیاؤں کے خلاف کسی طرح سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ بھی ایکشن نہی لیا مزے دار بات تو یہ ہے کہ چند افسران ، سیاسی قائدین اوروقف کے اعلیٰ اور ادنیٰ سبھی ذمہ دار ان نے حق پر مبنی شکایات کے سیکڑوں سنگین معاملات پر وہی کام کیا کہ لکھنؤ میں بیٹھے انکے آقاؤں نے پسند کیا دیگر معاملات میں سبھی خاموش ہی رہے آج ان سبھی شکایات اور تنازعات کی از سر نو جوڈیشیل جانچ قوم کے حق میں بیحد ضروری ہوچکی ہے !
قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ سہارنپور ، مراد آباد، بریلی اور میرٹھ کمشنری کے تیس کے قریب اضلاع میں کئی سو کروڑ کی وقف املاک خرد برد کیجا چکی ہیں،ایک معمولی تجزیہ کے مطابق سہارنپور ہی میں پرانی عید گاہ کی جائداد ، جامع مسجد کلاں کے سامنے بڑی مظاہر علوم کی جائداد ، مانک مؤ عید گاہ پل کے نیچے والی جائیداد، پراگ پور قبرستان ( ۲۵ بیگھہ قیمتی زمین پر پکی تعمیرات بن چکی ہیں مگر حکام تماشائی بنے ہوئے ہیں وقف قبرستان کے سیکریٹری شمیم انصاری ہائی کورٹ سے ناجائز قبضہ ہٹوانے کے آڈر بھی لیکر آئے مگر آبھی مافیاؤں کا قبضہ لگاتار جاری) ، بابا شاہ نور صاحب ؒ کیکئی ارب کی بیش قیمتی جائیداد اور اسی طرح دیگر قیمتی جائیداد کو ان افراد نے اپنے قبضہ میں لیکراور موٹی پگڑیاں لیکر ان جائیداد پر غلط طور سے قبضہ دیدئے ہیں اوروقف جائیدادوں سے ملنے والی رقم کی گھروں میں بیٹھ کر بندر بانٹ کی جا رہی ہے شہر کے چند ذمہ دار لوگوں نے الزام لگایا کہ ان تمام معاملات کے پیچھے ایک پارٹی لیڈرکا بڑا ہاتھ رہا ہے انہیں کے گھر بیٹھ کر یہ سب پلاننگ ہوتی رہی ہے لاکھوں میں وقف کی دکانوں کو پگڑی میں دے کر وقف املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان جان بوجھ کر پہنچایاجارہا ہے عوام کے چند با اثر لوگوں نے بتایا کہ جلدہی وقف املاک کے عہدیداران اور ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے حضرات کو دعوت دے کر پنچایت بلائی جائے گی اور وقف املاک کو خرد برد کرنے والوں کے نام اور ان کے کارنامے منظر عام پر لائے جائیں کچھ افراد نے صاف الزام عائد کیاہے کہ جامع مسجد کلاں کے سامنے پرانی سبزی منڈی پر جو جگہ مظاہر علوم وقف کی تحویل میں تھی اس میں دکانات کے نام پر۸۰؍لاکھ روپے وصول کرکے ان زمین مافیاؤں نے ہڑپ لیا گیا ہے۔ اسی طرح مانک مؤ کے راستہ والے ریلوے پل کے نیچے وقف کی زمین پر ایک ایک دکان سات سات لاکھ روپے لے کر دے دی گئی ہے اس گروہ پر یہ بھی الزام لگایا گیاہے کہ وقف جائداد کی کمیٹیوں میں شامل حضرات با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر غیر مسلموں کووقف کی جائداد یں لگاتار فروخت کر رہے ہیں۔ مگر سبھی ذمہ داران اتنابڑا کرائم کرنے کے باوجود بھی خاموش بیٹھے ہیں ۔ ہمارے ملک کی یہ تہذیب رہی ہے کہ مسلم وقف جائیدادوں کے معاملات میں اوقاف کا وزیر اور اوقاف کاصدر کسی بھی جماعت یا برادری کا ہو سبھی کی نظر وقف کی عربوں روپیہ کی قیمتی املاک پر ہی ہوتی ہے نتیجہ کے طور پر وزارت اوقاف اور سنی سنٹرل وقف بورڈ کی سازباز کے نتیجہ میں صرف ہماری ریاست اتر پردیش ہی میں آج تک سینا تان کر ہمارے اکابرین کی دوسو سال پرانیکئی سو کروڑ کی جائیدادیں تلف کردیگئی ہیں سرکار کسی کی بھی ہو مسلم اوقاف کی مفت پڑی جائیدادوں پر سبھی نے ہاتھ صاف کیاہواہے بقول شیعہ قائد مولانا کلب جواد ریاستی وزارت اوقاف ہی پلاننگ کرکے ہمارے بزرگوں کی وقف املاک کو نیست نابود کرنے پر تلی ہے گزشتہ تیس ستمبر کو لکھنؤ میں ایک اہم تقریب میں قابل قدر شیعہ عالم نے کہاکہ سرکار اگر ایماندار ہے تو اوقاف کی ذمہ داری شیعہ اور سننی علماء کرام کو سونپ دے تاکہ وقف جائیدادوں کی تباہی کو روکا جاسکے؟ قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اسی ضمن میں سال کے آخر میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے قابل قدر جسٹس جناب دنیش مہیشوری جسٹس جناب اننت کمار نے لکھنؤ کے مال روڈ واقع عظمت اسلامیہ قبرستان پر ناجائز قبضہ داروں کوہی اصل اور جائز کرایہ دار تسلیم کرنے کے محکمہ اوقاف کے غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کے خلاف زبردست ریمارکس دیتے ہوئے وزارت اوقاف اور وقف بورڈ سے اس ضمن میں وضاحت پانچ جنوری ۲۰۱۶تک پیش کرنے کاحکم فرمایاتھا جسکی بورڈ ابھی تک تکمیل کرپانے اور قابل احترام عدلیہ سچائی بتانے سے جان بوجھ کر بچتا آرہاہے ریاست کی راجدھا نی لکھنؤمیں جب وقف املاک کی یہ حالت ہے تبریاست کے دیگر اضلاع میں کہ جہاں اوقاف کے زمین مافیاء قبضہ داروں نے زیادہ تر قبرستانوں کو توڑ کر اور وہاں دوسو سال پرانی قبروں کو صاف کر دیا ہے ،مسجدوں کی اور عید گاہوں کی زمینوں کو بھی وزارت اوقاف اور بورڈ کی شہ پرمارکیٹ اور کمپلیکس میں تبدیل کرکے کروڑوں روپیہ ہضم کر لیا گیاہے !